الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
حدیث نمبر: 2016
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: سمعت ابا عبد الله الجدلي، يقول: سالت عائشة عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: " لم يكن فاحشا ولا متفحشا، ولا صخابا في الاسواق، ولا يجزي بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويصفح "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عبد الله الجدلي اسمه عبد بن عبد، ويقال: عبد الرحمن بن عبد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيَّ، يَقُولُ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا، وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، وَيُقَالُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ.
ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گو، بدکلامی کرنے والے اور بازار میں چیخنے والے نہیں تھے، آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے، بلکہ عفو و درگزر فرما دیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوعبداللہ جدلی کا نام عبد بن عبد ہے، اور عبدالرحمٰن بن عبد بھی بیان کیا گیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17794)، وانظر: مسند احمد (6/174، 236، 246) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور کمال شرافت کا بیان ہے، اور اس بات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برائی اور تکلیف پہنچانے والے سے عفو و درگذر سے کام لیتے تھے نہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (298)، المشكاة (5820)
70. باب مَا جَاءَ فِي حُسْنِ الْعَهْدِ
70. باب: (شریک حیات کے ساتھ) اچھی طرح نباہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Keeping Consistent Relations
حدیث نمبر: 2017
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو هشام الرفاعي، حدثنا حفص بن غياث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " ما غرت على احد من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة وما بي ان اكون ادركتها، وما ذاك إلا لكثرة ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم لها، وإن كان ليذبح الشاة فيتتبع بها صدائق خديجة فيهديها لهن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ وَمَا بِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُهَا، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِهَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُهْدِيهَا لَهُنَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر میں اس طرح غیرت نہیں کھاتی تھی جس طرح خدیجہ پر غیرت کھاتی تھی جب کہ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا، اس غیرت کی کوئی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ آپ ان کو بہت یاد کرتے تھے، اور اگر آپ بکری ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کو ڈھونڈتے اور گوشت ہدیہ بھیجتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 20 (3816، 3817)، والنکاح 108 (5229)، والأدب 23 (6004)، والتوحید 32 (7484)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 12 (2435)، سنن ابن ماجہ/النکاح 56 (1997) (تحفة الأشراف: 1687)، و مسند احمد (6/58، 202، 279) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جب سہیلیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اتنا اچھا تھا تو خود خدیجہ رضی الله عنہا کے ساتھ کیسا ہو گا؟ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا چاہیئے، جیسے کہ باپ کے بارے میں حکم آیا ہے کہ باپ کے دوستوں کے ساتھ آدمی اچھا برتاؤ کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
71. باب مَا جَاءَ فِي مَعَالِي الأَخْلاَقِ
71. باب: اعلیٰ اخلاق کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Most Excellent Character
حدیث نمبر: 2018
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن بن خراش البغدادي، حدثنا حبان بن هلال، حدثنا مبارك بن فضالة، حدثني عبد ربه بن سعيد، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن من احبكم إلي واقربكم مني مجلسا يوم القيامة احاسنكم اخلاقا، وإن ابغضكم إلي وابعدكم مني مجلسا يوم القيامة الثرثارون والمتشدقون "، قالوا: يا رسول الله قد علمنا الثرثارون، والمتشدقون، فما المتفيهقون؟ قال: " المتكبرون "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وهذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وروى بعضهم هذا الحديث عن المبارك بن فضالة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ولم يذكر فيه، عن عبد ربه بن سعيد، وهذا اصح والثرثار، هو الكثير الكلام، والمتشدق الذي يتطاول على الناس في الكلام ويبذو عليهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا، وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ، وَالْمُتَشَدِّقُونَ، فَمَا الْمُتَفَيْهِقُونَ؟ قَالَ: " الْمُتَكَبِّرُونَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، وَهَذَا أَصَحُّ وَالثَّرْثَارُ، هُوَ الْكَثِيرُ الْكَلَامِ، وَالْمُتَشَدِّقُ الَّذِي يَتَطَاوَلُ عَلَى النَّاسِ فِي الْكَلَامِ وَيَبْذُو عَلَيْهِمْ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے (دنیا میں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں، اور میرے نزدیک تم میں (دنیا میں) سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی، بلااحتیاط بولنے والے، زبان دراز اور تکبر کرنے والے «متفيهقون» ہیں، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے «ثرثارون» (باتونی) اور «متشدقون» (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تکبر کرنے والے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۳- بعض لوگوں نے یہ حدیث «عن المبارك بن فضالة عن محمد بن المنكدر عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم ولم» کی سند سے روایت کی ہے اور اس میں «عن عبد ربه بن سعيد» کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، اور یہ زیادہ صحیح ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۴- «ثرثار» باتونی کو کہتے ہیں: اور «متشدق» اس آدمی کو کہتے ہیں: جو لوگوں کے ساتھ گفتگو میں بڑائی جتاتے اور فحش کلامی کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3054) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں کم بولنے اور سادگی سے گفتگو کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور تصنع و بناوٹ اور تکبر سے منع کیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (791)
72. باب مَا جَاءَ فِي اللَّعْنِ وَالطَّعْنِ
72. باب: لعنت ملامت اور طعن و تشنیع کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Curse And Insulting One's Honor
حدیث نمبر: 2019
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر، عن كثير بن زيد، عن سالم، عن ابن عمر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا يكون المؤمن لعانا "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، وهذا حديث حسن غريب، وروى بعضهم بهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا ينبغي للمؤمن ان يكون لعانا " وهذا الحديث مفسر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا " وَهَذَا الْحَدِيثُ مُفَسِّرٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن لعن و طعن کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- بعض لوگوں نے اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعن وطعن کرنے والا ہو، یہ حدیث پہلی حدیث کی وضاحت کر رہی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6794) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4848 / التحقيق الثانى)، ظلال الجنة (1014)
73. باب مَا جَاءَ فِي كَثْرَةِ الْغَضَبِ
73. باب: زیادہ غصہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Too Much Anger
حدیث نمبر: 2020
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، وحدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: علمني شيئا ولا تكثر علي لعلي اعيه، قال: " لا تغضب " فردد ذلك مرارا، كل ذلك يقول: " لا تغضب "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد، وسليمان بن صرد، وهذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وابو حصين اسمه عثمان بن عاصم الاسدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَلِّمْنِي شَيْئًا وَلَا تُكْثِرْ عَلَيَّ لَعَلِّي أَعِيهِ، قَالَ: " لَا تَغْضَبْ " فَرَدَّدَ ذَلِكَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: " لَا تَغْضَبْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں، آپ نے فرمایا: غصہ مت کرو، وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار کہتے رہے غصہ مت کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوسعید اور سلیمان بن صرد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 76 (6116) (تحفة الأشراف: 12846)، و مسند احمد (2/362، 466) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے، لیکن غصہ پر قابو پا لینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے، نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیئے، چنانچہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعدد بار سوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
74. باب فِي كَظْمِ الْغَيْظِ
74. باب: غصہ ضبط کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Suppressing One's Rage
حدیث نمبر: 2021
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس الدوري، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب، حدثني ابو مرحوم عبد الرحيم بن ميمون، عن سهل بن معاذ بن انس الجهني، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من كظم غيظا وهو يستطيع ان ينفذه دعاه الله يوم القيامة على رءوس الخلائق حتى يخيره في اي الحور شاء "، قال: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ الدُّورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 3 (4777)، سنن ابن ماجہ/الزہد 18 (4186)، یأتي في القیامة 2493 (تحفة الأشراف: 11298)، و مسند احمد (3/438، 440) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: **
75. باب مَا جَاءَ فِي إِجْلاَلِ الْكَبِيرِ
75. باب: بڑوں بوڑھوں کی عزت و احترام کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Honoring the Elder
حدیث نمبر: 2022
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يزيد بن بيان العقيلي، حدثنا ابو الرحال الانصاري، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اكرم شاب شيخا لسنه إلا قيض الله له من يكرمه عند سنه "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث هذا الشيخ يزيد بن بيان، وابو الرجال الانصاري آخر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ بَيَانٍ الْعُقَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الرَّحَّالِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ، وَأَبُو الرِّجَالِ الْأَنْصَارِيُّ آخَرُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقرر فرما دے گا جو اس عمر میں (یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزید بن بیان کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں (اور جو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرحال ہیں)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1716) (ضعیف) (سند میں یزید بن بیان، اور أبوالرحال دونوں ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (304)، المشكاة (4971) // ضعيف الجامع الصغير (5012) //
76. باب مَا جَاءَ فِي الْمُتَهَاجِرَيْنِ
76. باب: دو باہم قطع تعلق کرنے والوں کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Two Who Shun Each Other
حدیث نمبر: 2023
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تفتح ابواب الجنة يوم الاثنين والخميس فيغفر فيهما لمن لا يشرك بالله شيئا إلا المهتجرين، يقال: ردوا هذين حتى يصطلحا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح ويروى في بعض الحديث: " ذروا هذين حتى يصطلحا "، قال: ومعنى قوله المهتجرين: يعني المتصارمين، وهذا مثل ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ايام ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تُفَتَّحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ فِيهِمَا لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا الْمُهْتَجِرَيْنِ، يُقَالُ: رُدُّوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ: " ذَرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا "، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْمُهْتَجِرَيْنِ: يَعْنِي الْمُتَصَارِمَيْنِ، وَهَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے، سوائے ان کے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے، ان دونوں کو لوٹا دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کر لیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض روایتوں میں «ردوا هذين حتى يصطلحا» ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو جب تک صلح نہ کر لیں کے الفاظ مروی ہیں،
۳- «مهتجرين» کے معنی «متصارمين» قطع تعلق کرنے والے ہیں،
۴- یہ حدیث اسی روایت کے مثل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 11 (2565)، سنن ابن ماجہ/الصیام 42 (1739) (تحفة الأشراف: 12702)، و مسند احمد (2/329) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پیر اور جمعرات یہ ایسے دو دن ہیں جن کے بارے میں بعض روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دو دنوں میں (اللہ کے یہاں) بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو دنوں میں اہتمام سے روزہ رکھتے تھے، اور مسلم کی روایت ہے کہ پیر کے دن آپ کی پیدائش ہوئی اور اسی دن آپ کی بعثت بھی ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (3 / 105)، غاية المرام (412)
77. باب مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ
77. باب: صبر کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Patience
حدیث نمبر: 2024
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي سعيد، ان ناسا من الانصار سالوا النبي صلى الله عليه وسلم فاعطاهم، ثم سالوه، فاعطاهم، ثم قال: " ما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستغن يغنه الله، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يتصبر يصبره الله، وما اعطي احد شيئا هو خير واوسع من الصبر "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن مالك هذا الحديث، فلن اذخره عنكم والمعنى فيه واحد، يقول: لن احبسه عنكم.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ شَيْئًا هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ أَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ هَذَا الْحَدِيثُ، فَلَنْ أَذْخَرَهُ عَنْكُمْ وَالْمَعْنَى فِيهِ وَاحِدٌ، يَقُولُ: لَنْ أَحْبِسَهُ عَنْكُمْ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث امام مالک سے (دوسری سند سے) «فلن أذخره عنكم» کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے، ان دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنی ہے، یعنی تم لوگوں سے میں اسے ہرگز نہیں روک رکھوں گا،
۳- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 50 (1369)، والرقاق 20 (6470)، صحیح مسلم/الزکاة 42 (1053)، سنن النسائی/الزکاة 85 (2589) (تحفة الأشراف: 4152)، وط/الصدقہ 2 (7)، و مسند احمد (3/12، 14، 47، 93)، و سنن الدارمی/الزکاة 18 (1686) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کر دے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 11)، صحيح أبي داود (1451)
78. باب مَا جَاءَ فِي ذِي الْوَجْهَيْنِ
78. باب: دو رخے شخص کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Two Faces Person
حدیث نمبر: 2025
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من شر الناس عند الله يوم القيامة ذا الوجهين "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس، وعمار، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ذَا الْوَجْهَيْنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَعَمَّارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کی نظر میں دو رخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس اور عمار رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 1 (3494)، والأدب 52 (6058)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 48 (2526)، سنن ابی داود/ الأدب 39 (4872) (تحفة الأشراف: 12538)، و مسند احمد (2/455) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دو رخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیرخواہ اور ساتھی ہوں اور دوسرے کا مخالف ہوں، لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صحيح الجامع (2226)

Previous    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.