Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
102. باب مِنْهُ أَيْضًا
باب: سجدہ سے اٹھنے سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 288
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ " قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ عَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَنْهَضَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيْهِ، وَخَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ هُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ: وَيُقَالُ خَالِدُ بْنُ إِيَاسٍ أَيْضًا، وَصَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ هُوَ صَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، وَأَبُو صَالِحٍ اسْمُهُ: نَبْهَانُ وَهُوَ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں یعنی دونوں پیروں کی انگلیوں پر زور دے کر اٹھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اہل علم کے نزدیک ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی کی حدیث پر عمل ہے۔ خالد بن الیاس محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ انہیں خالد بن ایاس بھی کہا جاتا ہے، لوگ اسی کو پسند کرتے ہیں کہ آدمی نماز میں اپنے دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر (بغیر بیٹھے) کھڑا ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13504) (ضعیف) (سند میں دو راوی خالد اور صالح مولیٰ التوامہ ضعیف ہیں)»

وضاحت: ۱؎: جو لوگ جلسہ استراحت کے قائل نہیں ہیں اور دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر بغیر بیٹھے کھڑے ہو جانے کو پسند کرتے ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (362)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
خالد بن إلياس: متروك الحديث (تق:1617)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 288 کے فوائد و مسائل
  ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 288  
تبصرہ:
اس کی سند میں، خالد بن ایاس راوی ہے، اس کے متعلق:
◈ امام احمد فرماتے ہیں۔ متروک الحدیث ہے۔
◈ امام ابن معین کا کہنا ہے کہ ہیچ محض ہے اس کی روایات لکھی ہی نہ جائیں،
◈امام ابو حاتم کا کہنا ہے کہ ضعیف الحدیث، منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ضعیف و غیر قوی ہے۔
◈امام بخاری ارشاد فرماتے ہیں کہ منکر الحدیث اور ہیچ محض ہے،
◈ امام نسائی فرماتے ہیں کہ متروک الحدیث ہے دوسری بار فرمایا ثقہ نہیں اور اس کی مرویات لکھی ہی نہ جائیں۔
◈ امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس کی تمام مرویات غرائب اور افراد ہیں باوجود ضعیف کے اس کی مرویات کو لکھا جائے،
◈ امام ترمذی، امام ابن شاہین، امام محمد بن عمار،امام ساجی، امام ابن مثنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
◈ امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ ثقات سے موضوع اور من گھڑت روایات نقل کرتا ہے، اور دل اس طرف مائل ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر روایات وضع کرتا تھا،
◈ امام حاکم فرماتے ہیں سعید المقبری وغیرہ سے موضوع روایات نقل کرتا ہے،
◈ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ تمام محدثین کرام کے نزدیک ضعیف ہے۔ [تھذیب: ص 81 ج 3]
◈ حافظ ابن حجر اور علامہ البانی رحمها اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [فتح الباری: ص 231 ج 2، وارواء الغلیل ص 81 ج 1]
   حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 18   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 288  
اردو حاشہ:
1؎:
جو لو گ جلسئہ استراحت کے قائل نہیں ہیں اور دونوں قدموں کے سروں پر زور دے کر بغیر بیٹھے کھڑے ہو جانے کو پسند کرتے ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے،
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے استدلال کے قابل نہیں۔

نوٹ:
(سند میں دو راوی خالد اور صالح مولیٰ التوامہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 288