سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
95. باب مَا جَاءَ فِي إِقَامَةِ الصُّلْبِ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
95. باب: رکوع اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت پیٹھ سیدھی کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Bringing The Backs To Rest When Raising One's Head From The Prostration And Bowing Positions
حدیث نمبر: 279
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن موسى المروزي، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا شعبة، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن البراء بن عازب، قال: كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا ركع وإذا رفع راسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع راسه من السجود قريبا من السواء " قال: وفي الباب عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَإِذَا سَجَدَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے، جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو آپ کی نماز تقریباً برابر برابر ہوتی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 121 (792)، و127 (801)، و140 (820)، صحیح مسلم/الصلاة 38 (471)، سنن ابی داود/ الصلاة 147 (852)، سنن النسائی/التطبیق 24 (1066)، و89 (1147)، والسہو 77 (1331)، (تحفة الأشراف: 1781)، مسند احمد (4/280، 285، 288)، سنن الدارمی/الصلاة 80 (1373) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر صریحاً دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا ایک ایسا رکن ہے جسے کسی بھی حال میں چھوڑنا صحیح نہیں، بعض لوگ سیدھے کھڑے ہوئے بغیر سجدے کے لیے جھک جاتے ہیں، اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بغیر سیدھے بیٹھے دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کی طرح ان میں تسبیحات کا اعادہ اور ان کا تکرار مسنون نہیں ہے تو یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ نص کے مقابلہ میں قیاس ہے جو درست نہیں، نیز رکوع کے بعد جو ذکر مشروع ہے وہ رکوع اور سجدے میں مشروع ذکر سے لمبا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (798)
حدیث نمبر: 280
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن الحكم نحوه. قال ابو عيسى: حديث البراء حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
اس سند سے بھی حکم سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
96. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يُبَادَرَ الإِمَامُ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
96. باب: امام سے پہلے رکوع اور سجدہ کرنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Dislike For Bowing And Prostrating Before The Imam
حدیث نمبر: 281
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن يزيد، حدثنا البراء وهو غير كذوب، قال: " كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فرفع راسه من الركوع لم يحن رجل منا ظهره حتى يسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فنسجد ". قال: وفي الباب عن انس , ومعاوية , وابن مسعدة صاحب الجيوش وابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث البراء حديث حسن صحيح، وبه يقول: اهل العلم إن من خلف الإمام إنما يتبعون الإمام فيما يصنع، لا يركعون إلا بعد ركوعه ولا يرفعون إلا بعد رفعه، لا نعلم بينهم في ذلك اختلافا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ وَهُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ، قَالَ: " كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَحْنِ رَجُلٌ مِنَّا ظَهْرَهُ حَتَّى يَسْجُدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْجُدَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَمُعَاوِيَةَ , وَابْنِ مَسْعَدَةَ صَاحِبِ الْجُيُوشِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ: أَهْلُ الْعِلْمِ إِنَّ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ إِنَّمَا يَتْبَعُونَ الْإِمَامَ فِيمَا يَصْنَعُ، لَا يَرْكَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رُكُوعِهِ وَلَا يَرْفَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رَفْعِهِ، لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا.
براء بن عازب رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے اور جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنی پیٹھ (سجدے کے لیے) اس وقت تک نہیں جھکاتا تھا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں نہ چلے جاتے، آپ سجدے میں چلے جاتے تو ہم سجدہ کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، معاویہ، ابن مسعدہ صاحب جیوش، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور یہی اہل علم کہتے ہیں یعنی: جو امام کے پیچھے ہو وہ ان تمام امور میں جنہیں امام کر رہا ہو امام کی پیروی کرے، یعنی اسے امام کے بعد کرے، امام کے رکوع میں جانے کے بعد ہی رکوع میں جائے اور اس کے سر اٹھانے کے بعد ہی اپنا سر اٹھائے، ہمیں اس مسئلہ میں ان کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 52 (690)، و91 (747)، و133 (811)، صحیح مسلم/الصلاة 39 (474)، سنن ابی داود/ الصلاة 75 (620)، سنن النسائی/الإمامة 38 (830)، (تحفة الأشراف: 1772)، مسند احمد (4/292، 300، 304) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (631 - 633)
97. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الإِقْعَاءِ فِي السُّجُودِ
97. باب: سجدوں کے درمیان اقعاء کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Squat Between The Two Prostrations
حدیث نمبر: 282
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبيد الله بن موسى، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا علي احب لك ما احب لنفسي واكره لك ما اكره لنفسي لا تقع بين السجدتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه من حديث علي إلا من حديث ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، وقد ضعف بعض اهل العلم الحارث الاعور، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم يكرهون الإقعاء، قال: وفي الباب عن عائشة، وانس، وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَلِيُّ أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي وَأَكْرَهُ لَكَ مَا أَكْرَهُ لِنَفْسِي لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَقَدْ ضَعَّفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحَارِثَ الْأَعْوَرَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الْإِقْعَاءَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے کرتا ہوں، اور وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں۔ تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ۱؎ نہ کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے،
۲- بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قرار دیا ہے ۲؎،
۳- اس باب میں عائشہ، انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 22 (894)، (تحفة الأشراف: 10041) (ضعیف) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)»

وضاحت:
۱؎: اقعاء کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ دونوں سرین زمین سے چپکے ہوں اور دونوں رانیں کھڑی ہوں اور دونوں ہاتھ زمین پر ہوں یہی اقعاء کلب ہے اور یہی وہ اقعاء ہے جس کی ممانعت آئی ہے، دوسری قسم یہ ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان قدموں کو کھڑا کر کے سرین کو دونوں ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھے، اس صورت کا ذکر ابن عباس کی حدیث میں ہے جس کی تخریج مسلم اور ابوداؤد نے بھی کی ہے، اور یہ صورت جائز ہے، بعض نے اسے بھی منسوخ شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابن عباس کو اس نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو، لیکن یہ قول درست نہیں کیونکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ممکن ہے، صحیح قول یہ ہے کہ اقعاء کی یہ صورت جائز ہے اور افضل سرین پر بیٹھنا ہے اس لیے کہ زیادہ تر آپ کا عمل اسی پر رہا ہے اور کبھی کبھی آپ نے جو اقعاء کیا وہ یا تو کسی عذر کی وجہ سے کیا ہو گا یا بیان جواز کے لیے کیا ہو گا۔
۲؎: حارث اعور کی وجہ سے یہ روایت تو ضعیف ہے مگر اس باب کی دیگر احادیث صحیح ہیں جن کا ذکر مولف نے «وفی الباب» کر کے کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (894 و 895) // ضعيف الجامع الصغير (6400)، المشكاة (903) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 894
الحارث الأعور ضعیف (د 908) وفيه علة أخري وحديث مسلم (498) والحاكم (272/1) يغني عنه .
98. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الإِقْعَاءِ
98. باب: اقعاء کی رخصت کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About Permission For Squatting
حدیث نمبر: 283
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني ابو الزبير، انه سمع طاوسا، يقول: قلنا لابن عباس في الإقعاء على القدمين، قال: " هي السنة "، فقلنا: إنا لنراه جفاء بالرجل، قال: " بل هي سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، لا يرون بالإقعاء باسا، وهو قول بعض اهل مكة من اهل الفقه والعلم، قال: واكثر اهل العلم يكرهون الإقعاء بين السجدتين.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ: قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، قَالَ: " هِيَ السُّنَّةُ "، فَقُلْنَا: إِنَّا لَنَرَاهُ جَفَاءً بِالرَّجُلِ، قَالَ: " بَلْ هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا يَرَوْنَ بِالْإِقْعَاءِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ مَكَّةَ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ، قَالَ: وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الْإِقْعَاءَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی الله عنہما سے دونوں قدموں پر اقعاء کرنے کے سلسلے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے، تو ہم نے کہا کہ ہم تو اسے آدمی کا پھوہڑپن سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا: نہیں یہ پھوہڑپن نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام میں بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ اقعاء میں کوئی حرج نہیں جانتے، مکہ کے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، لیکن اکثر اہل علم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو ناپسند کرتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 6 (536)، سنن ابی داود/ الصلاة 143 (845)، (تحفة الأشراف: 5753)، مسند احمد (1/313) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: دیکھئیے پچھلی حدیث کا حاشیہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (791)
99. باب مَا يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
99. باب: دونوں سجدوں کے درمیان کی دعا۔
Chapter: What Is Said Between The Two Prostrations
حدیث نمبر: 284
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا زيد بن حباب، عن كامل ابي العلاء، عن حبيب بن ابي ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول بين السجدتين: " اللهم اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني ".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عن سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «اللهم اغفر لي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني» اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، میرے نقصان کی تلافی فرما، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما کہتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 145 (850)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 24 (898)، (تحفة الأشراف: 5475)، مسند احمد (1/315، 371) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھنا مسنون ہے، بعض روایات میں «وأرفعني» کا اضافہ ہے اور بعض میں مختصراً «رب اغفرلي» کے الفاظ آئے ہیں، دوسری روایات میں الفاظ کچھ کمی بیشی ہے، اس لیے حسب حال جو بھی دعا پڑھ لی جائے درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (898)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 850، جه 898
حدیث نمبر: 285
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال الحلواني، حدثنا يزيد بن هارون، عن زيد بن حباب، عن كامل ابي العلاء نحوه، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وهكذا روي عن علي، وبه يقول الشافعي واحمد , وإسحاق يرون هذا جائزا في المكتوبة والتطوع، وروى بعضهم هذا الحديث عن كامل ابي العلاء مرسلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق يرون هذا جائزا في المكتوبة والتطوع، وروى بعضهم هذا الحديث عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ مُرْسَلًا.
اس سند سے بھی کامل ابو العلاء سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- اسی طرح علی رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے۔ اور بعض لوگوں نے کامل ابو العلاء سے یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے،
۳- شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ان کی رائے ہے کہ یہ فرض اور نفل دونوں میں جائز ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 850، جه 898
100. باب مَا جَاءَ فِي الاِعْتِمَادِ فِي السُّجُودِ
100. باب: سجدے میں ٹیک لگانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Supporting Oneself During Prostration
حدیث نمبر: 286
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: اشتكى بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى النبي صلى الله عليه وسلم مشقة السجود عليهم إذا تفرجوا، فقال: " استعينوا بالركب ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه، من حديث الليث، عن ابن عجلان، وقد روى هذا الحديث سفيان بن عيينة وغير واحد، عن سمي، عن النعمان بن ابي عياش، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وكان رواية هؤلاء اصح من رواية الليث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: اشْتَكَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشَقَّةَ السُّجُودِ عَلَيْهِمْ إِذَا تَفَرَّجُوا، فَقَالَ: " اسْتَعِينُوا بِالرُّكَبِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَكَأَنَّ رِوَايَةَ هَؤُلَاءِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ اللَّيْثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے میں دونوں ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے اور پیٹ کو ران سے جدا رکھنے کی صورت میں (تکلیف کی) شکایت کی، تو آپ نے فرمایا: گھٹنوں سے (ان پر ٹیک لگا کر) مدد لے لیا کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم سے ابوصالح کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے صرف اسی طریق سے (یعنی لیث عن ابن عجلان کے طریق سے) جانتے ہیں اور سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «سمى عن النعمان بن أبي عياش عن النبي صلى الله عليه وسلم» (اسی طرح) روایت کی ہے، ان لوگوں کی روایت لیث کی روایت کے مقابلے میں شاید زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 159 (902)، (تحفة الأشراف: 12580)، مسند احمد (2/340) (ضعیف) (محمد بن عجلان کی اس روایت کو ان سے زیادہ ثقہ اور معتبر رواة نے مرسلاً ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا، اس لیے ان کی یہ روایت ضعیف ہے، دیکھئے: ضعیف سنن ابی داود: ج9/رقم: 832)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کہنیاں گھٹنوں پر رکھ لیا کرو تاکہ تکلیف کم ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (160) // عندنا في " ضعيف أبي داود " برقم (192 / 902) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 902
101. باب مَا جَاءَ كَيْفَ النُّهُوضُ مِنَ السُّجُودِ
101. باب: سجدے سے کیسے اٹھا جائے؟
Chapter: [What Has Been Related About] How To Get Up From The Prostration
حدیث نمبر: 287
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا هشيم، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث الليثي، انه راى النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي فكان إذا كان في وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي جالسا "، قال ابو عيسى: حديث مالك بن الحويرث حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند بعض اهل العلم، وبه يقول: إسحاق وبعض اصحابنا، ومالك يكنى ابا سليمان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ اللَّيْثِيِّ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي فَكَانَ إِذَا كَانَ فِي وِتْرٍ مِنْ صَلَاتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: إِسْحَاق وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا، وَمَالِكٌ يُكْنَى أَبَا سُلَيْمَانَ.
ابواسحاق مالک بن حویرث لیثی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، آپ کی نماز اس طرح سے تھی کہ جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک کہ آپ اچھی طرح بیٹھ نہ جاتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- مالک بن حویرث کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی اسحاق بن راہویہ اور ہمارے بعض اصحاب بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 45 (677)، و127 (803)، و142 (823)، و143 (824)، سنن ابی داود/ الصلاة 182 (842، 843، 844)، (تحفة الأشراف: 11183) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس بیٹھک کا نام جلسہ استراحت ہے، یہ حدیث جلسہ استراحت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، جو لوگ جلسہ استراحت کی سنت کے قائل نہیں ہیں انہوں نے اس حدیث کی مختلف تاویلیں کی ہیں، لیکن یہ ایسی تاویلات ہیں جو قطعاً لائق التفات نہیں، نیز قدموں کے سہارے بغیر بیٹھے اٹھنے کی حدیث ضعیف ہے جو آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2 / 82 - 83)، صفة الصلاة // 136 //
102. باب مِنْهُ أَيْضًا
102. باب: سجدہ سے اٹھنے سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Something Else About That
حدیث نمبر: 288
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو معاوية، حدثنا خالد بن إلياس، عن صالح مولى التوءمة، عن ابي هريرة، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم ينهض في الصلاة على صدور قدميه " قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة عليه العمل عند اهل العلم يختارون ان ينهض الرجل في الصلاة على صدور قدميه، وخالد بن إلياس هو ضعيف عند اهل الحديث، قال: ويقال خالد بن إياس ايضا، وصالح مولى التوءمة هو صالح بن ابي صالح، وابو صالح اسمه: نبهان وهو مدني.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ عَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَنْهَضَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ، وَخَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ هُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ: وَيُقَالُ خَالِدُ بْنُ إِيَاسٍ أَيْضًا، وَصَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ هُوَ صَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، وَأَبُو صَالِحٍ اسْمُهُ: نَبْهَانُ وَهُوَ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں یعنی دونوں پیروں کی انگلیوں پر زور دے کر اٹھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اہل علم کے نزدیک ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی کی حدیث پر عمل ہے۔ خالد بن الیاس محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ انہیں خالد بن ایاس بھی کہا جاتا ہے، لوگ اسی کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر (بغیر بیٹھے) کھڑا ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13504) (ضعیف) (سند میں دو راوی خالد اور صالح مولیٰ التوامہ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں اور دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر بغیر بیٹھے کھڑے ہو جانے کو پسند کرتے ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (362)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
خالد بن إلياس: متروك الحديث (تق:1617)

Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.