سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
29. بَابُ : هَلْ يُؤْخَذُ مِنْ قَاتِلِ الْعَمْدِ الدِّيَةَ إِذَا عَفَا وَلِيُّ الْمَقْتُولِ عَنِ الْقَوَدِ
باب: جب مقتول کا وارث قصاص معاف کر دے تو کیا قاتل عمد سے دیت لی جائے گی؟
حدیث نمبر: 4789
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَشْعَثَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُقَادَ، وَإِمَّا أَنْ يُفْدَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی آدمی قتل ہو گیا ہو تو اسے اختیار ہے، چاہے تو قصاص لے، چاہے تو دیت لے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (112)، اللقطة 7 (2434)، الدیات 8 (6880)، صحیح مسلم/الحج 82 (1355)، سنن ابی داود/الدیات 4 (4505)، سنن الترمذی/الدیات 13 (1405)، سنن ابن ماجہ/الدیات 3 (2624)، (تحفة الأشراف: 15383، 19588)، مسند احمد (2/238)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4790، 4791) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: قتل عمد میں مقتول کے وارثین کے لیے قصاص یا دیت دونوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق ہے (اس میں قاتل کی مرضی کا کوئی دخل نہیں) اگر قصاص معاف کر دیتے ہیں تو دیت واجب ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4789 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4789
اردو حاشہ:
عموماً مقتول کے ورثاء قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں یا پھر دیت پر راضی ہو جاتے ہیں، اس لیے دو چیزوں کا ذکر فرمایا، تاہم اگر مقتول کے ورثاء درگزر کرتے ہوئے بالکل معاف کر دیں تو بھی قرآن کے عموم کے پیش نظر جائز ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قصاص، دیت یا معافی کا اختیار مقتول کے ورثاء کو ہے نہ کہ قاتل کو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4789
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4505
´مقتول کا وارث دیت لینے پر راضی ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے، یا قصاص میں قتل کرے“ یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے یہ لکھ دیجئیے (عباس بن ولید کی روایت «اکتب لی» کے بجائے «اکتبوا لی» یہ صیغۂ جمع ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «اکتبوا لی» سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4505]
فوائد ومسائل:
1: قتل عمد میں قاتل سے قصاص ہوتا ہے یا پھر اگر مقتول کے وارث رضا مند ہوں تو دیت بھی لے سکتے ہیں۔
2: رسول ؐ کے دور میں احادیث رسول لکھی بھی گئی ہیں تاہم ان کا دائرہ بہت محدود تھا اورصحابہ کرام رضی اللہ بجا طور پر یہ سمجھتے اور عقیدہ رکھتے تھے کہ فرامین رسول ؐ ہی ہمارے لئے معیار عمل ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4505
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2624
´مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے کسی ایک بات کا اختیار ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، یا تو وہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دے، یا فدیہ لے لے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2624]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قصاص اور فدیہ کو ایک جیسے چیزیں قرار دیا گیا ہے کیونکہ تیسری چیز، یعنی معاف کرنا بہت بلند اور عظیم کام ہے۔
(2)
فدیہ قصاص سے افضل ہےکیونکہ یہ بھی ایک قسم کی معافی ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پورا فدیہ لینے کی بجائے کچھ فدیہ وصول کرکے باقی معاف کردیا جائے۔
(3)
قصاص یا دیت لینے کا فیصلہ کرنا مقتول کے وارثوں کا حق ہے، عدالت نہیں۔
(4)
قصاص صرف قتل عمد ميں ہوتا ہے، قتل خطا یا شبہ عمد میں قصاص نہیں، صرف دیت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2624