الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
142. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
142. باب: ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Performing Salat In One Garment
حدیث نمبر: 339
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عمر بن ابي سلمة، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصلي في بيت ام سلمة مشتملا في ثوب واحد ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وجابر , وسلمة بن الاكوع , وانس , وعمرو بن ابي اسيد , وعبادة بن الصامت , وابي سعيد , وكيسان , وابن عباس، وعائشة، وام هانئ وعمار بن ياسر , وطلق بن علي , وعبادة بن الصامت الانصاري، قال ابو عيسى: حديث عمر بن ابي سلمة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم من التابعين، وغيرهم قالوا: لا باس بالصلاة في الثوب الواحد، وقد قال بعض اهل العلم: يصلي الرجل في ثوبين.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ مُشْتَمِلًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَجَابِرٍ , وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , وَأَنَسٍ , وَعَمْرِو بْنِ أَبِي أَسِيدٍ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَكَيْسَانَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ هَانِئٍ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ , وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ , وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَغَيْرِهِمْ قَالُوا: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي الرَّجُلُ فِي ثَوْبَيْنِ.
عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا، کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر بن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، سلمہ بن الاکوع، انس، عمرو بن ابی اسید، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، اور عبادہ بن صامت انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ آدمی دو کپڑوں میں نماز پڑھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (356)، صحیح مسلم/الصلاة 52 (517)، سنن ابی داود/ الصلاة 78 (628)، سنن النسائی/القبلة 14 (765)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 69 (1049)، (تحفة الأشراف: 10684)، وکذا (10682)، موطا امام مالک/الجماعة9 (29)، مسند احمد (4/26، 27) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: شیخین کی روایت میں «واضعاً طرفيه على عاتقيه» کا اضافہ ہے یعنی آپ اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں پر ڈالے ہوئے تھے، اس سے ثابت ہوا کہ اگر ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھے تو دونوں کندھوں کو ضرور ڈھانکے رہے، ورنہ نماز نہیں ہو گی، اس بابت بعض واضح روایات مروی ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ نے اس وقت سر کو نہیں ڈھانکا تھا، ایک کپڑے میں سر کو ڈھانکا ہی نہیں جا سکتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1049)
143. باب مَا جَاءَ فِي ابْتِدَاءِ الْقِبْلَةِ
143. باب: قبلے کی ابتداء کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Beginning Of The Qiblah
حدیث نمبر: 340
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، قال: " لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صلى نحو بيت المقدس ستة او سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب ان يوجه إلى الكعبة، فانزل الله تعالى: قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 فوجه نحو الكعبة وكان يحب ذلك، فصلى رجل معه العصر، ثم مر على قوم من الانصار وهم ركوع في صلاة العصر نحو بيت المقدس، فقال: هو يشهد انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وانه قد وجه إلى الكعبة، قال: فانحرفوا وهم ركوع ". قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابن عباس , وعمارة بن اوس , وعمرو بن عوف المزني , وانس، قال ابو عيسى: وحديث البراء حديث حسن صحيح، وقد رواه سفيان الثوري، عن ابي إسحاق،(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 فَوَجَّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ، فَصَلَّى رَجُلٌ مَعَهُ الْعَصْرَ، ثُمَّ مَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ قَدْ وَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُكُوعٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ , وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سفيان الثوري، عَنْ أَبِي إِسْحَاق،
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے آئے تو سولہ یا سترہ ماہ تک آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف رخ کرنا پسند فرماتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام‏» ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیجئے نازل فرمائی، تو آپ نے اپنا چہرہ کعبہ کی طرف پھیر لیا اور آپ یہی چاہتے بھی تھے، ایک شخص نے آپ کے ساتھ عصر پڑھی، پھر وہ انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا اور وہ لوگ عصر میں بیت المقدس کی طرف چہرہ کئے رکوع کی حالت میں تھے، اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں نماز پڑھی ہے کہ آپ اپنا رخ کعبہ کی طرف کئے ہوئے تھے، تو وہ لوگ بھی رکوع کی حالت ہی میں (خانہ کعبہ کی طرف) پھر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، عمارہ بن اوس، عمرو بن عوف مزنی اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 30 (40)، والصلاة 31 (399)، وتفسیر البقرة 12 (4486)، و18 (4492)، وأخبار الآحاد1 (7252)، صحیح مسلم/المساجد 2 (525)، سنن النسائی/الصلاة 22 (489، 490)، والقبلة 1 (743)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 56 (1010)، (تحفة الأشراف: 1804)، وکذا (1849)، مسند احمد (4/283، 304)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة (2962) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة (56)، الإرواء (290)
حدیث نمبر: 341
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: كانوا ركوعا في صلاة الصبح. قال ابو عيسى: وحديث ابن عمر حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں وہ لوگ نماز فجر میں رکوع میں تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 32 (403)، وتفسیر البقرة 14 (4488)، و16 (4490)، و17 (4491)، و8 (4492)، و19 (4493)، و20 (4494)، صحیح مسلم/المساجد 2 (526)، سنن النسائی/الصلاة 24 (494)، والقبلة 3 (746)، (تحفة الأشراف: 7154)، وکذا (7228)، موطا امام مالک/القبلة 4 (6)، مسند احمد (2/113) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قباء کا واقعہ ہے اس میں اور اس سے پہلے والی روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ مدینہ میں تھے انہیں یہ خبر عصر کے وقت ہی پہنچ گئی تھی (جیسے بنو حارثہ کے لوگ) اور قباء کے لوگوں کو یہ خبر دیر سے دوسرے دن نماز فجر میں پہنچی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة // 57 //، الإرواء (290)
144. باب مَا جَاءَ أَنَّ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ
144. باب: مشرق اور مغرب کے درمیان میں جو ہے سب قبلہ ہے۔
Chapter: What Has Been Related About 'What Is Between The East And The West Is A Qiblah'
حدیث نمبر: 342
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي معشر، حدثنا ابي، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما بين المشرق والمغرب قبلة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 56 (1011)، (تحفة الأشراف: 15124) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ان ملکوں کے لیے ہے جو قبلے کے شمال (اُتر) یا جنوب (دکھن) میں واقع ہیں، جیسے مدینہ (شمال میں) اور یمن (جنوب میں) اور بر صغیر ہندو پاک یا مصر وغیرہ کے لوگوں کے لیے اسی کو یوں کہا جائیگا شمال اور جنوب کے درمیان جو فضا کا حصہ ہے وہ سب قبلہ ہے یعنی اپنے ملک کے قبلے کی سمت میں ذرا سا ٹیڑھا کھڑا ہونے میں (جو جان بوجھ کر نہ ہو) کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1011)
حدیث نمبر: 343
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا محمد بن ابي معشر مثله. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة، قد روي عنه من غير هذا الوجه. وقد تكلم بعض اهل العلم في ابي معشر من قبل حفظه، واسمه: نجيح مولى بني هاشم، قال محمد: لا اروي عنه شيئا، وقد روى عنه الناس، قال محمد: وحديث عبد الله بن جعفر المخرمي، عن عثمان بن محمد الاخنسي، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة اقوى من حديث ابي معشر واصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَبِي مَعْشَرٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَاسْمُهُ: نَجِيحٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ النَّاسُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَقْوَى مِنْ حَدِيثِ أَبِي مَعْشَرٍ وَأَصَحُّ.
یحییٰ بن موسیٰ کا بیان ہے کہ ہم سے محمد بن ابی معشر نے بھی اسی کے مثل بیان کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث ان سے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے،
۲- بعض اہل علم نے ابومعشر کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔ ان کا نام نجیح ہے، وہ بنی ہاشم کے مولیٰ ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں ان سے کوئی روایت نہیں کرتا حالانکہ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے نیز بخاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر مخرمی کی حدیث جسے انہوں نے بسند «عثمان بن محمد اخنسی عن سعید المقبری عن أبی ہریرہ» روایت کی ہے، ابومعشر کی حدیث سے زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہے (یہ حدیث آگے آ رہی ہے جو اسی معنی کی ہے)۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
حدیث نمبر: 344
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن بكر المروزي، حدثنا المعلى بن منصور، حدثنا عبد الله بن جعفر المخرمي، عن عثمان بن محمد الاخنسي، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما بين المشرق والمغرب قبلة " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وإنما قيل عبد الله بن جعفر المخرمي، لانه من ولد المسور بن مخرمة، وقد روي عن غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم " ما بين المشرق والمغرب قبلة " منهم عمر بن الخطاب , وعلي بن ابي طالب , وابن عباس، وقال ابن عمر: " إذا جعلت المغرب عن يمينك والمشرق عن يسارك، فما بينهما قبلة إذا استقبلت القبلة "، وقال ابن المبارك: ما بين المشرق والمغرب قبلة هذا لاهل المشرق، واختار عبد الله بن المبارك التياسر لاهل مرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، لِأَنَّهُ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ " مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ، وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: " إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ، فَمَا بَيْنَهُمَا قِبْلَةٌ إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ "، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ هَذَا لِأَهْلِ الْمَشْرِقِ، وَاخْتَارَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ التَّيَاسُرَ لِأَهْلِ مَرْوٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- کئی صحابہ سے مروی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے۔ ان میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، اور ابن عباس رضی الله عنہم بھی شامل ہیں، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب آپ مغرب کو دائیں طرف اور مشرق کو بائیں طرف رکھ کر قبلہ رخ کھڑے ہوں گے تو ان دونوں سمتوں کے درمیان جو ہو گا وہ قبلہ ہو گا، ابن مبارک کہتے ہیں: مشرق و مغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے، یہ اہل مشرق ۱؎ کے لیے ہے۔ اور عبداللہ بن مبارک نے اہل مرو ۲؎ کے لیے بائیں طرف جھکنے کو پسند کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 342 (تحفة الأشراف: 2996) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہاں مشرق سے مراد وہ ممالک ہیں جن پر مشرق کا اطلاق ہوتا ہے جیسے عراق۔
۲؎: قاموس میں ہے کہ مرو ایران کا ایک شہر ہے اور علامہ محمد طاہر مغنی میں کہتے ہیں کہ یہ خراسان کا ایک شہر ہے۔
145. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فِي الْغَيْمِ
145. باب: جو شخص بدلی میں غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کا کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Prays Facing A Direction Other Than The Qiblah When It Is Cloudy
حدیث نمبر: 345
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا اشعث بن سعيد السمان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن ابيه، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر في ليلة مظلمة، فلم ندر اين القبلة، " فصلى كل رجل منا على حياله، فلما اصبحنا ذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزل: فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 ". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بذاك، لا نعرفه إلا من حديث اشعث السمان، واشعث بن سعيد ابو الربيع السمان يضعف في الحديث، وقد ذهب اكثر اهل العلم إلى هذا، قالوا: إذا صلى في الغيم لغير القبلة ثم استبان له بعدما صلى انه صلى لغير القبلة، فإن صلاته جائزة، وبه يقول: سفيان الثوري وابن المبارك , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ السَّمَّانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ، " فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ، وَأَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو الرَّبِيعِ السَّمَّانُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، قَالُوا: إِذَا صَلَّى فِي الْغَيْمِ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ ثُمَّ اسْتَبَانَ لَهُ بَعْدَمَا صَلَّى أَنَّهُ صَلَّى لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ، فَإِنَّ صَلَاتَهُ جَائِزَةٌ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري وَابْنُ الْمُبَارَكِ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ تو ہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے، ہم میں سے ہر شخص نے اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔ جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا چنانچہ اس وقت آیت کریمہ «‏فأينما تولوا فثم وجه الله‏» تم جس طرف رخ کر لو اللہ کا منہ اسی طرف ہے نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ہم اسے صرف اشعث بن سمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اشعث بن سعید ابوالربیع سمان حدیث کے معاملے میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،
۲- اکثر اہل علم اسی کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی بدلی میں غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھ لے پھر نماز پڑھ لینے کے بعد پتہ چلے اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے تو اس کی نماز درست ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 60 (1020)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر البقرة (2957)، (تحفة الأشراف: 5035) (حسن صحیح) (سند میں اشعث بن سعید السمان متکلم فیہ راوی ہیں، حتی کہ بعض علماء نے بڑی شدید جرح کی ہے، اور انہیں غیر ثقہ اور منکر الحدیث بلکہ متروک الحدیث قرار دیا ہے، لیکن امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ نہ تو متروک ہے اور نہ محدثین کے یہاں حافظ حدیث ہے، ابو احمد الحاکم کہتے ہیں: ليس بالقوي عندهم یعنی محدثین کے یہاں اشعث زیادہ قوی راوی نہیں ہے، ابن عدی کہتے ہیں: اس کی احادیث میں سے بعض غیر محفوظ ہیں، اور ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جائیں گی (تہذیب الکمال 523) خلاصہ یہ کہ ان کی احادیث کو شواہد ومتابعات کے باب میں جانچا اور پرکھا جائے گا اسی کو اعتبار کہتے ہیں، اور ترمذی نے سند پر کلام کر کے اشعث کے بارے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی تضعیف کی گئی ہے، اور اکثر علماء کا فتویٰ بھی اسی حدیث کے مطابق ہے، اس شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)۔»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1020)
146. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَا يُصَلَّى إِلَيْهِ وَفِيهِ
146. باب: جن چیزوں کی طرف یا جن جگہوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
Chapter: What Has Been Related About What Is Disliked To Face While Performing Salat, Or To Perform Salat In
حدیث نمبر: 346
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا المقرئ، حدثنا يحيى بن ايوب، عن زيد بن جبيرة، عن داود بن الحصين، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى ان يصلى في سبعة مواطن: في المزبلة، والمجزرة، والمقبرة، وقارعة الطريق، وفي الحمام، وفي معاطن الإبل، وفوق ظهر بيت الله ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى أَنْ يُصَلَّى فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ: فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالْمَجْزَرَةِ، وَالْمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِي مَعَاطِنِ الْإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اللَّهِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مقامات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے: کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ میں، مذبح میں، قبرستان میں، عام راستوں پر، حمام (غسل خانہ) میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المساجد 4 (746)، (تحفة الأشراف: 7660) (ضعیف) (سند میں زید بن جبیرہ متروک الحدیث ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (746) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (161) نحوه، الإرواء (287) //
حدیث نمبر: 347
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا سويد بن عبد العزيز، عن زيد بن جبيرة، عن داود بن حصين، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه بمعناه. قال: وفي الباب عن ابي مرثد , وجابر، وانس ابو مرثد اسمه: كناز بن حصين، قال ابو عيسى: وحديث ابن عمر إسناده ليس بذاك القوي، وقد تكلم في زيد بن جبيرة من قبل حفظه، قال ابو عيسى: وزيد بن جبير الكوفي اثبت من هذا واقدم، وقد سمع من ابن عمر، وقد روى الليث بن سعد هذا الحديث، عن عبد الله بن عمر العمري، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله، وحديث داود، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم اشبه واصح من حديث الليث بن سعد، وعبد الله بن عمر العمري ضعفه بعض اهل الحديث من قبل حفظه، منهم يحيى بن سعيد القطان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ , وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ أَبُو مَرْثَدٍ اسْمُهُ: كَنَّازُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ، وَقَدْ تُكُلِّمَ فِي زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ الْكُوفِيُّ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا وَأَقْدَمُ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَحَدِيثُ دَاوُدَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْبَهُ وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
اس سند سے بھی اس مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی سند کوئی زیادہ قوی نہیں ہے، زید بن جبیرۃ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے،
۲- زید بن جبیر کوفی ان سے زیادہ قوی اور ان سے پہلے کے ہیں انہوں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے سنا ہے،
۳- اس باب میں ابو مرثد کناز بن حصین، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- لیث بن سعد نے یہ حدیث بطریق: «عبد الله بن عمر العمري عن نافع عن ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔ داود کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت کی ہے۔ لیث بن سعد کی حدیث سے زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہے، عبداللہ بن عمر عمری کو بعض اہل حدیث نے ان کے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانا ہے، انہیں میں سے یحییٰ بن سعیدالقطان بھی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
147. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَعْطَانِ الإِبِلِ
147. باب: بکریوں کے باڑوں اور اونٹ باندھنے کی جگہوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat In Sheep Pens And The Resting Area Of Camels
حدیث نمبر: 348
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يحيى بن آدم، عن ابي بكر بن عياش، عن هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلوا في مرابض الغنم ولا تصلوا في اعطان الإبل ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو ۱؎ اور اونٹ باندھنے کی جگہ میں نہ پڑھو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 14567)، وانظر مسند احمد (2/451، 491، 508) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «صلوا في مرابض الغنم» میں امر اباحت کے لیے ہے یعنی بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنا جائز اور مباح ہے تم اس میں نماز پڑھ سکتے ہو اور «ولا تصلوا في أعطان الإبل» میں نہی تحریمی ہے، یعنی حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (768)

Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.