الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
71. بَابُ: سَلَفٍ وَبَيْعٍ وَهُوَ أَنْ يَبِيعَ السِّلْعَةَ عَلَى أَنْ يُسْلِفَهُ سَلَفًا
71. باب: سلف اور بیع ایک ساتھ کرنا (یعنی بیچنے والا ایک چیز بیچے اس شرط پر کہ خریدار اس کو قرض دے)۔
Chapter: Lending on condition of Buying or Selling
حدیث نمبر: 4633
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود , عن خالد , عن حسين المعلم , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن سلف وبيع , وشرطين في بيع وربح , ما لم يضمن".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ , عَنْ خَالِدٍ , عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ , وَشَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ وَرِبْحِ , مَا لَمْ يُضْمَنْ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف اور بیع ایک ساتھ کرنے، ایک بیع میں دو شرطیں لگانے، اور اس چیز کے نفع لینے سے منع فرمایا جس کے تاوان کا وہ ذمے دار (ضامن) نہ ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8692) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس چیز کو بیچنا جو ابھی پہلے بیچنے والے سے خریدار کے قبضے میں آئی بھی نہ ہو، اور نہ ہی اس کے اوصاف (وزن، ناپ اور نوعیت) معلوم ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
72. بَابُ: شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ
72. باب: ایک بیع میں دو شرط لگانا یعنی کوئی یہ کہے کہ میں تم سے اس شرط پر یہ سامان بیچ رہا ہوں کہ اگر ایک مہینہ میں قیمت ادا کر دو گے تو اتنے روپے کا ہے اور دو مہینہ میں ادا کرو گے تو اتنے کا۔۔
Chapter: Two conditions in one Transaction, Which is When one Says: "I Will Sell You This For This Price, If You Pay After One Month, And Another Price If You Pay After Two Months''
حدیث نمبر: 4634
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب , قال: حدثنا ابن علية , قال: حدثنا ايوب , قال: حدثنا عمرو بن شعيب , قال: حدثني ابي , عن ابيه , حتى ذكر عبد الله بن عمرو , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل سلف وبيع , ولا شرطان في بيع , ولا ربح , ما لم يضمن".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ , وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ , وَلَا رِبْحُ , مَا لَمْ يُضْمَنْ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں، اور نہ ہی ایسی چیز کا نفع جس کے تاوان کی ذمے داری نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4615 (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور دونوں میں سے کسی ایک پر بات طے نہ ہو، اور اگر کسی ایک پر بات طے ہو جائے تو پھر بیع حلال اور جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 4635
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع , قال: حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن ايوب , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سلف وبيع , وعن شرطين في بيع واحد , وعن بيع ما ليس عندك , وعن ربح ما لم يضمن".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ , وَعَنْ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ وَاحِدٍ , وَعَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ , وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ کرنے سے، ایک ہی بیع میں دو شرطیں لگانے سے، اور اس چیز کے بیچنے سے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اور ایسی چیز کے نفع سے جس کے تاوان کی ذمہ داری نہ ہو، (ان سب سے) منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4615 (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
73. بَابُ: بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ
73. باب: ایک بیع میں دو بیع کرنا یعنی یہ کہے کہ میں ایک چیز تم سے بیچ رہا ہوں اگر نقد لو گے تو سو درہم میں اور ادھار لو گے تو دو سو درہم میں۔۔
Chapter: Two Transactions In One, Which Is Where a Person Says: "I will Sell You This Produce For One Hundred Dirhams In Cash And Two Hundred Dirhams On Credit."
حدیث نمبر: 4636
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي , ويعقوب بن إبراهيم , ومحمد بن المثنى , قالوا: حدثنا يحيى بن سعيد , قال: حدثنا محمد بن عمرو , قال: حدثنا ابو سلمة , عن ابي هريرة , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15112)، مسند احمد (2/432، 475) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا ہو، اگر کسی ایک پر اتفاق ہو گیا تو پھر یہ بیع حلال اور جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
74. بَابُ: النَّهْىِ عَنْ بَيْعِ الثُّنْيَا، حَتَّى تُعْلَمَ
74. باب: استثنائی بیع کی ممانعت کہ اس کی مقدار معلوم ہو کا بیان۔
Chapter: Prohibitionof Selling With An Exception, Unless It Is Defined
حدیث نمبر: 4637
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب , قال: حدثنا عباد بن العوام , قال: حدثنا سفيان بن حسين , قال: حدثنا يونس , عن عطاء , عن جابر , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن المحاقلة , والمزابنة , والمخابرة , وعن الثنيا إلا ان تعلم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ , وَالْمُزَابَنَةِ , وَالْمُخَابَرَةِ , وَعَنِ الثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ سے اور بیع میں استثناء کرنے سے سوائے اس کے کہ مقدار معلوم ہو منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3911 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی درخت کے پھل بیچتے وقت کچھ غیر معلوم پھل الگ کرنے سے منع فرمایا، اگر الگ کئے ہوئے پھلوں کی مقدار طے ہو تو یہ معاملہ جائز ہے، لیکن یہ مقدار اتنی بھی نہ ہو کہ بیچے ہوئے پھل کی مقدار انتہائی کم رہ جائے، جس سے خریدار کو گھاٹا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4638
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر , قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب , واخبرنا زياد بن ايوب , قال: حدثنا ابن علية , قال: انبانا ايوب , عن ابي الزبير , عن جابر , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المحاقلة , والمزابنة , والمخابرة , والمعاومة , والثنيا , ورخص في العرايا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ , وأَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ , وَالْمُزَابَنَةِ , وَالْمُخَابَرَةِ , وَالْمُعَاوَمَةِ , وَالثُّنْيَا , وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ، معاومہ (کئی سالوں کی بیع) اور بیع میں الگ کرنے سے منع فرمایا اور بیع عرایا (عاریت والی بیع) میں رخصت دی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 16 (1536)، سنن ابی داود/البیوع 34 (3404)، سنن الترمذی/البیوع 55 (1313)، سنن ابن ماجہ/التجارات 54 (2266)، (تحفة الأشراف: 2666)، مسند احمد (3/313، 356، 364) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
75. بَابُ: النَّخْلِ يُبَاعُ أَصْلُهَا وَيَسْتَثْنِي الْمُشْتَرِي ثَمَرَهَا
75. باب: کھجور کے درخت بیچے جائیں اور خریدار اس کے پھل کی شرط لگا دے۔
Chapter: Selling A Tree But Not Its Produce
حدیث نمبر: 4639
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , قال: حدثنا الليث , عن نافع , عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ايما امرئ ابر نخلا , ثم باع اصلها , فللذي ابر ثمر النخل , إلا ان يشترط المبتاع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا امْرِئٍ أَبَّرَ نَخْلًا , ثُمَّ بَاعَ أَصْلَهَا , فَلِلَّذِي أَبَّرَ ثَمَرُ النَّخْلِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگا لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 90 (2203)، 92 (2206)، المساقاة 17 (2379)، الشروط 2 (2716)، صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2210)، (تحفة الأشراف: 8274)، موطا امام مالک/البیوع 7 (9)، مسند احمد (2/6، 9، 4، 5، 63، 78) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ معاملہ ہر قسم کی کھیتی کے بیچنے میں ہو گا، کیونکہ کھیتی میں بیچنے والا خرچ کیا ہوتا ہے، کھجور میں تو تابیر (پیوند کاری) سے پہلے بیچنے والے کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اس لیے تابیر (پیوند کاری) کی شرط لگائی گئی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
76. بَابُ: الْعَبْدِ يُبَاعُ وَيَسْتَثْنِي الْمُشْتَرِي مَالَهُ
76. باب: غلام بیچا جائے اور خریدار اس کے مال کی شرط لگا دے۔
Chapter: When A Slave Is Bought Or sold But His Possessions Are Exempt
حدیث نمبر: 4640
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم , قال: انبانا سفيان , عن الزهري , عن سالم , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع , إلا ان يشترط المبتاع , ومن باع عبدا وله مال فماله للبائع , إلا ان يشترط المبتاع".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ , وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تابیر (پیوند کاری) ہو جانے کے بعد (کھجور کا) درخت خریدے تو اس کا پھل بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے، اور جو غلام بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 15 (1543)، سنن ابی داود/البیوع 44 (3433)، سنن ابن ماجہ/التجارات 31 (2211)، (تحفة الأشراف: 6819) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
77. بَابُ: الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ
77. باب: بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں۔
Chapter: A Sale In Which There Is A condition And Both The Sale and The Condition Are Valid.
حدیث نمبر: 4641
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر , قال: انبانا سعدان بن يحيى , عن زكريا , عن عامر , عن جابر بن عبد الله , قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاعيا جملي فاردت ان اسيبه , فلحقني رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا له , فضربه فسار سيرا لم يسر مثله , فقال:" بعنيه بوقية" , قلت: لا، قال:" بعنيه" , فبعته بوقية , واستثنيت حملانه إلى المدينة , فلما بلغنا المدينة اتيته بالجمل وابتغيت ثمنه , ثم رجعت فارسل إلي , فقال:" اتراني إنما ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ , فَلَحِقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ , فَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ , فَقَالَ:" بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ" , قُلْتُ: لَا، قَالَ:" بِعْنِيهِ" , فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ , وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ , فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ , ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ , فَقَالَ:" أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: اسے مجھ سے بیچ دو تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 34 (2097)، الاستقراض 1 (2385)، 18 (2406)، المظالم 26 (2470)، الشروط 4 (2718)، الجہاد 49 (2861)، 113 (2967)، صحیح مسلم/البیوع 42 (المساقاة 21) (715)، الرضاع 16 (715)، سنن ابی داود/البیوع 71 (3505)، سنن الترمذی/البیوع 30 (1253)، (تحفة الأشراف: 2341)، مسند احمد (3/299) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر معاملہ کر لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4642
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى بن عبد الله , قال: حدثنا محمد بن عيسى بن الطباع , قال: حدثنا ابو عوانة , عن مغيرة , عن الشعبي , عن جابر , قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم على ناضح لنا , ثم ذكرت الحديث بطوله , ثم ذكر كلاما معناه , فازحف الجمل فزجره النبي صلى الله عليه وسلم , فانتشط حتى كان امام الجيش , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا جابر , ما ارى جملك إلا قد انتشط" , قلت: ببركتك يا رسول الله , قال:" بعنيه , ولك ظهره حتى تقدم" , فبعته وكانت لي إليه حاجة شديدة ولكني استحييت منه , فلما قضينا غزاتنا ودنونا استاذنته بالتعجيل , فقلت: يا رسول الله , إني حديث عهد بعرس , قال:" ابكرا تزوجت ام ثيبا؟" , قلت: بل ثيبا , يا رسول الله , إن عبد الله بن عمرو اصيب وترك جواري ابكارا , فكرهت ان آتيهن بمثلهن , فتزوجت ثيبا , تعلمهن وتؤدبهن فاذن لي , وقال لي:" ائت اهلك عشاء" , فلما قدمت اخبرت خالي ببيعي الجمل فلامني , فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم غدوت بالجمل , فاعطاني ثمن الجمل والجمل وسهما مع الناس.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ مُغِيرَةَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا , ثُمَّ ذَكَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ , ثُمَّ ذَكَرَ كَلَامًا مَعْنَاهُ , فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَانْتَشَطَ حَتَّى كَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جَابِرُ , مَا أَرَى جَمَلَكَ إِلَّا قَدِ انْتَشَطَ" , قُلْتُ: بِبَرَكَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" بِعْنِيهِ , وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَقْدَمَ" , فَبِعْتُهُ وَكَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ , فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ , قَالَ:" أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟" , قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا , يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ وَتَرَكَ جَوَارِيَ أَبْكَارًا , فَكَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ , فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا , تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ فَأَذِنَ لِي , وَقَالَ لِي:" ائْتِ أَهْلَكَ عِشَاءً" , فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ فَلَامَنِي , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ , فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا تو وہ تیز ہو گیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہو گیا ہے، میں نے عرض کیا: آپ کے ذریعہ سے ہونے والی برکت سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اسے، میرے ہاتھ بیچ دو۔ البتہ تم (مدینہ) پہنچنے تک اس پر سوار ہو سکتے ہو، چنانچہ میں نے اسے بیچ دیا حالانکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے آپ سے شرم آئی۔ جب ہم غزوہ سے فارغ ہوئے اور (مدینے کے) قریب ہوئے تو میں نے آپ سے جلدی سے آگے جانے کی اجازت مانگی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ابھی جلد شادی کی ہے، آپ نے فرمایا: کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا: بیوہ سے، اللہ کے رسول! والد صاحب عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مارے گئے اور انہوں نے کنواری لڑکیاں چھوڑی ہیں، تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں ان کے پاس ان جیسی (کنواری لڑکی) لے کر آؤں، لہٰذا میں نے بیوہ سے شادی کی ہے جو انہیں تعلیم و تربیت دے گی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی اور مجھ سے فرمایا: اپنی بیوی کے پاس شام کو جانا، جب میں مدینے پہنچا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ بیچنے کی اطلاع دی، تو انہوں نے مجھے ملامت کی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو میں صبح کو اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا، تو آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کی اور اونٹ بھی دے دیا اور (مال غنیمت میں سے) ایک حصہ سب لوگوں کے برابر دیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    15    16    17    18    19    20    21    22    23    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.