سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
کتاب سنن نسائي تفصیلات

سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
81. بَابُ : التَّسْهِيلِ فِي تَرْكِ الإِشْهَادِ عَلَى الْبَيْعِ
81. باب: بیع میں گواہ نہ کرنے کی سہولت کا بیان۔
Chapter: It Is Not Essential To Call Witnesses When Buying Or Selling
حدیث نمبر: 4651
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا الهيثم بن مروان بن الهيثم بن عمران , قال: حدثنا محمد بن بكار , قال: حدثنا يحيى وهو ابن حمزة , عن الزبيدي , ان الزهري اخبره , عن عمارة بن خزيمة، ان عمه حدثه وهو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاع فرسا من اعرابي واستتبعه ليقبض ثمن فرسه , فاسرع النبي صلى الله عليه وسلم , وابطا الاعرابي وطفق الرجال يتعرضون للاعرابي , فيسومونه بالفرس وهم لا يشعرون ان النبي صلى الله عليه وسلم ابتاعه , حتى زاد بعضهم في السوم على ما ابتاعه به منه , فنادى الاعرابي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن كنت مبتاعا هذا الفرس وإلا بعته، فقام النبي صلى الله عليه وسلم حين سمع نداءه، فقال:" اليس قد ابتعته منك؟" , قال: لا , والله ما بعتكه , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد ابتعته منك" , فطفق الناس يلوذون بالنبي صلى الله عليه وسلم وبالاعرابي وهما يتراجعان وطفق الاعرابي يقول: هلم شاهدا يشهد اني قد بعتكه , قال خزيمة بن ثابت: انا اشهد انك قد بعته , قال: فاقبل النبي صلى الله عليه وسلم على خزيمة , فقال:" لم تشهد؟" , قال: بتصديقك يا رسول الله , قال: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادة خزيمة شهادة رجلين.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ عِمْرَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ , عَنْ الزُّبَيْدِيِّ , أَنَّ الزُّهْرِيَّ أَخْبَرَهُ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ وَاسْتَتْبَعَهُ لِيَقْبِضَ ثَمَنَ فَرَسِهِ , فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ وَطَفِقَ الرِّجَالُ يَتَعَرَّضُونَ لِلْأَعْرَابِيِّ , فَيَسُومُونَهُ بِالْفَرَسِ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ , حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ فِي السَّوْمِ عَلَى مَا ابْتَاعَهُ بِهِ مِنْهُ , فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ وَإِلَّا بِعْتُهُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَهُ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟" , قَالَ: لَا , وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ" , فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالْأَعْرَابِيِّ وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ وَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَاهِدًا يَشْهَدُ أَنِّي قَدْ بِعْتُكَهُ , قَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بِعْتَهُ , قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ , فَقَالَ:" لِمَ تَشْهَدُ؟" , قَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ.
صحابی رسول عمارہ بن خزیمہ کے چچا (خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک گھوڑا خریدا، اور اس سے پیچھے پیچھے آنے کو کہا تاکہ وہ اپنے گھوڑے کی قیمت لے لے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور اعرابی سست رفتاری سے چلا، لوگ اعرابی سے پوچھنے لگے اور گھوڑا خریدنے کے لیے (بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانے لگے) انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے خرید چکے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اس سے زیادہ قیمت لگا دی جتنے پر آپ نے اس سے خریدا تھا، اعرابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا، اگر آپ اس گھوڑے کو خریدیں تو ٹھیک ورنہ میں اسے بیچ دوں، آپ نے جب اس کی پکار سنی تو ٹھہر گئے اور فرمایا: کیا میں نے اسے تم سے خریدا نہیں ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں نے اسے آپ سے بیچا نہیں ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسے تم سے خرید چکا ہوں ۱؎، اب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعرابی کے اردگرد اکٹھا ہونے لگے، دونوں تکرار کر رہے تھے، اعرابی کہنے لگا: گواہ لائیے جو گواہی دے کہ میں اسے آپ سے بیچ چکا ہوں، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے بیچ چکے ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم گواہی کیسے دے رہے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کے سچا ہونے پر یقین ہونے کی وجہ سے ۲؎، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔

وضاحت:
۱؎: اگر اس خرید و فروخت میں گواہوں کا انتظام کیا گیا ہوتا تو وہ دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گواہ طلب ہی نہیں کرتا، اس نے سوچا کہ گواہ نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا، پتہ چلا کہ خرید و فروخت میں گواہی کا ضروری نہیں، ورنہ آپ ضرور اس کا انتظام کرتے۔ ۲؎: چونکہ آپ سچے ہیں اس لیے آپ کا یہ دعویٰ ہی میرے لیے کافی ہے کہ آپ خرید چکے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأقضیة 20 (3607)، (تحفة الأشراف: 15646)، مسند احمد (5/215) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4651 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4651  
اردو حاشہ:
(1) امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ سودے پر یا سودا کرتے وقت گواہ بھی بنائے جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ اس استدلال پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ﴾  اور جب تم باہم خرید وفروخت کرو تو گواہ بنا لو۔ اس جگہ لفظ ﴿وَأَشْهِدُوا﴾  فرمایا گیا ہے اور یہ امر کا صیغہ ہے جبکہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ دریں صورت کس طرح یہ گنجائش نکلتی ہے کہ گواہ نہ بنائے جائیں اور سودا کر لیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرینہ صارفہ (امر وجوب سے استحباب وغیرہ کی طرف پھیرنے والی دلیل) آ جائے تو پھر وجوب ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اعرابی اور اور نبی اکرم ﷺ کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ گواہ بنانا مستحب ہے، ضروری نہیں، تاہم ادھار سودا ہو یا قرض ہو یا سودے وغیرہ میں نسیان و تنازع کا خدشہ ہو تو گواہ بنانا، تحریر تیار کرنا مؤکد چیز ہے۔
(2) سیدنا خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی گواہی کو دو مسلمان مردوں کو گواہی کے برابر قرار دیا۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
(3) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہﷺ کی کسرنفسی اور انتہائی تواضع پر واضح دلیل ہے کہ آپ اپنے دنیوی کام کاج بذات خود سر انجام دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تواضع میں امت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ اپنے کام خود کرنا ہی عظمت اور بڑائی ہے نہ کہ دوسروں سے کرانا اور ان پر انحصار کرنا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4651   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.