(مرفوع) اخبرني محمد بن علي بن ميمون، قال: حدثني القعنبي، قال: حدثني محمد بن هلال، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: كنا نقعد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، فإذا قام قمنا، فقام يوما وقمنا معه حتى لما بلغ وسط المسجد، ادركه رجل , فجبذ بردائه من ورائه وكان رداؤه خشنا , فحمر رقبته، فقال: يا محمد احمل لي على بعيري هذين , فإنك لا تحمل من مالك , ولا من مال ابيك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا، واستغفر الله , لا احمل لك حتى تقيدني مما جبذت برقبتي"، فقال الاعرابي: لا , والله لا اقيدك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك ثلاث مرات كل ذلك، يقول: لا والله لا اقيدك، فلما سمعنا قول الاعرابي اقبلنا إليه سراعا , فالتفت إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" عزمت على من سمع كلامي ان لا يبرح مقامه حتى آذن له"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل من القوم:" يا فلان , احمل له على بعير شعيرا , وعلى بعير تمرا"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انصرفوا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هِلَالٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا نَقْعُدُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا، فَقَامَ يَوْمًا وَقُمْنَا مَعَهُ حَتَّى لَمَّا بَلَغَ وَسَطَ الْمَسْجِدِ، أَدْرَكَهُ رَجُلٌ , فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ مِنْ وَرَائِهِ وَكَانَ رِدَاؤُهُ خَشِنًا , فَحَمَّرَ رَقَبَتَهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ احْمِلْ لِي عَلَى بَعِيرَيَّ هَذَيْنِ , فَإِنَّكَ لَا تَحْمِلُ مِنْ مَالِكَ , وَلَا مِنْ مَالِ أَبِيكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ , لَا أَحْمِلُ لَكَ حَتَّى تُقِيدَنِي مِمَّا جَبَذْتَ بِرَقَبَتِي"، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: لَا , وَاللَّهِ لَا أُقِيدُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ، يَقُولُ: لَا وَاللَّهِ لَا أُقِيدُكَ، فَلَمَّا سَمِعْنَا قَوْلَ الْأَعْرَابِيِّ أَقْبَلْنَا إِلَيْهِ سِرَاعًا , فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عَزَمْتُ عَلَى مَنْ سَمِعَ كَلَامِي أَنْ لَا يَبْرَحَ مَقَامَهُ حَتَّى آذَنَ لَهُ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ:" يَا فُلَانُ , احْمِلْ لَهُ عَلَى بَعِيرٍ شَعِيرًا , وَعَلَى بَعِيرٍ تَمْرًا"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْصَرِفُوا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھا کرتے تھے، جب آپ کھڑے ہوتے، ہم کھڑے ہو جاتے، ایک دن آپ کھڑے ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ جب آپ مسجد کے بیچوں بیچ پہنچے تو ایک شخص نے آپ کو پکڑا اور پیچھے سے آپ کی چادر پکڑ کر کھینچے لگا، وہ چادر بہت کھردری تھی، آپ کی گردن سرخ ہو گئی، وہ بولا: ”اے محمد! میرے لیے میرے ان دو اونٹوں کو لاد دیجئیے، آپ کوئی اپنے مال سے تو کسی کو دیتے نہیں اور نہ اپنے باپ کے مال سے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، میں تجھے نہیں دوں گا جب تک تو میری اس گردن کھینچنے کا بدلہ نہیں دے گا“، اعرابی نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، میں بدلہ نہیں دوں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، ہر مرتبہ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں بدلہ نہیں دوں گا، جب ہم نے اعرابی کی بات سنی تو ہم دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”میں قسم دیتا ہوں، تم میں سے جو میری بات سنے اپنی جگہ سے نہ ہٹے، یہاں تک کہ میں اسے اجازت دے دوں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کے ایک آدمی سے کہا: ”اے فلاں! اس کے ایک اونٹ پر جَو لاد دو اور ایک اونٹ پر کھجور“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جا سکتے ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 1(4775)، (تحفة الأشراف: 14801)، مسند احمد (2/288) (ضعیف) (اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال لین الحدیث ہیں، لیکن اعرابی کے آپ کو پکڑ کر کھینچنے کا قصہ صحیح بخاری (لباس 18) میں انس رضی الله عنہ سے مروی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن قصة الأعرابي وجبذه وأمره صلى الله عليه وسلم له بعطاء في ق
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4775) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث ابا جهم بن حذيفة مصدقا فلاحه رجل في صدقته فضربه ابو جهم، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: القود يا رسول الله، فقال:" لكم كذا وكذا"، فلم يرضوا به، فقال:" لكم كذا وكذا"، فرضوا به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن هؤلاء اتوني يريدون القود، فعرضت عليهم كذا وكذا، فرضوا"، قالوا: لا , فهم المهاجرون بهم , فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفوا، فكفوا، ثم دعاهم، قال:" ارضيتم؟"، قالوا: نعم، قال:" فإني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب الناس، ثم قال:" ارضيتم؟"، قالوا: نعم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاحَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الْقَوَدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَلَمْ يَرْضَوْا بِهِ، فَقَالَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَرَضُوا بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا"، قَالُوا: لَا , فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ , فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا، فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ، قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابوجہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”اتنا اتنا مال لے لو“، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ”(اچھا) اتنا اتنا مال لے لو“، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی اطلاع دوں گا“، ان لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: ”یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے تھے تو میں نے ان پر اتنے اتنے مال کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر راضی ہیں“، لیکن وہ لوگ بولے: نہیں، تو مہاجرین نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ لوگ باز رہے، پھر آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: ”کیا تم رضامند ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور تمہاری رضا مندی کی انہیں اطلاع دوں گا“، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ آپ نے لوگوں سے خطاب کیا پھر (ان سے) فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 13 (4534)، سنن ابن ماجہ/الدیات 10 (2638)، (تحفة الأشراف: 16636)، مسند احمد (6/232) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے «العامل یصاب علی یدہ خطأ» یعنی ”عامل کے ذریعہ کسی کو غلطی سے زخم لگ جائے“ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری عامل ہونے کی وجہ سے قصاص معاف نہیں ہو گا، ہاں دیت پر راضی ہو جانے کی صورت میں سرکاری بیت المال سے دیت دلوائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (4534) ابن ماجه (2638) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد , عن شعبة، عن هشام بن زيد، عن انس: ان يهوديا راى على جارية اوضاحا , فقتلها بحجر، فاتي بها النبي صلى الله عليه وسلم وبها رمق، فقال:" اقتلك فلان؟" , فاشار شعبة براسه يحكيها: ان لا، فقال:" اقتلك فلان؟" , فاشار شعبة براسه يحكيها: ان لا، قال:" اقتلك فلان؟" , فاشار شعبة براسه يحكيها: ان نعم، فدعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقتله بين حجرين. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ يَهُودِيًّا رَأَى عَلَى جَارِيَةٍ أَوْضَاحًا , فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ، فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ:" أَقَتَلَكِ فُلَانٌ؟" , فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ لَا، فَقَالَ:" أَقَتَلَكِ فُلَانٌ؟" , فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ لَا، قَالَ:" أَقْتَلَكِ فُلَانٌ؟" , فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا: أَنْ نَعَمْ، فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَتَلَهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“(شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“(شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟“(پھر شعبہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ) اس نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور دو پتھروں کے درمیان کچل کر اسے مار ڈالا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے تلوار کی بجائے پتھروں سے اس کا سر کچل کر قصاص لیا، اس سے ثابت ہوا کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ضروری نہیں ہے (جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے) بلکہ یہ تو ارشاد ربانی کے مطابق ہے «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به»(سورة النحل: 126) «فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم»(سورة البقرة: 194) حنفیہ حدیث «لا قود إلا بالسیف» یعنی: ”قصاص صرف تلوار ہی سے ہے“ سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث ہر طریقے سے ضعیف ہے، بلکہ بقول امام ابوحاتم ”منکر“ ہے (کذا فی نیل الا ٔوطار والإرواء رقم ۲۲۲۹)۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو خالد، عن إسماعيل، عن قيس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية إلى قوم من خثعم فاستعصموا بالسجود , فقتلوا، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بنصف العقل، وقال:" إني بريء من كل مسلم مع مشرك"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا لا تراءى ناراهما". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ , فَقُتِلُوا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ:" إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِكٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا".
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف (فوج کی) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انہوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے“۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! (مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 105 (2645)، سنن الترمذی/السیر 43 (1604، 1605)، (تحفة الأشراف: 3227، 19233) (صحیح مرسلاً وموصولاً) (یہ حدیث ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، لیکن قیس کے شاگردوں کی ایک جماعت نے قیس کے بعد جریر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ مرسلا ہی روایت کی ہے، امام بخاری نے بھی مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے، مگر موصول کی بھی صحیح متابعات موجود ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: الإروائ: 1207)»
وضاحت: ۱؎: آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎: اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات و اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہدوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، «لايكلف الله نفسا إلا وسعها»(سورة البقرة: ۲۸۶)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (1605) السند مرسل،وروي متصلاً بالسند الضعيف،،إسماعيل بن أبى خالد مدلس وعنعن. وللحديث شواهد ضعيف،ة. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
27. باب: آیت کریمہ: ”جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے“ (البقرہ: ۱۷۸) کی تفسیر۔
Chapter: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "But If The Killer Is Forgiven By The Brother (Or The Relatives) Of The Killed Against Blood Money, Then Adhering To It With Fairness And Payment Of The Blood Money To The Heir Should Be Made In Fairness"
(موقوف) قال قال الحارث بن مسكين: قراءة عليه، وانا اسمع، عن سفيان، عن عمرو، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال:" كان في بني إسرائيل القصاص، ولم تكن فيهم الدية، فانزل الله عز وجل: كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والانثى بالانثى إلى قوله فمن عفي له من اخيه شيء فاتباع بالمعروف واداء إليه بإحسان سورة البقرة آية 178 , فالعفو: ان يقبل الدية في العمد، واتباع بمعروف: يقول: يتبع هذا بالمعروف، واداء إليه بإحسان: ويؤدي هذا بإحسان , ذلك تخفيف من ربكم ورحمة سورة البقرة آية 178 مما كتب على من كان قبلكم إنما هو القصاص ليس الدية". (موقوف) قَالَ قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ: قِرَاءَةً عَلَيْهِ، وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى إِلَى قَوْلِهِ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 178 , فَالْعَفْوُ: أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ، وَاتِّبَاعٌ بِمَعْرُوفٍ: يَقُولُ: يَتَّبِعُ هَذَا بِالْمَعْرُوفِ، وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ: وَيُؤَدِّي هَذَا بِإِحْسَانٍ , ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ سورة البقرة آية 178 مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ إِنَّمَا هُوَ الْقِصَاصُ لَيْسَ الدِّيَةَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا، ان میں دیت دینے کا حکم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے «كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والأنثى بالأنثى»”تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت“ سے «فمن عفي له من أخيه شىء فاتباع بالمعروف وأداء إليه بإحسان»”جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے۔ (تمہارے رب کی طرف سے) یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے گا، اسے درد ناک عذاب ہو گا“(البقرہ: ۱۷۸) تک نازل فرمایا، تو عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کر لے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے، اور «وأداء إليه بإحسان» یہ ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ادا کرے، «ذلك تخفيف من ربكم ورحمة»”یہ تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے“ اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر صرف قصاص فرض تھا، دیت کا حکم نہیں تھا“۔
(مقطوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا علي بن حفص، قال: حدثنا ورقاء، عن عمرو، عن مجاهد، قال: كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر سورة البقرة آية 178 قال:" كان بنو إسرائيل عليهم القصاص , وليس عليهم الدية، فانزل الله عز وجل عليهم الدية فجعلها على هذه الامة تخفيفا على ما كان على بني إسرائيل". (مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ سورة البقرة آية 178 قَالَ:" كَانَ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَيْهِمُ الْقِصَاصُ , وَلَيْسَ عَلَيْهِمُ الدِّيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمُ الدِّيَةَ فَجَعَلَهَا عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ تَخْفِيفًا عَلَى مَا كَانَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ".
مجاہد اس آیت کریمہ «كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر»”تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد“ کے سلسلہ میں کہتے ہیں: بنی اسرائیل پر صرف قصاص فرض تھا، ان پر دیت نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم نازل فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بالمقابل اس امت محمدیہ پر تخفیف کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کوئی ایسا معاملہ آیا جس میں قصاص ہو تو آپ نے اسے معاف کر دینے کا حکم دیا ۱؎۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہو تو اسے اختیار ہے، چاہے تو قصاص لے، چاہے تو دیت لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: قتل عمد میں مقتول کے وارثین کے لیے قصاص یا دیت دونوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے (اس میں قاتل کی مرضی کا کوئی دخل نہیں) اگر قصاص معاف کر دیتے ہیں تو دیت واجب ہو گی۔