عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف اور بیع ایک ساتھ کرنے، ایک بیع میں دو شرطیں لگانے، اور اس چیز کے نفع لینے سے منع فرمایا جس کے تاوان کا وہ ذمے دار (ضامن) نہ ہو ۱؎۔
72. باب: ایک بیع میں دو شرط لگانا یعنی کوئی یہ کہے کہ میں تم سے اس شرط پر یہ سامان بیچ رہا ہوں کہ اگر ایک مہینہ میں قیمت ادا کر دو گے تو اتنے روپے کا ہے اور دو مہینہ میں ادا کرو گے تو اتنے کا۔۔
Chapter: Two conditions in one Transaction, Which is When one Says: "I Will Sell You This For This Price, If You Pay After One Month, And Another Price If You Pay After Two Months''
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں، اور نہ ہی ایسی چیز کا نفع جس کے تاوان کی ذمے داری نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4615 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور دونوں میں سے کسی ایک پر بات طے نہ ہو، اور اگر کسی ایک پر بات طے ہو جائے تو پھر بیع حلال اور جائز ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع , قال: حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن ايوب , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سلف وبيع , وعن شرطين في بيع واحد , وعن بيع ما ليس عندك , وعن ربح ما لم يضمن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ , وَعَنْ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ وَاحِدٍ , وَعَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ , وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ کرنے سے، ایک ہی بیع میں دو شرطیں لگانے سے، اور اس چیز کے بیچنے سے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اور ایسی چیز کے نفع سے جس کے تاوان کی ذمہ داری نہ ہو، (ان سب سے) منع فرمایا۔
73. باب: ایک بیع میں دو بیع کرنا یعنی یہ کہے کہ میں ایک چیز تم سے بیچ رہا ہوں اگر نقد لو گے تو سو درہم میں اور ادھار لو گے تو دو سو درہم میں۔۔
Chapter: Two Transactions In One, Which Is Where a Person Says: "I will Sell You This Produce For One Hundred Dirhams In Cash And Two Hundred Dirhams On Credit."
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب , قال: حدثنا عباد بن العوام , قال: حدثنا سفيان بن حسين , قال: حدثنا يونس , عن عطاء , عن جابر , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن المحاقلة , والمزابنة , والمخابرة , وعن الثنيا إلا ان تعلم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ , وَالْمُزَابَنَةِ , وَالْمُخَابَرَةِ , وَعَنِ الثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ سے اور بیع میں استثناء کرنے سے سوائے اس کے کہ مقدار معلوم ہو منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3911 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی درخت کے پھل بیچتے وقت کچھ غیر معلوم پھل الگ کرنے سے منع فرمایا، اگر الگ کئے ہوئے پھلوں کی مقدار طے ہو تو یہ معاملہ جائز ہے، لیکن یہ مقدار اتنی بھی نہ ہو کہ بیچے ہوئے پھل کی مقدار انتہائی کم رہ جائے، جس سے خریدار کو گھاٹا ہو۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ، معاومہ (کئی سالوں کی بیع) اور بیع میں الگ کرنے سے منع فرمایا اور بیع عرایا (عاریت والی بیع) میں رخصت دی۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة , قال: حدثنا الليث , عن نافع , عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ايما امرئ ابر نخلا , ثم باع اصلها , فللذي ابر ثمر النخل , إلا ان يشترط المبتاع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا امْرِئٍ أَبَّرَ نَخْلًا , ثُمَّ بَاعَ أَصْلَهَا , فَلِلَّذِي أَبَّرَ ثَمَرُ النَّخْلِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگا لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ معاملہ ہر قسم کی کھیتی کے بیچنے میں ہو گا، کیونکہ کھیتی میں بیچنے والا خرچ کیا ہوتا ہے، کھجور میں تو تابیر (پیوند کاری) سے پہلے بیچنے والے کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اس لیے تابیر (پیوند کاری) کی شرط لگائی گئی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم , قال: انبانا سفيان , عن الزهري , عن سالم , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع , إلا ان يشترط المبتاع , ومن باع عبدا وله مال فماله للبائع , إلا ان يشترط المبتاع". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ , وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ , إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی تابیر (پیوند کاری) ہو جانے کے بعد (کھجور کا) درخت خریدے تو اس کا پھل بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے، اور جو غلام بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے“۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر , قال: انبانا سعدان بن يحيى , عن زكريا , عن عامر , عن جابر بن عبد الله , قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاعيا جملي فاردت ان اسيبه , فلحقني رسول الله صلى الله عليه وسلم ودعا له , فضربه فسار سيرا لم يسر مثله , فقال:" بعنيه بوقية" , قلت: لا، قال:" بعنيه" , فبعته بوقية , واستثنيت حملانه إلى المدينة , فلما بلغنا المدينة اتيته بالجمل وابتغيت ثمنه , ثم رجعت فارسل إلي , فقال:" اتراني إنما ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ , فَلَحِقَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَهُ , فَضَرَبَهُ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ , فَقَالَ:" بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ" , قُلْتُ: لَا، قَالَ:" بِعْنِيهِ" , فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ , وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ , فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ , ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ , فَقَالَ:" أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لیے دعا کی اور اسے تھپتھپایا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: ”اسے ایک اوقیہ (۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو“، میں نے کہا: نہیں (بلکہ وہ آپ ہی کا ہے)، آپ نے فرمایا: ”اسے مجھ سے بیچ دو“ تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى بن عبد الله , قال: حدثنا محمد بن عيسى بن الطباع , قال: حدثنا ابو عوانة , عن مغيرة , عن الشعبي , عن جابر , قال: غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم على ناضح لنا , ثم ذكرت الحديث بطوله , ثم ذكر كلاما معناه , فازحف الجمل فزجره النبي صلى الله عليه وسلم , فانتشط حتى كان امام الجيش , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا جابر , ما ارى جملك إلا قد انتشط" , قلت: ببركتك يا رسول الله , قال:" بعنيه , ولك ظهره حتى تقدم" , فبعته وكانت لي إليه حاجة شديدة ولكني استحييت منه , فلما قضينا غزاتنا ودنونا استاذنته بالتعجيل , فقلت: يا رسول الله , إني حديث عهد بعرس , قال:" ابكرا تزوجت ام ثيبا؟" , قلت: بل ثيبا , يا رسول الله , إن عبد الله بن عمرو اصيب وترك جواري ابكارا , فكرهت ان آتيهن بمثلهن , فتزوجت ثيبا , تعلمهن وتؤدبهن فاذن لي , وقال لي:" ائت اهلك عشاء" , فلما قدمت اخبرت خالي ببيعي الجمل فلامني , فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم غدوت بالجمل , فاعطاني ثمن الجمل والجمل وسهما مع الناس. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ مُغِيرَةَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا , ثُمَّ ذَكَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ , ثُمَّ ذَكَرَ كَلَامًا مَعْنَاهُ , فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَانْتَشَطَ حَتَّى كَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا جَابِرُ , مَا أَرَى جَمَلَكَ إِلَّا قَدِ انْتَشَطَ" , قُلْتُ: بِبَرَكَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" بِعْنِيهِ , وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَقْدَمَ" , فَبِعْتُهُ وَكَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ , فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ , قَالَ:" أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟" , قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا , يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ وَتَرَكَ جَوَارِيَ أَبْكَارًا , فَكَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ , فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا , تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ فَأَذِنَ لِي , وَقَالَ لِي:" ائْتِ أَهْلَكَ عِشَاءً" , فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ فَلَامَنِي , فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ , فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹا تو وہ تیز ہو گیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہو گیا ہے“، میں نے عرض کیا: آپ کے ذریعہ سے ہونے والی برکت سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اسے، میرے ہاتھ بیچ دو۔ البتہ تم (مدینہ) پہنچنے تک اس پر سوار ہو سکتے ہو“، چنانچہ میں نے اسے بیچ دیا حالانکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے آپ سے شرم آئی۔ جب ہم غزوہ سے فارغ ہوئے اور (مدینے کے) قریب ہوئے تو میں نے آپ سے جلدی سے آگے جانے کی اجازت مانگی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ابھی جلد شادی کی ہے، آپ نے فرمایا: ”کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟“ میں نے عرض کیا: بیوہ سے، اللہ کے رسول! والد صاحب عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما مارے گئے اور انہوں نے کنواری لڑکیاں چھوڑی ہیں، تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں ان کے پاس ان جیسی (کنواری لڑکی) لے کر آؤں، لہٰذا میں نے بیوہ سے شادی کی ہے جو انہیں تعلیم و تربیت دے گی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی اور مجھ سے فرمایا: ”اپنی بیوی کے پاس شام کو جانا“، جب میں مدینے پہنچا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ بیچنے کی اطلاع دی، تو انہوں نے مجھے ملامت کی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو میں صبح کو اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا، تو آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کی اور اونٹ بھی دے دیا اور (مال غنیمت میں سے) ایک حصہ سب لوگوں کے برابر دیا۔