سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
حدیث نمبر: 4643
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء , قال: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن سالم بن ابي الجعد , عن جابر بن عبد الله , قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , وكنت على جمل , فقال:" ما لك في آخر الناس؟" , قلت: اعيا بعيري فاخذ بذنبه ثم زجره , فإن كنت إنما انا في اول الناس يهمني راسه فلما دنونا من المدينة , قال:" ما فعل الجمل بعنيه؟" , قلت: لا , بل هو لك يا رسول الله , قال:" لا , بل بعنيه" , قلت: لا , بل هو لك , قال:" لا , بل بعنيه , قد اخذته بوقية اركبه , فإذا قدمت المدينة فاتنا به" , فلما قدمت المدينة جئته به , فقال لبلال:" يا بلال , زن له اوقية , وزده قيراطا" , قلت: هذا شيء زادني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يفارقني , فجعلته في كيس فلم يزل عندي حتى جاء اهل الشام يوم الحرة , فاخذوا منا ما اخذوا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , وَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ , فَقَالَ:" مَا لَكَ فِي آخِرِ النَّاسِ؟" , قُلْتُ: أَعْيَا بَعِيرِي فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ ثُمَّ زَجَرَهُ , فَإِنْ كُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ , قَالَ:" مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ؟" , قُلْتُ: لَا , بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" لَا , بَلْ بِعْنِيهِ" , قُلْتُ: لَا , بَلْ هُوَ لَكَ , قَالَ:" لَا , بَلْ بِعْنِيهِ , قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْكَبْهُ , فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ فَأْتِنَا بِهِ" , فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ , فَقَالَ لِبِلَالٍ:" يَا بِلَالُ , زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً , وَزِدْهُ قِيرَاطًا" , قُلْتُ: هَذَا شَيْءٌ زَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُفَارِقْنِي , فَجَعَلْتُهُ فِي كِيسٍ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّى جَاءَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ , فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لیے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹ کا کیا ہوا؟ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: نہیں، اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے کہا: نہیں، بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے اسے ایک اوقیہ میں لے لیا، تم اس پر سوار ہو اور جب مدینہ پہنچ جاؤ تو اسے ہمارے پاس لے آنا، جب میں مدینے پہنچا تو اسے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بلال! انہیں ایک اوقیہ (چاندی) دے دو اور ایک قیراط مزید دے دو، میں نے عرض کیا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زیادہ دیا ہے، (یہ سوچ کر کہ) وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو، تو میں نے اسے ایک تھیلی میں رکھا، پھر وہ قیراط میرے پاس برابر رہا یہاں تک کہ حرہ کے دن ۱؎ اہل شام آئے اور ہم سے لوٹ لے گئے جو لے گئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 4 (2718 تعلیقًا)، صحیح مسلم/البیوع 42 (715)، (تحفة الأشراف: 2243)، مسند احمد (3/314) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ واقعہ ۶۳؁ھ میں پیش آیا تھا، اس میں یزید کے لشکر نے مدینے پر چڑھائی کی تھی۔ حرہ کالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں جو مدینے کے مشرقی اور مغربی علاقہ کی زمین ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 4644
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور , قال: حدثنا سفيان , عن ابي الزبير , عن جابر , قال: ادركني رسول الله صلى الله عليه وسلم , وكنت على ناضح لنا سوء , فقلت: لا يزال لنا ناضح سوء يا لهفاه , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تبيعنيه , يا جابر؟" , قلت: بل هو لك يا رسول الله , قال:" اللهم اغفر له , اللهم ارحمه , قد اخذته بكذا وكذا , وقد اعرتك ظهره إلى المدينة" , فلما قدمت المدينة هياته , فذهبت به إليه , فقال:" يا بلال اعطه ثمنه" , فلما ادبرت دعاني فخفت ان يرده , فقال:" هو لك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: أَدْرَكَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكُنْتُ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا سَوْءٍ , فَقُلْتُ: لَا يَزَالُ لَنَا نَاضِحُ سَوْءٍ يَا لَهْفَاهُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَبِيعُنِيهِ , يَا جَابِرُ؟" , قُلْتُ: بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ , اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ , قَدْ أَخَذْتُهُ بِكَذَا وَكَذَا , وَقَدْ أَعَرْتُكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ" , فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ هَيَّأْتُهُ , فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ , فَقَالَ:" يَا بِلَالُ أَعْطِهِ ثَمَنَهُ" , فَلَمَّا أَدْبَرْتُ دَعَانِي فَخِفْتُ أَنْ يَرُدَّهُ , فَقَالَ:" هُوَ لَكَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پایا کہ میں اپنے سینچنے والے اونٹ پر سوار تھا، میں نے عرض کیا: افسوس! ہمارے پاس ہمیشہ پانی سینچنے والا اونٹ ہی رہتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! کیا تم اسے میرے ہاتھ بیچو گے؟ میں نے عرض کیا: یہ تو آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کی مغفرت کر، اس پر رحم فرما، میں نے تو اسے اتنے اتنے دام پر لے لیا ہے، اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی تمہیں اجازت دی ہے، جب میں مدینے آیا تو اسے تیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! انہیں اس کی قیمت دے دو، جب میں لوٹنے لگا تو آپ نے مجھے بلایا، مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ اسے لوٹائیں گے، آپ نے فرمایا: یہ تمہارا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفردہ بہ النسائي (تحفة الأشراف: 2769) (ضعیف) (سند ضعیف ہے، اور متن منکر ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کے متن میں پچھلے متن سے تعارض بھی ہے جو واضح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد منكر المتن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 4645
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى , قال: حدثنا المعتمر , قال: سمعت ابي , قال: حدثنا ابو نضرة , عن جابر بن عبد الله , قال: كنا نسير مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا على ناضح , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتبيعنيه بكذا وكذا , والله يغفر لك؟" , قلت: نعم , هو لك يا نبي الله , قال:" اتبيعنيه بكذا وكذا , والله يغفر لك؟" , قلت: نعم , هو لك يا نبي الله , قال:" اتبيعنيه بكذا وكذا , والله يغفر لك؟" , قلت: نعم , هو لك , قال ابو نضرة: وكانت كلمة يقولها المسلمون: افعل كذا وكذا , والله يغفر لك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنَّا نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا , وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟" , قُلْتُ: نَعَمْ , هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ:" أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا , وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟" , قُلْتُ: نَعَمْ , هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ:" أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا , وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ؟" , قُلْتُ: نَعَمْ , هُوَ لَكَ , قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: وَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ: افْعَلْ كَذَا وَكَذَا , وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، میں سینچائی کرنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہی ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے، میں نے عرض کیا: ہاں، وہ آپ ہی کا ہے۔ ابونضرہ کہتے ہیں: یہ مسلمانوں کا تکیہ کلام تھا کہ جب کسی سے کہتے: ایسا ایسا کرو تو کہتے: «واللہ یغفر لک» ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 4 (2718 تعلیقًا)، صحیح مسلم/الرضاع 16 (715)، سنن ابن ماجہ/التجارات 29 (2205)، (تحفة الأشراف: 3101)، مسند احمد (3/373) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
78. بَابُ: الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ الْفَاسِدُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ
78. باب: بیع میں اگر شرط فاسد ہو تو بیع صحیح ہو جائے گی اور شرط باطل ہو گی۔
Chapter: If there Is an invalid condition in a transaction, the transaction Is valid but that condition is invalid
حدیث نمبر: 4646
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا جرير , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: اشتريت بريرة فاشترط اهلها ولاءها , فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" اعتقيها , فإن الولاء لمن اعطى الورق" , قالت: فاعتقتها , قالت: فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخيرها من زوجها , فاختارت نفسها , وكان زوجها حرا.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَعْتِقِيهَا , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ" , قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا , قَالَتْ: فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا , فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا , وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3479 (صحیح) (لیکن ”وکان زوجھا حراً“ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔ ۲؎: صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئیے حدیث رقم ۲۶۱۵ و ۳۴۷۹) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ (بریرہ کی بیع کو) صحیح قرار دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ والمحفوظ أنه كان عبدا

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 4647
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار , قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة , قال: سمعت عبد الرحمن بن القاسم، قال: سمعت القاسم يحدث , عن عائشة انها ارادت ان تشتري بريرة للعتق وانهم اشترطوا ولاءها , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشتريها فاعتقيها , فإن الولاء لمن اعتق" , واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم , فقيل: هذا تصدق به على بريرة , فقال:" هو لها صدقة , ولنا هدية" , وخيرت.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ وَأَنَّهُمُ اشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ" , وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ , فَقِيلَ: هَذَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ , فَقَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ , وَلَنَا هَدِيَّةٌ" , وَخُيِّرَتْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے غلامی سے آزاد کرنے کے لیے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا، لوگوں نے ان کے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں خرید کر آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو کہا گیا: یہ تو بریرہ پر کیا گیا صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے تحفہ (ہدیہ) ہے، اور انہیں (بریرہ کو) اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے اور نہ رہنے کا)۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3484 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 4648
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , عن مالك , عن نافع , عن عبد الله بن عمر , ان عائشة ارادت ان تشتري جارية تعتقها , فقال اهلها: نبيعكها على ان الولاء لنا , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" لا يمنعك ذلك , فإن الولاء لمن اعتق".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً تَعْتِقُهَا , فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ الْوَلَاءَ لَنَا , فَذَكَرَتْ ذَلِكِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے لونڈی خریدنا چاہی تاکہ اسے آزاد کریں، تو اس کے گھر والوں (مالکان) نے کہا: ہم اسے آپ سے اس شرط پر بیچیں گے کہ ولاء (حق وراثت) ہمارا ہو گا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: تم اس وجہ سے مت رک جانا، کیونکہ ولاء (وراثت) تو اس کے لیے ہے جو آزاد کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 73 (2169)، المکاتب2(2562)، الفرائض 19 (6751)، 22(6757)، صحیح مسلم/العتق 2 (1504)، سنن ابی داود/الفرائض 12 (2915)، (تحفة الأشراف: 8334)، موطا امام مالک/العتق 10 (18)، مسند احمد (2/28، 113، 153، 156)، وانظر أیضا حدیث رقم: 2615 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
79. بَابُ: بَيْعِ الْمَغَانِمِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ
79. باب: تقسیم سے پہلے مال غنیمت بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Something From The Spoils Of War Prior to Its distribution
حدیث نمبر: 4649
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن حفص بن عبد الله , قال: حدثني ابي , قال: حدثني إبراهيم , عن يحيى بن سعيد , عن عمرو بن شعيب , عن عبد الله بن ابي نجيح , عن مجاهد , عن ابن عباس , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع المغانم حتى تقسم , وعن الحبالى ان يوطان حتى يضعن ما في بطونهن , وعن لحم كل ذي ناب من السباع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ , وَعَنِ الْحَبَالَى أَنْ يُوطَأْنَ حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ , وَعَنْ لَحْمِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت بیچنے، حاملہ عورتوں ۱؎ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے پہلے جماع کرنے اور ہر دانت والے درندے کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6408) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مال غنیمت میں ملی ہوئی لونڈیاں مراد ہیں، اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو پانے والے مجاہد ان کے بچہ جننے کے بعد ہی ان سے مباشرت کر سکتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
80. بَابُ: بَيْعِ الْمَشَاعِ
80. باب: مشترکہ مال بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Something In Which Someone Else Has A Share
حدیث نمبر: 4650
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن زرارة , قال: انبانا إسماعيل , عن ابن جريج , قال: اخبرني ابو الزبير , عن جابر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشفعة في كل شرك ربعة , او حائط لا يصلح له ان يبيع حتى يؤذن شريكه , فإن باع فهو احق به حتى يؤذنه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ , أَوْ حَائِطٍ لَا يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ , فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہٰ (باغ وغیرہ)، کسی حصہ دار کے لیے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہو گا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دیدے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 28 (البیوع49) (1608)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3513)، (تحفة الأشراف: 2806)، مسند احمد (3/312، 316، 357، 397)، سنن الدارمی/البیوع 83 (2670)، ویأتي عندالمؤلف برقم: 4705 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «شفعہ»: زمین، باغ گھر وغیرہ میں ایسی ساجھے داری کو کہتے ہیں جس میں کسی فریق کا حصہ متعین نہ ہو کہ ہمارا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے اور دوسرے کا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے بس مطلق ملکیت میں سب کی ساجھے داری ہو، ایسا ساجھے دار اگر اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو پہلے بتائے، اگر وہ اسی قیمت پر لینے پر راضی ہو جائے تو اسی کا حق ہے، اگر جازت دیدے تب دوسرے سے بیچنا جائز ہو گا، اور اگر اس کی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو وہ اس بیع کو قاضی منسوخ کرا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
81. بَابُ: التَّسْهِيلِ فِي تَرْكِ الإِشْهَادِ عَلَى الْبَيْعِ
81. باب: بیع میں گواہ نہ کرنے کی سہولت کا بیان۔
Chapter: It Is Not Essential To Call Witnesses When Buying Or Selling
حدیث نمبر: 4651
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا الهيثم بن مروان بن الهيثم بن عمران , قال: حدثنا محمد بن بكار , قال: حدثنا يحيى وهو ابن حمزة , عن الزبيدي , ان الزهري اخبره , عن عمارة بن خزيمة، ان عمه حدثه وهو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاع فرسا من اعرابي واستتبعه ليقبض ثمن فرسه , فاسرع النبي صلى الله عليه وسلم , وابطا الاعرابي وطفق الرجال يتعرضون للاعرابي , فيسومونه بالفرس وهم لا يشعرون ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاعه , حتى زاد بعضهم في السوم على ما ابتاعه به منه , فنادى الاعرابي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن كنت مبتاعا هذا الفرس وإلا بعته، فقام النبي صلى الله عليه وسلم حين سمع نداءه، فقال:" اليس قد ابتعته منك؟" , قال: لا , والله ما بعتكه , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد ابتعته منك" , فطفق الناس يلوذون بالنبي صلى الله عليه وسلم وبالاعرابي وهما يتراجعان وطفق الاعرابي يقول: هلم شاهدا يشهد اني قد بعتكه , قال خزيمة بن ثابت: انا اشهد انك قد بعته , قال: فاقبل النبي صلى الله عليه وسلم على خزيمة , فقال:" لم تشهد؟" , قال: بتصديقك يا رسول الله , قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادة خزيمة شهادة رجلين.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ عِمْرَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ , عَنْ الزُّبَيْدِيِّ , أَنَّ الزُّهْرِيَّ أَخْبَرَهُ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ وَاسْتَتْبَعَهُ لِيَقْبِضَ ثَمَنَ فَرَسِهِ , فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ وَطَفِقَ الرِّجَالُ يَتَعَرَّضُونَ لِلْأَعْرَابِيِّ , فَيَسُومُونَهُ بِالْفَرَسِ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ , حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ فِي السَّوْمِ عَلَى مَا ابْتَاعَهُ بِهِ مِنْهُ , فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ وَإِلَّا بِعْتُهُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَهُ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟" , قَالَ: لَا , وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ" , فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالْأَعْرَابِيِّ وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ وَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَاهِدًا يَشْهَدُ أَنِّي قَدْ بِعْتُكَهُ , قَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بِعْتَهُ , قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ , فَقَالَ:" لِمَ تَشْهَدُ؟" , قَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ.
صحابی رسول عمارہ بن خزیمہ کے چچا (خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک گھوڑا خریدا، اور اس سے پیچھے پیچھے آنے کو کہا تاکہ وہ اپنے گھوڑے کی قیمت لے لے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور اعرابی سست رفتاری سے چلا، لوگ اعرابی سے پوچھنے لگے اور گھوڑا خریدنے کے لیے (بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانے لگے) انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرید چکے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اس سے زیادہ قیمت لگا دی جتنے پر آپ نے اس سے خریدا تھا، اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا، اگر آپ اس گھوڑے کو خریدیں تو ٹھیک ورنہ میں اسے بیچ دوں، آپ نے جب اس کی پکار سنی تو ٹھہر گئے اور فرمایا: کیا میں نے اسے تم سے خریدا نہیں ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں نے اسے آپ سے بیچا نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسے تم سے خرید چکا ہوں ۱؎، اب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعرابی کے اردگرد اکٹھا ہونے لگے، دونوں تکرار کر رہے تھے، اعرابی کہنے لگا: گواہ لائیے جو گواہی دے کہ میں اسے آپ سے بیچ چکا ہوں، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے بیچ چکے ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم گواہی کیسے دے رہے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کے سچا ہونے پر یقین ہونے کی وجہ سے ۲؎، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 20 (3607)، (تحفة الأشراف: 15646)، مسند احمد (5/215) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اگر اس خرید و فروخت میں گواہوں کا انتظام کیا گیا ہوتا تو وہ دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گواہ طلب ہی نہیں کرتا، اس نے سوچا کہ گواہ نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا، پتہ چلا کہ خرید و فروخت میں گواہی کا ضروری نہیں، ورنہ آپ ضرور اس کا انتظام کرتے۔ ۲؎: چونکہ آپ سچے ہیں اس لیے آپ کا یہ دعویٰ ہی میرے لیے کافی ہے کہ آپ خرید چکے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
82. بَابُ: اخْتِلاَفِ الْمُتَبَايِعَيْنِ فِي الثَّمَنِ
82. باب: بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت کے بارے میں اختلاف ہو جانے کا بیان۔
Chapter: When The Two Parties To a Transaction disagree About The Price
حدیث نمبر: 4652
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إدريس , قال: حدثنا عمر بن حفص بن غياث , قال: حدثنا ابي , عن ابي عميس , قال: حدثني عبد الرحمن بن محمد بن الاشعث , عن ابيه , عن جده , قال عبد الله: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة , فهو ما يقول رب السلعة , او يتركا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَال عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ , فَهُوَ مَا يَقُولُ رَبُّ السِّلْعَةِ , أَوْ يَتْرُكَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بیچنے اور خریدنے والے میں اختلاف ہو جائے اور ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہو تو اس کی بات کا اعتبار ہو گا جو صاحب مال (بیچنے والا) ہے ۱؎ (اور خریدار کو اسی قیمت پر لینا ہو گا) یا پھر دونوں بیع ترک کر دیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 74 (3511)، (تحفة الأشراف: 9546) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مگر قسم کھانے کے بعد، جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ ۲؎: خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان قیمت کی تعیین میں اگر اختلاف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ بیع کا معاملہ ہی ختم کر دیا جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.