سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
73. بَابُ : بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ
باب: ایک بیع میں دو بیع کرنا یعنی یہ کہے کہ میں ایک چیز تم سے بیچ رہا ہوں اگر نقد لو گے تو سو درہم میں اور ادھار لو گے تو دو سو درہم میں۔۔
حدیث نمبر: 4636
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 15112)، مسند احمد (2/432، 475) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہو سکا ہو، اگر کسی ایک پر اتفاق ہو گیا تو پھر یہ بیع حلال اور جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4636 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4636
اردو حاشہ:
ایک سودے میں دو سودوں کی ایک تفسیر تو مصنف رحمہ اللہ نے خود فرمائی ہے۔ اس کی کچھ بحث حدیث 4615 میں بیان ہو چکی ہے کہ اگر ادھار یا نقد ایک سودے پر بات طے ہو جائے تو نقد و ادھار قیمت کے فرق میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فرق فطری ہے، البتہ اگر کوئی ایک سودا طے نہ ہو، فلاں چیز بیچتا ہوں بشرطیکہ تو مجھے فلاں چیز بیچے۔ یہ جائز نہیں کیونکہ دوسری چیز کی فروخت کی شرط لگا کر ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”ایک بیع میں دو بیع“ کی تفسیر یہ کی ہے کہ (بائع مشتری کو کہے:) میں تجھے فلاں چیز ادھار سو روپے کی دیتا ہوں اور تجھ سے ابھی نقد اسی روپے کی لیتا ہوں۔ اور اگر اسے چیز کی بجائے 80 روپے دے دے اور سال کے بعد سو روپے وصول کر لے۔ ظاہرہے یہ ایک بیع میں دو سودے ہو رہے ہیں۔ اور یہ صریح سود ہے۔ ایسی بیع فاسد ہو گی کیونکہ یہ در حقیقت بیع ہے ہی نہیں۔ نہ کوئی چیز بیچی یا خریدی جا رہی ہے بلکہ اسی روپے دے کر سال کے بعد سو روپے لیے جا رہے ہیں جو صریح سود ہے۔ عصر حاضر میں بھی بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ بیع کا لفظ تو صرف دھوکا دینے کے لیے بولا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اسی روپے ہی واپس کرے گا۔ اگر یہ سو روپے واپس لے گا تو یہ سود ہو گا۔ [فله أوكسَهُما أو الرِّبا] یہ آخری دو صورتیں اس حدیث (ایک سودے میں دو سودے) کی بہترین تفسیر ہیں اور یہ دونوں منع ہیں، البتہ پہلی صورت نقد و ادھار والی صحیح ہے۔ اگر سود ایک صورت میں طے ہو جائے تو ادھار اور نقد قیمت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک بیع ہے، دو نہیں، لہٰذا یہ صورت اس حدیث کی صحیح تفسیر نہیں۔ ابہام باقی رہے، کوئی اور صورت طے نہ ہو تو اسے اس حدیث کے تحت لایا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4636
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1231
´ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1231]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
امام ترمذی نے دوقول ذکرکئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیربھی ذکرکی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینارکے عوض گیہوں خریدلے اورجب ایک ماہ گزرجائے تو جا کر اس سے گیہوں کامطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دومہینے کے وعدے پر دوبوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دوبیع ہوئی۔ 2؎:
اوریہی جہالت بیع کے جائزنہ ہونے کی وجہ ہے گوظاہرمیں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1231