سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
98. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنَّهُمَا لاَ يَقْرَآنِ الْقُرْآنَ
98. باب: جنبی اور حائضہ کے قرآن نہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Junub And The Menstruating Persons That They Do Not Recite The Qur'an
حدیث نمبر: 131
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , والحسن بن عرفة , قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تقرا الحائض ولا الجنب شيئا من القرآن ". قال: وفي الباب عن علي. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث لا نعرفه إلا من حديث إسماعيل بن عياش، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تقرا الجنب ولا الحائض " , وهو قول اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، مثل: سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: لا تقرا الحائض ولا الجنب من القرآن شيئا، إلا طرف الآية والحرف ونحو ذلك، ورخصوا للجنب والحائض في التسبيح والتهليل، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل يقول: إن إسماعيل بن عياش يروي، عن اهل الحجاز واهل العراق احاديث مناكير، كانه ضعف روايته عنهم فيما ينفرد به، وقال: إنما حديث إسماعيل بن عياش، عن اهل الشام، وقال احمد بن حنبل: إسماعيل بن عياش اصلح من بقية، ولبقية احاديث مناكير عن الثقات. قال ابو عيسى: حدثني احمد بن الحسن، قال: سمعت احمد بن حنبل يقول ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقْرَأْ الْجُنُبُ وَلَا الْحَائِضُ " , وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، إِلَّا طَرَفَ الْآيَةِ وَالْحَرْفَ وَنَحْوَ ذَلِكَ، وَرَخَّصُوا لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ فِي التَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَقُولُ: إِنَّ إِسْمَاعِيل بْنَ عَيَّاشٍ يَرْوِي، عَنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، كَأَنَّهُ ضَعَّفَ رِوَايَتَهُ عَنْهُمْ فِيمَا يَنْفَرِدُ بِهِ، وَقَالَ: إِنَّمَا حَدِيثُ إِسْمَاعِيل بْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ أَهْلِ الشَّامِ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ مِنْ بَقِيَّةَ، وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنِ الثِّقَاتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَال: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ جس میں ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جنبی اور حائضہ (قرآن) نہ پڑھیں،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اور ان کے بعد کے لوگ مثلاً سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ حائضہ اور جنبی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک آدھ حرف کے سوا قرآن سے کچھ نہ پڑھیں، ہاں ان لوگوں نے جنبی اور حائضہ کو تسبیح و تہلیل کی اجازت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 105 (595)، (تحفة الأشراف: 8474) (منکر) (سند میں راوی اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور موسیٰ بن عقبہ مدنی ہیں)۔»

قال الشيخ الألباني: منكر، ابن ماجة (595)، // ضعيف سنن ابن ماجة (130)، المشكاة (461)، الإرواء (192)، ضعيف الجامع الصغير وزيادته الفتح الكبير - بترتيبى - برقم (6364) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 595
موسى بن عقبة: مدني حجازي، ورواية إسماعيل عن الحجازيين ضعیفة كما نقل المؤلف عن البخاري رحمه الله .
99. بَابُ مَا جَاءَ فِي مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ
99. باب: حائضہ کے ساتھ بوس و کنار کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Fondling Menstruating Woman
حدیث نمبر: 132
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بندار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا حضت يامرني ان اتزر ثم يباشرني ". قال: وفي الباب عن ام سلمة , وميمونة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مِنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حِضْتُ يَأْمُرُنِي أَنْ أَتَّزِرَ ثُمَّ يُبَاشِرُنِي ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , وَمَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جب حیض آتا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مجھے تہ بند باندھنے کا حکم دیتے پھر مجھ سے چمٹتے اور بوس و کنار کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ صحابہ کرام و تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۲- اس باب میں ام سلمہ اور میمونہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحیض 5 (300)، صحیح مسلم/الحیض 1 (293)، سنن ابی داود/ الطہارة 107 (267)، سنن النسائی/الطہارة 180 (286)، والحیض 12 (373)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 121 (636)، (تحفة الأشراف: 15982) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (260)
100. بَابُ مَا جَاءَ فِي مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ وَسُؤْرِهَا
100. باب: حائضہ کے ساتھ کھانے اور اس کے جھوٹے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Eating With A Menstruating Woman And Leftovers
حدیث نمبر: 133
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس العنبري , ومحمد بن عبد الاعلى , قالا: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا معاوية بن صالح، عن العلاء بن الحارث، عن حرام بن معاوية، عن عمه عبد الله بن سعد، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن مواكلة الحائض، فقال:" واكلها". قال: وفي الباب عن عائشة , وانس. قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن سعد حسن غريب، وهو قول عامة اهل العلم لم يروا بمواكلة الحائض باسا، واختلفوا في فضل وضوئها، فرخص في ذلك بعضهم، وكره بعضهم فضل طهورها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ، فَقَالَ:" وَاكِلْهَا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بِمُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ بَأْسًا، وَاخْتَلَفُوا فِي فَضْلِ وَضُوئِهَا، فَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ فَضْلَ طَهُورِهَا.
عبداللہ بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ کھاؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن سعد رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں عائشہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے: یہ لوگ حائضہ کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔ البتہ اس کے وضو کے بچے ہوئے پانی کے سلسلہ میں ان میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض نے اس کی طہارت سے بچے ہوئے پانی کو مکروہ کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 83 (212)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 130 (651)، (تحفة الأشراف: 5326)، مسند احمد (5/293) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث آیت کریمہ: «فاعتزلوا النساء في المحيض» (البقرة: 222) کے معارض نہیں کیونکہ آیت میں جدا رہنے سے مراد وطی سے جدا رہنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (651)
101. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْحَائِضِ تَتَنَاوَلُ الشَّيْءَ مِنَ الْمَسْجِدِ
101. باب: حائضہ ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے۔
Chapter: What Has Been Related About The Menstruating Woman Getting Something From The Masjid
حدیث نمبر: 134
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبيدة بن حميد، عن الاعمش، عن ثابت بن عبيد، عن القاسم بن محمد، قال: قالت لي عائشة: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ناوليني الخمرة من المسجد " قالت: قلت: إني حائض , قال: " إن حيضتك ليست في يدك ". قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن صحيح، وهو قول عامة اهل العلم، لا نعلم بينهم اختلافا في ذلك بان لا باس ان تتناول الحائض شيئا من المسجد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ثابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ " قَالَتْ: قُلْتُ: إِنِّي حَائِضٌ , قَالَ: " إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ بِأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْحَائِضُ شَيْئًا مِنَ الْمَسْجِدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: مسجد سے مجھے بوریا اٹھا کر دو، تو میں نے عرض کیا: میں حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ ہم اس مسئلہ میں کہ حائضہ کے مسجد سے کوئی چیز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 2 (298)، سنن ابی داود/ الطہارة 104 (261)، سنن النسائی/الطہارة 173 (272)، والحیض 18 (383)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 120 (632)، (تحفة الأشراف: 17446)، مسند احمد (6/45، 101، 112، 141، 173، 214، 229، 245)، سنن الدارمی/الطہارة 81 (798) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (632)
102. بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِتْيَانِ الْحَائِضِ
102. باب: حائضہ سے جماع کے جائز نہ ہونے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Dislike For Engaging In Sexual Intercourse With A Menstruating Woman
حدیث نمبر: 135
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بندار، حدثنا يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي , وبهز بن اسد , قالوا: حدثنا حماد بن سلمة، عن حكيم الاثرم، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اتى حائضا او امراة في دبرها او كاهنا، فقد كفر بما انزل على محمد " صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: لا نعرف هذا الحديث إلا من حديث حكيم الاثرم، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي هريرة، وإنما معنى هذا عند اهل العلم على التغليظ، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اتى حائضا فليتصدق بدينار " , فلو كان إتيان الحائض كفرا لم يؤمر فيه بالكفارة , وضعف محمد هذا الحديث من قبل إسناده، وابو تميمة الهجيمي اسمه: طريف بن مجالد.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , وَبَهْزُ بْنُ أَسَدٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ سَلَمَةِ، عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ " صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: لَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّغْلِيظِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَتَى حَائِضًا فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ " , فَلَوْ كَانَ إِتْيَانُ الْحَائِضِ كُفْرًا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِالْكَفَّارَةِ , وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَأَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ اسْمُهُ: طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی حائضہ کے پاس آیا یعنی اس سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یا کسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کا حال جاننے کے لیے) آیا تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (صلی الله علیہ وسلم) پر نازل کی گئی ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اہل علم کے نزدیک نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفر ہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب21 (3904)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 122 (639)، (تحفة الأشراف: 13536)، مسند احمد (2/429) (صحیح) (سند میں حکیم الأثرم میں کچھ ضعف ہے، تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے، الإ رواء: 2006)»

وضاحت:
۱؎: آپ کا یہ فرمانا تغلیظاً ہے جیسا کہ خود امام ترمذی نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (639)
103. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْكَفَّارَةِ فِي ذَلِكَ
103. باب: حائضہ سے جماع کے کفارہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Atonement For That
حدیث نمبر: 136
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن خصيف، عن مقسم، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرجل يقع على امراته وهي حائض، قال: " يتصدق بنصف دينار ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: " يَتَصَدَّقُ بِنِصْفِ دِينَارٍ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس آدمی کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتا ہے فرمایا: وہ آدھا دینار صدقہ کرے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 106 (264)، سنن النسائی/الطہارة 182 (290)، والحیض 9 (370)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 123 (140)، و129 (250)، (تحفة الأشراف: 6486)، مسند احمد (1/237، 272، 286، 312، 325، 363، 367)، سنن الدارمی/الطہارة 111 (1145) (ضعیف) (اس لفظ سے ضعیف ہے، سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں اور خصیف بن عبدالرحمن الجزری بھی سیٔ الحفظ اور اختلاط کا شکار راوی ہیں، لیکن حدیث...دينار أو نصف دينار کے لفظ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی 334، صحیح سنن ابی داود 256، ضعیف أبی داود 42)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ، والصحيح بلفظ: " دينار أو نصف دينار "، صحيح أبي داود (256)، ابن ماجة (640)، ضعيف أبي داود (42)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 266
حدیث نمبر: 137
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، اخبرنا الفضل بن موسى، عن ابي حمزة السكري، عن عبد الكريم، عن مقسم، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا كان دما احمر فدينار، وإذا كان دما اصفر فنصف دينار ". قال ابو عيسى: حديث الكفارة في إتيان الحائض قد روي عن ابن عباس موقوفا ومرفوعا، وهو قول بعض اهل العلم، وبه يقول احمد , وإسحاق، قال ابن المبارك: يستغفر ربه ولا كفارة عليه، وقد روي نحو قول ابن المبارك عن بعض التابعين، منهم: سعيد بن جبير , وإبراهيم النخعي، وهو قول عامة علماء الامصار.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا كَانَ دَمًا أَحْمَرَ فَدِينَارٌ، وَإِذَا كَانَ دَمًا أَصْفَرَ فَنِصْفُ دِينَارٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْكَفَّارَةِ فِي إِتْيَانِ الْحَائِضِ قَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا وَمَرْفُوعًا، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: يَسْتَغْفِرُ رَبَّهُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ قَوْلِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ بَعْضِ التَّابِعِينَ، مِنْهُمْ: سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ عُلَمَاءِ الْأَمْصَارِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب خون سرخ ہو (اور جماع کر لے تو) ایک دینار اور جب زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حائضہ سے جماع کے کفارے کی حدیث ابن عباس سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے مروی ہے،
۲- اور بعض اہل علم کا یہی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اپنے رب سے استغفار کرے گا، اس پر کوئی کفارہ نہیں، ابن مبارک کے قول کی طرح بعض تابعین سے بھی مروی ہے جن میں سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی بھی شامل ہیں۔ اور اکثر علماء امصار کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6491) (ضعیف) (سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ضعیف ہیں، یہ مفصل مرفوع روایت ضعیف ہے، لیکن موقوف یعنی ابن عباس کے قول سے صحیح ہے، دیکھئے صحیح ابی داود رقم: 258)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، والصحيح عنه بهذا التفصيل موقوف، صحيح أبي داود (258)، // هو فى صحيح سنن أبى داود - باختصار السند برقم (238 - 265) //

قال الشيخ زبير على زئي: ضعیف / جه 650
عبد الكريم هو أبو أمية الضعیف كما في السنن الكبرى للبيهقي (317،316/1) والنكت الظرف (248/5) وهو ضعیف (تقدم: 12) فالسند ضعیف وللحديث شواهد ضعیفة .
104. بَابُ مَا جَاءَ فِي غَسْلِ دَمِ الْحَيْضِ مِنَ الثَّوْبِ
104. باب: کپڑے سے حیض کا خون دھونے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Washing Menstrual Blood From The Garment
حدیث نمبر: 138
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن فاطمة بنت المنذر، عن اسماء بنت ابي بكر، ان امراة سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن الثوب يصيبه الدم من الحيضة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حتيه ثم اقرصيه بالماء ثم رشيه وصلي فيه ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وام قيس بنت محصن. قال ابو عيسى: حديث اسماء في غسل الدم حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في الدم يكون على الثوب فيصلي فيه قبل ان يغسله، قال بعض اهل العلم من التابعين: إذا كان الدم مقدار الدرهم فلم يغسله وصلى فيه اعاد الصلاة، وقال بعضهم: إذا كان الدم اكثر من قدر الدرهم اعاد الصلاة، وهو قول سفيان الثوري , وابن المبارك، ولم يوجب بعض اهل العلم من التابعين وغيرهم عليه الإعادة، وإن كان اكثر من قدر الدرهم، وبه يقول احمد , وإسحاق، وقال الشافعي: يجب عليه الغسل، وإن كان اقل من قدر الدرهم وشدد في ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَى الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهُ، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْهَمِ فَلَمْ يَغْسِلْهُ وَصَلَّى فِيهِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ، وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ.
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ۱؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 63 (227)، والحیض 9 (307)، صحیح مسلم/الطہارة 33 (291)، و132 (291)، سنن ابی داود/ الطہارة 132 (360)، سنن النسائی/الطہارة 185 (294)، والحیض 26 (394)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 118 (629)، (تحفة الأشراف: 15744)، موطا امام مالک/الطہارة 28 (103)، سنن الدارمی/الطہارة 82 (799) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔
۲؎: اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔
۳؎: ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں «إن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمى رجل بسهم فنزفه الدم فركع وسجد ومضى في صلاته» لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔
۴؎: کیونکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (629)
105. بَابُ مَا جَاءَ فِي كَمْ تَمْكُثُ النُّفَسَاءُ
105. باب: نفاس والی عورتیں (صوم و صلاۃ سے) کب تک رکی رہیں؟
Chapter: What Has Been Related About the Extent Of The Waiting During Nifas
حدیث نمبر: 139
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا شجاع بن الوليد ابو بدر، عن علي بن عبد الاعلى، عن ابي سهل، عن مسة الازدية، عن ام سلمة قالت: " كانت النفساء تجلس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم اربعين يوما، فكنا نطلي وجوهنا بالورس من الكلف ". قال ابو عيسى: هذا غريب نعرفه إلا من حديث ابي سهل، عن مسة الازدية، عن ام سلمة، واسم ابي سهل: كثير بن زياد، قال محمد بن إسماعيل: علي بن عبد الاعلى ثقة، وابو سهل ثقة، ولم يعرف محمد هذا الحديث إلا من حديث ابي سهل، وقد اجمع اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم على ان النفساء تدع الصلاة اربعين يوما، إلا ان ترى الطهر قبل ذلك فإنها تغتسل وتصلي، فإذا رات الدم بعد الاربعين، فإن اكثر اهل العلم، قالوا: لا تدع الصلاة بعد الاربعين، وهو قول اكثر الفقهاء , وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، ويروى عن الحسن البصري، انه قال: إنها تدع الصلاة خمسين يوما إذا لم تر الطهر ويروى عن عطاء بن ابي رباح , والشعبي ستين يوما.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ أَبُو بَدْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِي سَهْلٍ، عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: " كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، فَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَهْلٍ، عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَاسْمُ أَبِي سَهْلٍ: كَثِيرُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ثِقَةٌ، وَأَبُو سَهْلٍ ثِقَةٌ، وَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَهْلٍ، وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، إِلَّا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، فَإِنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ , وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَيُرْوَى عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ خَمْسِينَ يَوْمًا إِذَا لَمْ تَرَ الطُّهْرَ وَيُرْوَى عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ , وَالشَّعْبِيِّ سِتِّينَ يَوْمًا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں، اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف ابوسہل ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے تمام اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک نماز نہیں پڑھیں گی۔ البتہ اگر وہ اس سے پہلے پاک ہو لیں تو غسل کر کے نماز پڑھنے لگ جائیں، اگر چالیس دن کے بعد بھی وہ خون دیکھیں تو اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ چالیس دن کے بعد وہ نماز نہ چھوڑیں، یہی اکثر فقہاء کا قول ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ پچاس دن تک نماز چھوڑے رہے جب وہ پاکی نہ دیکھے، عطاء بن ابی رباح اور شعبی سے ساٹھ دن تک مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 121 (311)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 128 (648)، (تحفة الأشراف: 18287)، مسند احمد (6/300، 303، 304، 310) (حسن صحیح) (سند میں مُسّہ ازدیہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (648)
106. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
106. باب: کئی بیویوں سے صحبت کرنے کے بعد آخر میں غسل کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Going To All Of His Women With One Ghusl
حدیث نمبر: 140
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بندار محمد بن بشار , حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن معمر، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " كان يطوف على نسائه في غسل واحد ". قال: وفي الباب عن ابي رافع. قال ابو عيسى: حديث انس حسن صحيح، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يطوف على نسائه بغسل واحد، وهو قول غير واحد من اهل العلم، منهم الحسن البصري، ان لا باس ان يعود قبل ان يتوضا، وقد روى محمد بن يوسف هذا، عن سفيان , فقال: عن ابي عروة، عن ابي الخطاب، عن انس , وابو عروة هو: معمر بن راشد , وابو الخطاب: قتادة بن دعامة. قال ابو عيسى: ورواه بعضهم، عن محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ابن ابي عروة، عن ابي الخطاب، وهو خطا والصحيح عن ابي عروة.(مرفوع) حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَعُودَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ، وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ هَذَا، عَنْ سُفْيَانَ , فَقَالَ: عَنْ أَبِي عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ أَنَسٍ , وَأَبُو عُرْوَةَ هُوَ: مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ , وَأَبُو الْخَطَّابِ: قَتَادَةُ بْنُ دِعَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، وَهُوَ خَطَأٌ وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي عُرْوَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ہی غسل میں سبھی بیویوں کا چکر لگا لیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابورافع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
۳- بہت سے اہل علم کا جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں یہی قول ہے کہ وضو کرنے سے پہلے دوبارہ جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 6 (309)، سنن النسائی/الطہارة 170 (264)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 101 (588)، (تحفة الأشراف: 1336)، مسند احمد (3/225)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الغسل 12 (268)، و24 (284)، والنکاح 4 (5068)، و102 (5215)، سنن ابی داود/ الطہارة 85 (218) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی سب سے صحبت کر کے اخیر میں ایک غسل کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (588)

Previous    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.