(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، عن هشام بن حسان، عن حفصة بنت سيرين، عن ام عطية بنحوه. قال: وفي الباب عن ابن عباس، وجابر. قال ابو عيسى: وحديث ام عطية حديث حسن صحيح. وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، ورخص للنساء في الخروج إلى العيدين وكرهه بعضهم. وروي عن عبد الله بن المبارك، انه قال: اكره اليوم الخروج للنساء في العيدين، فإن ابت المراة إلا ان تخرج فلياذن لها زوجها ان تخرج في اطمارها الخلقان ولا تتزين، فإن ابت ان تخرج كذلك فللزوج ان يمنعها عن الخروج. ويروى عن عائشة رضي الله عنها، قالت: لو راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما احدث النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني إسرائيل. ويروى عن سفيان الثوري انه كره اليوم الخروج للنساء إلى العيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ بِنَحْوِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَخَّصَ لِلنِّسَاءِ فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِيدَيْنِ وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: أَكْرَهُ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ، فَإِنْ أَبَتِ الْمَرْأَةُ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ فَلْيَأْذَنْ لَهَا زَوْجُهَا أَنْ تَخْرُجَ فِي أَطْمَارِهَا الْخُلْقَانِ وَلَا تَتَزَيَّنْ، فَإِنْ أَبَتْ أَنْ تَخْرُجَ كَذَلِكَ فَلِلزَّوْجِ أَنْ يَمْنَعَهَا عَنِ الْخُرُوجِ. وَيُرْوَى عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَوْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّهُ كَرِهَ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَى الْعِيدِ.
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی الله عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے، اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اگر کوئی عورت نہ مانے اور نکلنے ہی پر بضد ہو تو چاہیئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کپڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے، اور اگر وہ اس طرح نکلنے پر راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے، ۵- عائشہ رضی الله عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں تو انہیں مسجد جانے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا، ۶- سفیان ثوری سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قرار دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (التحفہ: 18118) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎ اس بارے میں مروی احادیث کے الفاظ سے عورتوں کو عید گاہ جانے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے، ایک روایت میں تو «اَمَرَنا»”ہم کو حکم دیا“ کا لفظ ہے، اور ایک میں «اُمِرْنا»”ہم کو حکم دیا گیا“ کا لفظ ہے، نیز حج اور دیگر دنیاوی مجالس میں نکلنے کے سبھی قائل ہیں تو عید گاہ کے لیے نکلنے کی یہ سارے تاویلات بیکار ہیں، ہاں جو شرائط ہیں ان کی پابندی سختی سے کی جائے، نہ کہ مسئلہ اپنی طرف سے بدل دیا جائے، ابن حجر، عائشہ رضی الله عنہا کے قول پر فرماتے ہیں: نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، نہ ہی منع فرمایا، یعنی عائشہ بھی روک دینے کی بات نہ کر سکیں، کیسے کرتیں؟ بات دینی مسئلہ کی تھی جس کا حق صرف اللہ اور رسول کو ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الاعلى بن واصل بن عبد الاعلى الكوفي، وابو زرعة، قالا: حدثنا محمد بن الصلت، عن فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن ابي هريرة، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج يوم العيد في طريق رجع في غيره ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمر، وابي رافع. قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن غريب. وروى ابو تميلة، ويونس بن محمد هذا الحديث، عن فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن جابر بن عبد الله، قال: وقد استحب بعض اهل العلم للإمام إذا خرج في طريق ان يرجع في غيره اتباعا لهذا الحديث. وهو قول الشافعي، وحديث جابر كانه اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ فِي طَرِيقٍ رَجَعَ فِي غَيْرِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى أَبُو تُمَيْلَةَ، وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلْإِمَامِ إِذَا خَرَجَ فِي طَرِيقٍ أَنْ يَرْجِعَ فِي غَيْرِهِ اتِّبَاعًا لِهَذَا الْحَدِيثِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَحَدِيثُ جَابِرٍ كَأَنَّهُ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن ایک راستے سے نکلتے تو دوسرے سے واپس آتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابورافع رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں، ۳- ابوتمیلہ اور یونس بن محمد نے یہ حدیث بطریق: «فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن جابر بن عبدالله» کی ہے، ۴- بعض اہل علم نے اس حدیث کی پیروی میں امام کے لیے مستحب قرار دیا ہے کہ جب ایک راستے سے جائے تو دوسرے سے واپس آئے۔ شافعی کا یہی قول ہے، اور جابر کی حدیث (بمقابلہ ابوہریرہ) گویا زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف من حدیث ابی ہریرة واخرجہ فی العیدین 24 (986) بنفس الطریق لکنہ من حدیث جابر، وقال حدیث جابر أصح (ای من حدیث ابی ہریرة) (تحفة الأشراف: 12937) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مسلمانوں کو بھی راستہ تبدیل کر کے آنا جانا چاہیئے، کیونکہ اس سے ایک تو اسلام کی شان وشوکت کا مظاہرہ ہو گا دوسرے قیامت کے دن یہ دونوں راستے ان کی اس عبادت کی گواہی دیں گے۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن الصباح البزار البغدادي، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، عن ثواب بن عتبة، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم ولا يطعم يوم الاضحى حتى يصلي ". قال: وفي الباب عن علي، وانس. قال ابو عيسى: حديث بريدة بن حصيب الاسلمي حديث غريب. وقال محمد: لا اعرف لثواب بن عتبة غير هذا الحديث، وقد استحب قوم من اهل العلم ان لا يخرج يوم الفطر حتى يطعم شيئا ويستحب له ان يفطر على تمر، ولا يطعم يوم الاضحى حتى يرجع.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ ثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الْأَسْلَمِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وقَالَ مُحَمَّدٌ: لَا أَعْرِفُ لِثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَخْرُجَ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ شَيْئًا وَيُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ عَلَى تَمْرٍ، وَلَا يَطْعَمَ يَوْمَ الْأَضْحَى حَتَّى يَرْجِعَ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک نماز نہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ بن حصیب اسلمی رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ثواب بن عتبہ کی اس کے علاوہ کوئی حدیث مجھے نہیں معلوم، ۳- اس باب میں علی اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے کہ آدمی عید الفطر کی نماز کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلے اور اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ کھجور ۱؎ کا ناشتہ کرے اور عید الاضحی کے دن نہ کھائے جب تک کہ لوٹ کر نہ آ جائے۔
وضاحت: ۱؎: برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں نے پتہ نہیں کہاں سے یہ حتمی رواج بنا ڈالا ہے کہ سوئیاں کھا کر عید گاہ جاتے ہیں، اور آ کر بھی کھاتے کھلاتے ہیں، اس رواج کی اس حد تک پابندی کی جاتی ہے کہ ”عیدالفطر“ اور ”سوئیاں“ لازم ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں، جیسے عید الاضحی میں ”گوشت“، اس حد تک پابندی بدعت کے زمرے میں داخل ہے۔