(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا معمر، عن الزهري بهذا الإسناد مثله. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وإنما كان الماء من الماء في اول الإسلام، ثم نسخ بعد ذلك، وهكذا روى غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابي بن كعب , ورافع بن خديج، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم على انه إذا جامع الرجل امراته في الفرج وجب عليهما الغسل وإن لم ينزلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّهُ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فِي الْفَرْجِ وَجَبَ عَلَيْهِمَا الْغُسْلُ وَإِنْ لَمْ يُنْزِلَا.
اس سند سے بھی زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، ۳- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما بھی شامل ہیں، مروی ہے، ۴- اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہو جائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہوا ہو۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن ابي الجحاف، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " إنما الماء من الماء في الاحتلام ". قال ابو عيسى: سمعت الجارود , يقول: سمعت وكيعا، يقول: لم نجد هذا الحديث إلا عند شريك. قال ابو عيسى: وابو الجحاف اسمه: داود بن ابي عوف , عن سفيان الثوري، قال: حدثنا ابو الجحاف وكان مرضيا. قال ابو عيسى: وفي الباب عن عثمان بن عفان، وعلي بن ابي طالب، والزبير، وطلحة، وابي ايوب، وابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " الماء من الماء ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ فِي الِاحْتِلَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: لَمْ نَجِدْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا عِنْدَ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ: دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ , عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، والزبير، وطلحة، وأبي أيوب، وأبي سعيد، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ”منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے“ کا تعلق احتلام سے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، ابوایوب اور ابوسعید رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا منی نکلنے ہی پر غسل واجب ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6080) (ضعیف الإسناد) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، اور یہ موقوف ہے، لیکن اصل حدیث إنما الماء من الماء مرفوعا صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور مؤلف نے باب میں وارد احادیث کا ذکر کیا، لیکن مرفوع میں (في الاحتلام) کا لفظ نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ توجیہ حدیث «إنما الماء من الماء»”انزال ہونے پر غسل واجب ہے“ کی ایک دوسری توجیہ ہے، یعنی خواب میں ہمبستری دیکھے اور کپڑے میں منی دیکھے تب غسل واجب ہے ورنہ نہیں، مگر بقول علامہ البانی ابن عباس رضی الله عنہما کا یہ قول بھی بغیر «في الاحتلام» کے ہے، یہ لفظ ان کے قول سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے، اور «إنما الماء من الماء» شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔
قال الشيخ الألباني: (حديث ابن عباس) صحيح دون قوله " فى الاحتلام " وهو ضعيف الإسناد موقوف، (حديث أبي سعيد) صحيح (حديث أبي سعيد)، ابن ماجة (606 - 607)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف شريك القاضي مدلس وعنعن . (ضعيف سنن أبي داود: 266)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا حماد بن خالد الخياط، عن عبد الله بن عمر هو العمري، عن عبيد الله بن عمر، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد البلل ولا يذكر احتلاما , قال: " يغتسل " , وعن الرجل يرى انه قد احتلم ولم يجد بللا , قال: " لا غسل عليه " , قالت ام سلمة: يا رسول الله هل على المراة ترى ذلك غسل؟ قال: " نعم إن النساء شقائق الرجال ". قال ابو عيسى: وإنما روى هذا الحديث عبد الله بن عمر، عن عبيد الله بن عمر، حديث عائشة في الرجل يجد البلل ولا يذكر احتلاما، وعبد الله بن عمر، ضعفه يحيى بن سعيد من قبل حفظه في الحديث، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين: إذا استيقظ الرجل فراى بلة انه يغتسل , وهو قول سفيان الثوري، واحمد، وقال بعض اهل العلم من التابعين: إنما يجب عليه الغسل إذا كانت البلة بلة نطفة، وهو قول الشافعي، وإسحاق، وإذا راى احتلاما ولم ير بلة، فلا غسل عليه عند عامة اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ هُوَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا , قَالَ: " يَغْتَسِلُ " , وَعَنِ الرَّجُلِ يَرَى أَنَّهُ قَدِ احْتَلَمَ وَلَمْ يَجِدْ بَلَلًا , قَالَ: " لَا غُسْلَ عَلَيْهِ " , قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَرَى ذَلِكَ غُسْلٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، حَدِيثَ عَائِشَةَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ: إِذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَرَأَى بِلَّةً أَنَّهُ يَغْتَسِلُ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ: إِنَّمَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْغُسْلُ إِذَا كَانَتِ الْبِلَّةُ بِلَّةَ نُطْفَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَإِسْحَاق، وَإِذَا رَأَى احْتِلَامًا وَلَمْ يَرَ بِلَّةً، فَلَا غُسْلَ عَلَيْهِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے، آپ نے فرمایا: ”وہ غسل کرے“ اور اس شخص کے بارے میں (پوچھا گیا) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا: ”اس پر غسل نہیں“ ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے؟ آپ نے فرمایا: عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث کو جس میں ہے کہ آدمی تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ آئے صرف عبداللہ ابن عمر عمری ہی نے عبیداللہ سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن عمر عمری کی یحییٰ بن سعید نے حدیث کے سلسلے میں ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے ۱؎، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جب آدمی جاگے اور تری دیکھے تو غسل کرے، یہی سفیان ثوری اور احمد کا بھی قول ہے۔ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر غسل اس وقت واجب ہو گا جب وہ تری نطفے کی تری ہو، یہ شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور جب وہ احتلام دیکھے اور تری نہ پائے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 95 (236)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 112 (612)، (تحفة الأشراف: 17539)، مسند احمد (6/256) (صحیح) (ام سلمہ (یا ام سلیم) کا قول صرف عبداللہ العمری کی اس روایت میں ہے اور وہ ضعیف ہیں، بقیہ ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داود 234)»
وضاحت: ۱؎: فی الواقع عبداللہ العمری حفظ میں کمی کے سبب تمام ائمہ کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن اس حدیث کا آخری ٹکڑا صحیحین میں ام سلمہ رضی الله عنہما کی حدیث سے مروی ہے، اور پہلا ٹکڑا خولہ بنت حکیم کی حدیث جو حسن ہے سے تقویت پا کر صحیح ہے (خولہ کی حدیث ابن ماجہ میں ہے، دیکھئیے رقم: ۶۰۲)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (234)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 236 جه 612
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو السواق البلخي، حدثنا هشيم، عن يزيد بن ابي زياد. ح قال: وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن علي، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم، عن المذي , فقال: " من المذي الوضوء، ومن المني الغسل ". قال: وفي الباب عن المقداد بن الاسود , وابي بن كعب. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وقد روي عن علي بن ابي طالب، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه: من المذي الوضوء ومن المني الغسل , وهو قول عامة اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم، وبه يقول سفيان، والشافعي، واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ. ح قَالَ: وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الْمَذْيِ , فَقَالَ: " مِنَ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ، وَمِنَ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ , وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: مِنَ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ وَمِنَ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ , وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”مذی سے وضو ہے اور منی سے غسل“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کئی سندوں سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”مذی سے وضو ہے، اور منی سے غسل“، ۴- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، اور سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة70 (504)، مسند احمد (1/87، 110، 112، 121)، (تحفة الأشراف: 10225)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الغسل 13 (269)، سنن ابی داود/ الطہارة 83 (206)، سنن النسائی/الطہارة 112 (152)، والغسل 28 (436)، مسند احمد (1/ 82، 108) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اس سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، مذی سفید، پتلا لیس دار پانی ہے جو بیوی سے چھیڑ چھاڑ کے وقت اور جماع کے ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔
۲؎: خواہ یہ منی جماع سے نکلے یا چھیڑ چھاڑ سے، یا خواب (نیند) میں، بہرحال اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (504)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 504 يزيد بن أبي زياد ضعیف مدلس مختلط . (ضعيف سنن أبي داود: 749)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، عن سعيد بن عبيد هو ابن السباق، عن ابيه، عن سهل بن حنيف، قال: كنت القى من المذي شدة وعناء فكنت اكثر منه الغسل، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم وسالته عنه، فقال: " إنما يجزئك من ذلك الوضوء " , فقلت: يا رسول الله كيف بما يصيب ثوبي منه؟ قال: " يكفيك ان تاخذ كفا من ماء فتنضح به ثوبك حيث ترى انه اصاب منه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ولا نعرفه إلا من حديث محمد بن إسحاق في المذي مثل هذا، وقد اختلف اهل العلم في المذي يصيب الثوب، فقال بعضهم: لا يجزئ إلا الغسل، وهو قول الشافعي , وإسحاق، وقال بعضهم: يجزئه النضح، وقال احمد: ارجو ان يجزئه النضح بالماء.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ هُوَ ابْنُ السَّبَّاقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ: كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَاءً فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْهُ الْغُسْلَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: " إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ " , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ؟ قَالَ: " يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَتَنْضَحَ بِهِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق فِي الْمَذْيِ مِثْلَ هَذَا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُجْزِئُ إِلَّا الْغَسْلُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ , وَإِسْحَاق، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُجْزِئُهُ النَّضْحُ، وقَالَ أَحْمَدُ: أَرْجُو أَنْ يُجْزِئَهُ النَّضْحُ بِالْمَاءِ.
سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمد بن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں، ۳- کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا۔ امام احمد کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال: " ضاف عائشة ضيف، فامرت له بملحفة صفراء، فنام فيها فاحتلم، فاستحيا ان يرسل بها وبها اثر الاحتلام، فغمسها في الماء ثم ارسل بها، فقالت عائشة: لم افسد علينا ثوبنا إنما كان يكفيه ان يفركه باصابعه، وربما فركته من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم باصابعي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم من الفقهاء، مثل: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا في المني يصيب الثوب: يجزئه الفرك وإن لم يغسل، وهكذا روي عن منصور، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، عن عائشة، مثل رواية الاعمش، وروى ابو معشر هذا الحديث، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، وحديث الاعمش اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: " ضَافَ عَائِشَةَ ضَيْفٌ، فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ صَفْرَاءَ، فَنَامَ فِيهَا فَاحْتَلَمَ، فَاسْتَحْيَا أَنْ يُرْسِلَ بِهَا وَبِهَا أَثَرُ الِاحْتِلَامِ، فَغَمَسَهَا فِي الْمَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِأَصَابِعِهِ، وَرُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا فِي الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ: يُجْزِئُهُ الْفَرْكُ وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ، مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ، وَرَوَى أَبُو مَعْشَرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَحَدِيثُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔ وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا، ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا، تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی ۱؎ لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، گرچہ دھویا نہ جائے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 82 (538)، مسند احمد (6/43)، (تحفة الأشراف: 17677)، وانظر أیضا: صحیح مسلم/الطہارة 32 (288)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 188 (298)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 82 (537)، مسند احمد (6/67، 125، 135، 213، 239، 263، 280) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں خشک ہو تو اسے کھرچ دینے اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کر دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے، امام شافعی داود ظاہری اور امام احمد کی رائے ہے کہ منی ناک کے پانی اور منہ کے لعاب کی طرح پاک ہے، صحابہ کرام میں سے علی، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم کا بھی یہی مسلک ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کا بھی یہی مسلک ہے شیخ الاسلام کا فتوی ”الفتاوی الکبریٰ“ میں مفصل موجود ہے، جسے ابن القیم نے بدائع النوائد میں بعض فقہاء کہہ کر ذکر کیا ہے اور جن حدیثوں میں منی دھونے کا تذکرہ ہے وہ بطور نظافت کے ہے، وجوب کے نہیں (دیکھئیے اگلی حدیث کے تحت امام ترمذی کی توجیہ)۔
(موقوف) حدثنا حدثنا احمد بن منيع، قال: حدثنا ابو معاوية، عن عمرو بن ميمون بن مهران، عن سليمان بن يسار، عن عائشة " انها غسلت منيا من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وفي الباب عن ابن عباس , وحديث عائشة انها غسلت منيا من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليس بمخالف لحديث الفرك، لانه وإن كان الفرك يجزئ فقد يستحب للرجل ان لا يرى على ثوبه اثره، قال ابن عباس: المني بمنزلة المخاط فامطه عنك ولو بإذخرة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْفَرْكِ، لِأَنَّهُ وَإِنْ كَانَ الْفَرْكُ يُجْزِئُ فَقَدْ يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ لَا يُرَى عَلَى ثَوْبِهِ أَثَرُهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْمَنِيُّ بِمَنْزِلَةِ الْمُخَاطِ فَأَمِطْهُ عَنْكَ وَلَوْ بِإِذْخِرَةٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اور عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ”کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی“ ان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ۱؎۔ اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے، لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیا جاتا ہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔ (کیونکہ مرد کو آدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھنا ہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں: منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے، لہٰذا تم اسے اپنے سے صاف کر لو چاہے اذخر (گھاس) ہی سے ہو۔
وضاحت: ۱؎: اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے، جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ دھونا بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطور نظافت تھا، کیونکہ اگر دھونا واجب ہوتا تو خشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا، حالانکہ عائشہ رضی الله عنہا نے صرف کھرچنے پر اکتفاء کیا۔
وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضو اور غسل کے بغیر سو سکتا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ عمل بیان جواز کے لیے ہے تاکہ امت پریشانی میں نہ پڑے، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرما لیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (581)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 581 أبو إسحاق مدلس (تقدم: 107) وصرح بالسماع عند البيهقي (1/201،202) ولكن المسند إليه ضعيف .
(مرفوع) حدثنا هناد حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي إسحاق نحوه. قال ابو عيسى: وهذا قول سعيد بن المسيب وغيره، وقد روى غير واحد عن الاسود، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه كان يتوضا قبل ان ينام " , وهذا اصح من حديث ابي إسحاق، عن الاسود، وقد روى عن ابي إسحاق هذا الحديث شعبة , والثوري وغير واحد، ويرون ان هذا غلط من ابي إسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفِيانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَغَيْرِهِ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ كَانَ يَتَوَضَّأُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ " , وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ، وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ , وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَيَرَوْنَ أَنَّ هَذَا غَلَطٌ مِنْ أَبِي إِسْحَاق.
اس سند سے بھی ابواسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ۳- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث (رقم ۱۱۸) سے جسے انہوں نے اسود سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، اور ابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ، ثوری اور دیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیال میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 16023) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان کا سب کا ماحصل یہ ہے کہ اسود کے تلامذہ میں سے صرف ابواسحاق سبیعی نے اس حدیث کو «كان النبي صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب لايمس ماء» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، اس کے برخلاف ان کے دوسرے تلامذہ نے اسے «إنه كان يتوضأ قبل أن ينام» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، لیکن کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کا اضافہ جو مخالف نہ ہو حدیث کے صحیح ہونے سے مانع نہیں ہے، اور ابواسحاق سبیعی ثقہ راوی ہیں، نیز یہ کہ احمد کی ایک روایت (۶/۱۰۲) میں اسود سے سننے کی صراحت موجود ہے، نیز سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سبیعی سے یہ روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی سے ان کی روایت سب سے معتبر مانی جاتی (دیکھئیے صحیح ابوداودرقم: ۲۳۴، اور سنن ابن ماجہ رقم: ۵۸۳)۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 581 أبو إسحاق مدلس (تقدم: 107) وصرح بالسماع عند البيهقي (1/201،202) ولكن المسند إليه ضعيف .
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم: اينام احدنا وهو جنب؟ قال: " نعم إذا توضا ". قال: وفي الباب، عن عمار , وعائشة , وجابر , وابي سعيد , وام سلمة. قال ابو عيسى: حديث عمر احسن شيء في هذا الباب واصح، وهو قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا اراد الجنب ان ينام توضا قبل ان ينام.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: " نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَمَّارٍ , وَعَائِشَةَ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَنَامَ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب وہ وضو کر لے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمار، عائشہ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عمر رضی الله عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ۳- یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وہ سونے سے پہلے وضو کر لے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں، یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔ اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔
۲؎: یعنی مستحب ہے کہ وضو کر لے، یہی جمہور کا مذہب ہے۔