(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن يحيى بن هانئ بن عروة المرادي، عن عبد الحميد بن محمود، قال: صلينا خلف امير من الامراء فاضطرنا الناس فصلينا بين الساريتين، فلما صلينا، قال انس بن مالك: " كنا نتقي هذا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم "، وفي الباب عن قرة بن إياس المزني، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد كره قوم من اهل العلم ان يصف بين السواري، وبه يقول: احمد، وإسحاق، وقد رخص قوم من اهل العلم في ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هَانِئِ بْنِ عُرْوَةَ الْمُرَادِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ، قَالَ: صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ، فَلَمَّا صَلَّيْنَا، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: " كُنَّا نَتَّقِي هَذَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَفِي الْبَاب عَنْ قُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَفَّ بَيْنَ السَّوَارِي، وَبِهِ يَقُولُ: أحمد، وإسحاق، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ.
عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ ہم نے امراء میں سے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی، لوگوں نے ہمیں دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے پر مجبور کر دیا ۱؎ جب ہم نماز پڑھ چکے تو انس بن مالک رضی الله عنہ نے کہا: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس سے بچتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں قرۃ بن ایاس مزنی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- علماء میں سے کچھ لوگوں نے ستونوں کے درمیان صف لگانے کو مکروہ جانا ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، اور علماء کچھ نے اس کی اجازت دی ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 95 (673)، سنن النسائی/الإمامة 33 (822)، (تحفة الأشراف: 980)، مسند احمد (3/131) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اتنی بھیڑ ہو گئی کہ مسجد میں جگہ نہیں رہ گئی مجبوراً ہمیں دونوں ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا پڑا۔
۲؎: اگر مجبوری ہو تب ستونوں کے درمیان صف لگائی جائے، ورنہ عام حالات میں اس سے پرہیز کیا جائے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو الاحوص، عن حصين، عن هلال بن يساف، قال: اخذ زياد بن ابي الجعد بيدي ونحن بالرقة، فقام بي على شيخ يقال له: وابصة بن معبد من بني اسد، فقال زياد، حدثني هذا الشيخ، ان رجلا صلى خلف الصف وحده والشيخ يسمع، " فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يعيد الصلاة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي بن شيبان وابن عباس، قال ابو عيسى: وحديث وابصة حديث حسن، وقد كره قوم من اهل العلم ان يصلي الرجل خلف الصف وحده، وقالوا: يعيد إذا صلى خلف الصف وحده، وبه يقول: احمد، وإسحاق، وقد قال قوم من اهل العلم: يجزئه إذا صلى خلف الصف وحده، وهو قول: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وقد ذهب قوم من اهل الكوفة إلى حديث وابصة بن معبد ايضا، قالوا: من صلى خلف الصف وحده يعيد، منهم حماد بن ابي سليمان , وابن ابي ليلى ووكيع، وروى حديث حصين، عن هلال بن يساف غير واحد، مثل رواية ابي الاحوص، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة بن معبد، وفي حديث حصين ما يدل على ان هلالا قد ادرك وابصة، واختلف اهل الحديث في هذا، فقال بعضهم: حديث عمرو بن مرة، عن هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة بن معبد اصح، وقال بعضهم: حديث حصين، عن هلال بن يساف، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة بن معبد اصح، قال ابو عيسى: وهذا عندي اصح من حديث عمرو ابن مرة، لانه قد روي من غير حديث هلال بن يساف، عن زياد بن ابي الجعد، عن وابصة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قَالَ: أَخَذَ زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ بِيَدِي وَنَحْنُ بِالرَّقَّةِ، فَقَامَ بِي عَلَى شَيْخٍ يُقَالُ لَهُ: وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، فَقَالَ زِيَادٌ، حَدَّثَنِي هَذَا الشَّيْخُ، أَنَّ رَجُلًا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ وَالشَّيْخُ يَسْمَعُ، " فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ وَابِصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَقَالُوا: يُعِيدُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُجْزِئُهُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى حَدِيثِ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَيْضًا، قَالُوا: مَنْ صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ يُعِيدُ، مِنْهُمْ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ , وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَوَكِيعٌ، وَرَوَى حَدِيثَ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ غَيْرُ وَاحِدٍ، مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، وَفِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ هِلَالًا قَدْ أَدْرَكَ وَابِصَةَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَدِيثُ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ، لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ وَابِصَةَ.
ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا، (ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جا کر بنی اسد کے وابصہ بن معبد نامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا: مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اور شیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وابصہ بن معبد رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھی ہے تو وہ نماز دہرائے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، ۴- اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے کافی ہو گا جب وہ صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا بھی یہی قول ہے، ۵- اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھے، وہ اسے دہرائے۔ انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلیٰ اور وکیع ہیں، ۶- مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکر کے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصة» روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق «هلال بن يساف، عن زياد بن أبي الجعد عن وابصة» روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیاد بن ابی الجعد کے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 100 (682)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 54 (1004)، (تحفة الأشراف: 11738)، مسند احمد (4/228)، سنن الدارمی/الصلاة 61 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صف کے پیچھے اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کی نماز درست ہے یا نہیں، اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے: امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز درست نہیں، ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس رضی الله عنہم کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں، (جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گرچہ وہ ضعیف ہیں، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے۔ ہاں! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو، واللہ اعلم۔
اس سند سے بھی وابصہ بن معبد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دہرانے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
وکیع کہتے ہیں کہ جب آدمی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھے تو وہ نماز کو دہرائے (اس کی نماز نہیں ہوئی)۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا داود بن عبد الرحمن العطار، عن عمرو بن دينار، عن كريب مولى ابن عباس، عن ابن عباس، قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقمت عن يساره: " فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم براسي من ورائي فجعلني عن يمينه ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس، قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، قالوا: إذا كان الرجل مع الإمام يقوم عن يمين الإمام.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ: " فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسِي مِنْ وَرَائِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، قَالُوا: إِذَا كَانَ الرَّجُلُ مَعَ الْإِمَامِ يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں جا کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں طرف کر لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد والے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب ایک آدمی امام کے ساتھ ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو۔
(مرفوع) حدثنا بندار محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، قال: انبانا إسماعيل بن مسلم، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا " كنا ثلاثة ان يتقدمنا احدنا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وجابر، وانس بن مالك، قال ابو عيسى: وحديث سمرة حديث حسن غريب، والعمل على هذا عند اهل العلم، قالوا: إذا كانوا ثلاثة قام رجلان خلف الإمام، وروي عن ابن مسعود انه صلى بعلقمة والاسود، فاقام احدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ورواه عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد تكلم بعض الناس في إسماعيل بن مسلم المكي من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا " كُنَّا ثَلَاثَةً أَنْ يَتَقَدَّمَنَا أَحَدُنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً قَامَ رَجُلَانِ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ صَلَّى بِعَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ، فَأَقَامَ أَحَدَهُمَا عَنْ يَمِينِهِ وَالْآخَرَ عَنْ يَسَارِهِ، وَرَوَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دو آدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں، ابن مسعود رضی الله عنہ نے علقمہ اور اسود کو نماز پڑھائی تو ان دونوں میں سے ایک کو اپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود رضی الله عنہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، ۴- بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پر ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4575) (ضیعف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہیں، مگر اصل حدیث شواہد سے ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: سند کے لحاظ سے اگرچہ یہ حدیث ضعیف الاسناد ہے مگر سارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر دو آدمی ہوں اور جگہ میں گنجائش ہو تو دونوں مقتدی پیچھے کھڑے ہوں گے اور ایک جو امام ہو گا وہ آگے کھڑا ہو گا، رہا ابن مسعود رضی الله عنہ کا دونوں کو اپنے دائیں بائیں ساتھ میں کھڑا کر لینے کا معاملہ تو ہو سکتا ہے کہ وہاں جگہ ایسی نہ ہو، ویسے اسی واقعہ میں ہے کہ انہوں نے رکوع میں تطبیق کی اور دونوں سے کرائی۔ تطبیق کا مطلب ہوتا ہے: رکوع یا تشہد میں مصلی کا اپنے دونوں ہاتھوں یا ہتھیلیوں کو رانوں یا گھٹنوں کے درمیان رکھنا، اور یہ منسوخ و ممنوع ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف إسماعيل بن مسلم المكي (تق:484) ضعیف ولبعض الحديث شواهد عنه ابن ماجه (974) وغيره .
(مرفوع) حدثنا إسحاق الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، ان جدته مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته، فاكل منه، ثم قال: " قوموا فلنصل بكم " قال انس: فقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بالماء، فقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت عليه انا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا، فصلى بنا ركعتين ثم انصرف. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم، قالوا: إذا كان مع الإمام رجل وامراة قام الرجل عن يمين الإمام والمراة خلفهما، وقد احتج بعض الناس بهذا الحديث في إجازة الصلاة إذا كان الرجل خلف الصف وحده، وقالوا: إن الصبي لم تكن له صلاة وكان انسا كان خلف النبي صلى الله عليه وسلم وحده في الصف، وليس الامر على ما ذهبوا إليه لان النبي صلى الله عليه وسلم اقامه مع اليتيم خلفه، فلولا ان النبي صلى الله عليه وسلم جعل لليتيم صلاة لما اقام اليتيم معه ولاقامه عن يمينه، وقد روي عن موسى بن انس، عن انس انه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم فاقامه عن يمينه، وفي هذا الحديث دلالة انه إنما صلى تطوعا اراد إدخال البركة عليهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: " قُومُوا فَلْنُصَلِّ بِكُمْ " قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُهُ بِالْمَاءِ، فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَفْتُ عَلَيْهِ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا كَانَ مَعَ الْإِمَامِ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ وَالْمَرْأَةُ خَلْفَهُمَا، وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي إِجَازَةِ الصَّلَاةِ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ، وَقَالُوا: إِنَّ الصَّبِيَّ لَمْ تَكُنْ لَهُ صَلَاةٌ وَكَأَنَّ أَنَسًا كَانَ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ فِي الصَّفِّ، وَلَيْسَ الْأَمْرُ عَلَى مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَهُ مَعَ الْيَتِيمِ خَلْفَهُ، فَلَوْلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ لِلْيَتِيمِ صَلَاةً لَمَا أَقَامَ الْيَتِيمَ مَعَهُ وَلَأَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ أَنَّهُ إِنَّمَا صَلَّى تَطَوُّعًا أَرَادَ إِدْخَالَ الْبَرَكَةِ عَلَيْهِمْ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ رضی الله عنہا نے کھانا پکایا اور اس کو کھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا، آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا: ”اٹھو چلو ہم تمہیں نماز پڑھائیں“، انس کہتے ہیں ـ: تو میں اٹھ کر اپنی ایک چٹائی کے پاس آیا جو زیادہ استعمال کی وجہ سے کالی ہو گئی تھی، میں نے اسے پانی سے دھویا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے، میں نے اور یتیم نے آپ کے پیچھے اس پر صف لگائی اور دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں، تو آپ نے ہمیں دو رکعات پڑھائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف پلٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد امام کے دائیں طرف کھڑا ہو اور عورت ان دونوں کے پیچھے۔ ۳- بعض لوگوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ جب آدمی صف کے پیچھے تنہا ہو تو اس کی نماز جائز ہے، وہ کہتے ہیں کہ بچے پر نماز تو تھی ہی نہیں گویا عملاً انس رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تنہا ہی تھے، لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انس کو اپنے پیچھے یتیم کے ساتھ کھڑا کیا تھا، اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم کی نماز کو نماز نہ مانتے تو یتیم کو ان کے ساتھ کھڑا نہ کرتے بلکہ انس کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرتے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے انہیں اپنی دائیں طرف کھڑا کیا، اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ نے نفل نماز پڑھی تھی اور انہیں برکت پہنچانے کا ارادہ کیا تھا۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، قال: وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو معاوية، وعبد الله بن نمير، عن الاعمش، عن إسماعيل بن رجاء الزبيدي، عن اوس بن ضمعج، قال: سمعت ابا مسعود الانصاري، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله، فإن كانوا في القراءة سواء فاعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء فاقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فاكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في سلطانه ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه " قال محمود بن غيلان: قال ابن نمير في حديثه: اقدمهم سنا، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد , وانس بن مالك , ومالك بن الحويرث , وعمرو بن سلمة، قال ابو عيسى: وحديث ابي مسعود حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم قالوا: احق الناس بالإمامة اقرؤهم لكتاب الله واعلمهم بالسنة، وقالوا: صاحب المنزل احق بالإمامة، وقال بعضهم: إذا اذن صاحب المنزل لغيره فلا باس ان يصلي به، وكرهه بعضهم وقالوا: السنة ان يصلي صاحب البيت، قال احمد بن حنبل: وقول النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يؤم الرجل في سلطانه ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه، فإذا اذن فارجو ان الإذن في الكل، ولم ير به باسا إذا اذن له ان يصلي به.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ " قَالَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ: قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: أَقْدَمُهُمْ سِنًّا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ , وَعَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: أَحَقُّ النَّاسِ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ وَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، وَقَالُوا: صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا أَذِنَ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ لَغَيْرِهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ وَقَالُوا: السُّنَّةُ أَنْ يُصَلِّيَ صَاحِبُ الْبَيْتِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ، فَإِذَا أَذِنَ فَأَرْجُو أَنَّ الْإِذْنَ فِي الْكُلِّ، وَلَمْ يَرَ بِهِ بَأْسًا إِذَا أَذِنَ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر لوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہو وہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابومسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید، انس بن مالک، مالک بن حویرث اور عمرو بن سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا کہنا ہے کہ لوگوں میں امامت کا حقدار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ گھر کا مالک خود امامت کا زیادہ مستحق ہے، اور بعض نے کہا ہے: جب گھر کا مالک کسی دوسرے کو اجازت دیدے تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جانا ہے، وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھر کا مالک خود پڑھائے ۱؎، ۴- احمد بن حنبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ”آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ اس کے گھر میں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دیدے تو میں امید رکھتا ہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اور امامت کرنے دونوں سے متعلق ہو گی، انہوں نے اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں جانا کہ جب وہ اجازت دیدے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 53 (673)، سنن ابی داود/ الصلاة 61 (582)، سنن النسائی/الإمامة 3 (781)، و6 (784)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 46 (980)، (تحفة الأشراف: 9976)، مسند احمد (4/118، 121، 122)، ویأتي في الأدب 24 (برقم: 2772) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی الله عنہ کی روایت «من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم» ہے «إلا بإذنه» کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق صرف «لايجلس على تكرمته» سے ہے «لايؤم الرجل في سلطانه» سے نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا المغيرة بن عبد الرحمن، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا ام احدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف والمريض، فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء "قال ابو عيسى: وفي الباب عن عدي بن حاتم، وانس، وجابر بن سمرة، ومالك بن عبد الله، وابي واقد، وعثمان بن ابي العاص، وابي مسعود، وجابر بن عبد الله، وابن عباس، قال ابو عيسى: وحديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وهو قول اكثر اهل العلم اختاروا ان لا يطيل الإمام الصلاة مخافة المشقة على الضعيف والكبير والمريض. قال ابو عيسى: وابو الزناد اسمه عبد الله بن ذكوان، والاعرج هو عبد الرحمن بن هرمز المديني ويكنى ابا داود.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمُ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ "قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَمَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا أَنْ لَا يُطِيلَ الْإِمَامُ الصَّلَاةَ مَخَافَةَ الْمَشَقَّةِ عَلَى الضَّعِيفِ وَالْكَبِيرِ وَالْمَرِيضِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الزِّنَادِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذَكْوَانَ، وَالْأَعْرَجُ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ الْمَدِينِيُّ وَيُكْنَى أَبَا دَاوُدَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے تو چاہیئے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ ان میں چھوٹے، بڑے، کمزور اور بیمار سبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا نماز پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عدی بن حاتم، انس، جابر بن سمرہ، مالک بن عبداللہ، ابوواقد، عثمان، ابومسعود، جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اکثر اہل علم کا قول ہے، ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام نماز لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور، بوڑھے اور بیمار لوگوں کو پریشانی نہ ہو۔
وضاحت: ۱؎: ہلکی نماز پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان و سکون اور خشوع و خضوع اور اعتدال نہ ہو، تعدیل ارکان فرض ہے، نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی نماز پڑھاتے تھے تب بھی کامل نماز پڑھاتے حتیٰ کہ مغرب میں بھی سورۃ الطور یا سورۃ المرسلات پڑھتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم من اخف الناس صلاة في تمام ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح، واسم ابي عوانة وضاح،. قال ابو عيسى: سالت قتيبة قلت: ابو عوانة ما اسمه؟ قال وضاح: قلت ابن من؟ قال: لا ادري كان عبدا لامراة بالبصرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَخَفِّ النَّاسِ صَلَاةً فِي تَمَامٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي عَوَانَةَ وَضَّاحٌ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ قُتَيْبَةَ قُلْتُ: أَبُو عَوَانَةَ مَا اسْمُهُ؟ قَالَ وَضَّاحٌ: قُلْتُ ابْنُ مَنْ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي كَانَ عَبْدًا لِامْرَأَةٍ بِالْبَصْرَةِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اور سب زیادہ مکمل نماز پڑھنے والے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ”سب سے ہلکی نماز ہوتی تھی“ سے مراد یہ ہے کہ آپ لمبی قرأت نہیں کرتے تھے، اسی طرح لمبی دعاؤں سے بھی بچتے تھے، اور سب سے زیادہ مکمل نماز کا مطلب یہ ہے کہ آپ نماز کے جملہ ارکان و سنن اور مستحبات کو بحسن خوبی اطمینان سے ادا کرتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا محمد بن الفضيل، عن ابي سفيان طريف السعدي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مفتاح الصلاة الطهور، وتحريمها التكبير، وتحليلها التسليم، ولا صلاة لمن لم يقرا ب: الحمد وسورة في فريضة او غيرها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وفي الباب عن علي، وعائشة، قال: وحديث علي بن ابي طالب في هذا اجود إسنادا واصح من حديث ابي سعيد، وقد كتبناه في اول كتاب الوضوء، والعمل عليه عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وبه يقول: سفيان الثوري، وابن المبارك , والشافعي , واحمد وإسحاق: إن تحريم الصلاة التكبير ولا يكون الرجل داخلا في الصلاة إلا بالتكبير. قال ابو عيسى: وسمعت ابا بكر محمد بن ابان مستملي وكيع يقول: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: لو افتتح الرجل الصلاة بسبعين اسما من اسماء الله ولم يكبر لم يجزه، وإن احدث قبل ان يسلم امرته ان يتوضا ثم يرجع إلى مكانه فيسلم، إنما الامر على وجهه. قال: وابو نضرة اسمه: المنذر بن مالك بن قطعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ طَرِيفٍ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِ: الْحَمْدُ وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، قَالَ: وَحَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي هَذَا أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَدْ كَتَبْنَاهُ فِي أَوَّلِ كِتَابِ الْوُضُوءِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاق: إِنَّ تَحْرِيمَ الصَّلَاةِ التَّكْبِيرُ وَلَا يَكُونُ الرَّجُلُ دَاخِلًا فِي الصَّلَاةِ إِلَّا بِالتَّكْبِيرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ مُسْتَمْلِيَ وَكِيعٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: لَوِ افْتَتَحَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ بِسَبْعِينَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ وَلَمْ يُكَبِّرْ لَمْ يُجْزِهِ، وَإِنْ أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى مَكَانِهِ فَيُسَلِّمَ، إِنَّمَا الْأَمْرُ عَلَى وَجْهِهِ. قَالَ: وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ: الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کی کنجی وضو (طہارت) ہے، اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے، اور اس آدمی کی نماز ہی نہیں جو «الحمدللہ»(سورۃ فاتحہ) اور اس کے ساتھ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے خواہ فرض نماز ہو یا کوئی اور نماز ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور ابو سعید خدری کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ہم اسے کتاب الوضو کے شروع میں ذکر کر چکے ہیں (حدیث نمبر: ۳)، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ نماز کی تحریم تکبیر ہے، آدمی نماز میں تکبیر کے (یعنی اللہ اکبر کہے) بغیر داخل نہیں ہو سکتا، ۵- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: اگر آدمی اللہ کے ناموں میں سے ستر نام لے کر نماز شروع کرے اور ”اللہ اکبر“ نہ کہے تو بھی یہ اسے کافی نہ ہو گا۔ اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہو جائے تو میں اسے حکم دیتا ہوں کہ وضو کرے پھر اپنی (نماز کی) جگہ آ کر بیٹھے اور سلام پھیرے، اور حکم (رسول) اپنے حال (ظاہر) پر (باقی) رہے گا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 3 (276)، (تحفة الأشراف: 4357)، مسند احمد (3/340) (صحیح) (سند میں سفیان بن وکیع ساقط الحدیث ہیں، اور طریف بن شہاب ابوسفیان سعدی“ ضعیف، لیکن علی رضی الله عنہ کی حدیث (رقم: 3) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)۔»
وضاحت: ۱؎: یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو «تحليها التسليم» فرمایا ہے۔ اس کی تاویل کسی اور معنی میں نہیں کی جائیگی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (275 و 276)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف أبو سفيان السعدي: ضعیف (تق:3013) وقول ابن مسعود رضي الله عنه، رواه البيهقي (16/2، وسنده صحیح) وهو يغني عنه . انظر سنن أبي داود بتحقيقي (61)