اس سند سے بھی ام عطیہ رضی الله عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے، اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے،
۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، اگر کوئی عورت نہ مانے اور نکلنے ہی پر بضد ہو تو چاہیئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کپڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے، اور اگر وہ اس طرح نکلنے پر راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے،
۵- عائشہ رضی الله عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں تو انہیں مسجد جانے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا،
۶- سفیان ثوری سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قرار دیا
۱؎۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 540
اردو حاشہ:
1؎:
اس بارے میں مروی احادیث کے الفاظ سے عورتوں کو عید گاہ جانے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے،
ایک روایت میں تو((اَمَرَنا)) ”ہم کو حکم دیا“ کا لفظ ہے،
اور ایک میں ((اُمِرْنا)) ((ہم کو حکم دیا گیا)) کا لفظ ہے،
نیز حج اور دیگر دنیاوی مجالس میں نکلنے کے سبھی قائل ہیں تو عید گاہ کے لیے نکلنے کی یہ سارے تاویلات بے کار ہیں،
ہاں جو شرائط ہیں ان کی پابندی سختی سے کی جائے،
نہ کہ مسئلہ اپنی طرف سے بدل دیا جائے،
ابن حجر عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پر فرماتے ہیں:
نہ تو رسول اکرم ﷺ نے دیکھا،
نہ ہی منع فرمایا،
یعنی عائشہ بھی روک دینے کی بات نہ کر سکیں،
کیسے کرتیں؟ بات دینی مسئلہ کی تھی جس کا حق صرف اللہ اور رسول کو ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 540