سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
26. بَابُ : الْقَوَدِ بِغَيْرِ حَدِيدَةٍ
باب: تلوار کے بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4784
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ , فَقُتِلُوا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ:" إِنِّي بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِكٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا".
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف (فوج کی) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انہوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: ”میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے“ ۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! (مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے ۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 105 (2645)، سنن الترمذی/السیر 43 (1604، 1605)، (تحفة الأشراف: 3227، 19233) (صحیح مرسلاً وموصولاً) (یہ حدیث ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، لیکن قیس کے شاگردوں کی ایک جماعت نے قیس کے بعد جریر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ مرسلا ہی روایت کی ہے، امام بخاری نے بھی مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے، مگر موصول کی بھی صحیح متابعات موجود ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: الإروائ: 1207)»
وضاحت: ۱؎: آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا درحقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔ ۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل و صورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔ ۳؎: اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات و اختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہدوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، «لايكلف الله نفسا إلا وسعها» (سورة البقرة: ۲۸۶)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (1605) السند مرسل،وروي متصلاً بالسند الضعيف،،إسماعيل بن أبى خالد مدلس وعنعن. وللحديث شواهد ضعيف،ة. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 356
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4784 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4784
اردو حاشہ:
(1) ”وہ سجدے میں گر پڑے“ یعنی ان میں سے کچھ لوگ جو مسلمان تھے لیکن کسی کو ان کے اسلام کا علم نہیں تھا، انھوں نے سجدے کو اپنے اسلام کے اظہار کا ذریعہ بنایا مگر جنگ کی بھیڑ بھاڑ میں اس کا پتا نہ چلا اور وہ بھی مارے گئے۔ اس میں مقتولین کا بھی قصور تھا کہ وہ مشرکین میں رہ رہے تھے، اس لیے آپ نے ان کی دیت نصف ادا فرمائی۔ اور پھر تنبیہ فرما دی کہ مسلمانوں اور مشرکین کو اکٹھا نہیں رہنا چاہیے، خصوصاً اس حالت میں کہ جب ان میں امتیاز بھی نہ ہو بلکہ مسلمانوں کو مشرکین سے اتنا دور رہنا چاہیے کہ ایک دوسرے کی آگ بھی نظر نہ آئے۔ گویا الگ بستی میں رہنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آبادی الگ ہونی چاہیے اور کفار کی الگ تاکہ حملے کی صورت میں امتیاز ہو سکے۔
(2) اس روایت کا باب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ کتاب سے تعلق ہے کہ اگر لا علمی یا خطا میں کوئی مسلمان مارا جائے تو اس کی دیت ادا کرنی ہوگی۔ واللہ أعلم!
(3) جب کوئی شخص اپنے اسلام کا اظہار کر دے تو پھر اسے قتل کرنا حرام ہے، خواہ وہ کافروں ہی میں رہتا ہو۔
(4) بلا ضرورت دارالحرب میں رہنا درست نہیں۔ بالخصوص وہاں مستقل رہائش اختیار کرنا بالکل جائز نہیں۔
(5) محقق کتاب نے اگرچہ اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کا موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: 5/ 29-33، و ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائی: 36/ 114-118)
(6) مزید فوائد ومسائل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔ (سنن ابوداود مترجم طبع دارالسلام، حدیث: 2645)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4784