Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
79. بَابُ : بَيْعِ الْمَغَانِمِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ
باب: تقسیم سے پہلے مال غنیمت بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4649
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمَغَانِمِ حَتَّى تُقْسَمَ , وَعَنِ الْحَبَالَى أَنْ يُوطَأْنَ حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ , وَعَنْ لَحْمِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت بیچنے، حاملہ عورتوں ۱؎ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے پہلے جماع کرنے اور ہر دانت والے درندے کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6408) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مال غنیمت میں ملی ہوئی لونڈیاں مراد ہیں، اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو پانے والے مجاہد ان کے بچہ جننے کے بعد ہی ان سے مباشرت کر سکتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4649 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4649  
اردو حاشہ:
(1) مالِ غنیمت کی تقسمجاہلیت میں رواج تھا کہ جنگ میں حصہ لینے والا شخص کسی دوسرے شخص سے کہتا کہ مجھے مالِ غنیمت میں سے جو حصہ ملے گا، میں تجھے اتنے میں فروخت کرتا ہوں، حالانکہ نہ وہ ابھی تک اپنے حصے کا مالک بنا ہوتا تھا اور نہ یہ علم ہی ہوتا تھا کہ اس کے حصے میں کیا آئے گا۔ ظاہر ہے کہ شریعت مجہول اور غیر مملوک چیز کی فروخت کی اجازت قطعاً نہیں دیتی۔
(2) حاملہ لونڈی یعنی جس لونڈی کو اس کے سابقہ خاوند یا مالک سے حمل ٹھہر چکا ہو۔ وہ جنگ میں کسی کے ہاتھ لگ جائے یا کوئی شخص اسے خرید لے تو جب تک بچہ پیدا نہیں ہو جاتا، نئے مالک کے لیے اس سے جماع کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حمل کسی اور شخص کا ہے۔ اس کو اس میں دخل اندازی کا حق نہیں۔
(3) کچلی والے کچلی نوکیلے دانت کو کہتے ہیں جو درمیان والے چار دانتوں کے دونوں اطراف ایک ایک ہوتا ہے۔ یہاں اس سے مراد شکاری جانور ہے جسے ہم درندہ کہتے ہیں کیونکہ درندے میں یہ دانت لازماً ہوتے ہیں جبکہ غیر شکاری میں یہ دانت نہیں ہوتے۔ شکاری جانور کی حرمت کی وجہ پیچھے گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4649