(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، حدثنا ابو يعقوب الثقفي، حدثنا يونس بن عبيد مولى محمد بن القاسم، قال: بعثني محمد بن القاسم إلى البراء بن عازب اساله عن راية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " كانت سوداء مربعة من نمرة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، والحارث بن حسان، وابن عباس، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن ابي زائدة، وابو يعقوب الثقفي اسمه: إسحاق بن إبراهيم، وروى عنه ايضا عبيد الله بن موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: بَعَثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ إِلَى الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَسْأَلُهُ عَنْ رَايَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " كَانَتْ سَوْدَاءَ مُرَبَّعَةً مِنْ نَمِرَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَالْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَأَبُو يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ اسْمُهُ: إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَرَوَى عَنْهُ أَيْضًا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى.
یونس بن عبید مولیٰ محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ مجھ کو محمد بن قاسم نے براء بن عازب رضی الله عنہما کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے بارے میں سوال کرنے کے لیے بھیجا، براء نے کہا: ”آپ کا جھنڈا دھاری دار چوکور اور کالا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف ابن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں علی، حارث بن حسان اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ابویعقوب ثقفی کا نام اسحاق بن ابراہیم ہے، ان سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 76 (2591)، (تحفة الأشراف: 1922) (صحیح) (لیکن ”چوکور“ کا لفظ صحیح نہیں ہے، اس کے راوی ابو یعقوب الثقفی ضعیف ہیں اور اس لفظ میں ان کا متابع یا شاہد نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: بعض روایات سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے پر «لا إله إلا الله محمد رسول الله» لکھا ہوا تھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله " مربعة "، صحيح أبي داود (2333)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن المهلب بن ابي صفرة، عمن سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن بيتكم العدو فقولوا: " حم " لا ينصرون "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن سلمة بن الاكوع، وهكذا روى بعضهم عن ابي إسحاق، مثل رواية الثوري، وروي عنه، عن المهلب بن ابي صفرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ، عَمَّنْ سَمِعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنْ بَيَّتَكُمُ الْعَدُوُّ فَقُولُوا: " حم " لَا يُنْصَرُونَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَهَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، مِثْلَ رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ، وَرُوِيَ عَنْهُ، عَنْ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
مہلب بن ابی صفرۃ ان لوگوں سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”اگر رات میں تم پر دشمن حملہ کریں تو تم «حم لا ينصرون» کہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بعض لوگوں نے اسی طرح ثوری کی روایت کے مثل ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے، اور ابواسحاق سے یہ حدیث بواسطہ «عن المهلب بن أبي صفرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 78 (2597)، (تحفة الأشراف: 15679)، و مسند احمد (4/289) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «شعار» اس مخصوص لفظ کو کہتے ہیں: جس کو لشکر والے خفیہ کوڈ کے طور پر آپس میں استعمال کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3948 / التحقيق الثانى)
(مقطوع) حدثنا محمد بن شجاع البغدادي، حدثنا ابو عبيدة الحداد، عن عثمان بن سعد، عن ابن سيرين، قال: صنعت سيفي على سيف سمرة بن جندب، وزعم سمرة انه صنع سيفه على سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان حنفيا " قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد تكلم يحيى بن سعيد القطان، في عثمان بن سعد الكاتب، وضعفه من قبل حفظه.(مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: صَنَعْتُ سَيْفِي عَلَى سَيْفِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، وَزَعَمَ سَمُرَةُ أَنَّهُ صَنَعَ سَيْفَهُ عَلَى سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ حَنَفِيًّا " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، فِي عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ الْكَاتِبِ، وَضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تلوار سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کی تلوار کی طرح بنائی، اور سمرہ رضی الله عنہ کا خیال تھا کہ انہوں نے اپنی تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوار کی طرح بنائی تھی اور آپ کی تلوار قبیلہ بنو حنیفہ کے طرز پر بنائی گئی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- یحییٰ بن سعید قطان نے عثمان بن سعد کاتب کے سلسلے میں کلام کیا ہے اور حافظہ میں انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4632) (ضعیف) (اس کے راوی عثمان بن سعد الکاتب ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف مختصر الشمائل المحمدية (88)
قال الشيخ زبير على زئي: (1683) إسناده ضعيف عثمان بن سعد الكاتب:ضعيف (تق:4471)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مرالظہران ۱؎ پہنچے اور ہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبر دی تو آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا، لہٰذا ہم سب لوگوں نے روزہ توڑ دیا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔
۲؎: اگر مجاہدین ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے آگے دشمن سے ملاقات کا ڈر ہے تو ایسی صورت میں روزہ توڑ دینا بہتر ہے، اور اگر یہ امر یقینی ہے کہ دشمن آگے مقابلہ کے لیے موجود ہے تو روزہ توڑ دینا ضروری ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، قال: انبانا شعبة، عن قتادة، حدثنا انس بن مالك، قال: ركب النبي صلى الله عليه وسلم فرسا لابي طلحة يقال له: مندوب، فقال: " ما كان من فزع وإن وجدناه لبحرا "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عمرو بن العاص، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: رَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ: مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: " مَا كَانَ مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اس گھوڑے کو «مندوب» کہا جاتا تھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندر پایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، وابن ابي عدي، وابو داود، قالوا: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: كان فزع بالمدينة، فاستعار رسول الله صلى الله عليه وسلم فرسا لنا يقال له: مندوب، فقال: " ما راينا من فزع وإن وجدناه لبحرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وأبو داود، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَاسْتَعَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لَنَا يُقَالُ لَهُ: مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: " مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں گھبراہٹ کا ماحول تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے «مندوب» نامی گھوڑے کو ہم سے عاریۃ لیا ہم نے کوئی گھبراہٹ نہیں دیکھی اور گھوڑے کو چال میں ہم نے سمندر پایا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم من احسن الناس، واجود الناس، واشجع الناس، قال: وقد فزع اهل المدينة ليلة سمعوا صوتا، قال: فتلقاهم النبي صلى الله عليه وسلم على فرس لابي طلحة عري وهو متقلد سيفه، فقال: " لم تراعوا، لم تراعوا "، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " وجدته بحرا "، يعني: الفرس، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، وَأَجْوَدِ النَّاسِ، وَأَشْجَعِ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: " لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا "، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَجَدْتُهُ بَحْرًا "، يَعْنِي: الْفَرَسَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے جری (نڈر)، سب سے سخی، اور سب سے بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے، ان لوگوں نے کوئی آواز سنی، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار لٹکائے ابوطلحہ کے ایک ننگی پیٹھ والے گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں کے پاس پہنچے اور فرمایا: ”تم لوگ فکر نہ کرو، تم لوگ فکر نہ کرو“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے چال میں گھوڑے کو سمندر پایا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 4 2 (2820)، و82 (2908)، و 165 (3040)، والأدب 39 (6033)، صحیح مسلم/الفضائل 11 (2307/48)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 9 (2772)، (تحفة الأشراف: 289)، (وانظر ما تقدم برقم 1685) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان الثوري، حدثنا ابو إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: قال لنا رجل: افررتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم يا ابا عمارة؟ قال: لا والله، ما ولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن ولى سرعان الناس تلقتهم هوازن بالنبل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته، وابو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب آخذ بلجامها، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " انا النبي لا كذب، انا ابن عبد المطلب "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وابن عمر، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بِنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَجُلٌ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا عُمَارَةَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے فرار ہو گئے تھے؟ کہا: نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں پھیری، بلکہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ براء بن عازب رضی الله عنہما کی کنیت ہے۔
۲؎: ابوسفیان بن حارث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں، مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے، اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ ہی میں جا ملے، اور اسلام قبول کر لیا، پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔
۳؎: اس طرح کے موزون کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بلاقصد و ارادہ نکلے تھے، اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں، عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہور شخصیت تھی، یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی، چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی الله عنہ نے جب آپ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: «أيكم ابن عبدالمطلب؟» ۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ حنین کے دن ہماری صورت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی دونوں جماعت پیٹھ پھیرے ہوئی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سو آدمی بھی نہیں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسے ہم عبیداللہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔