ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”بلاشبہ دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے“، لوگوں نے عرض کیا: کس کے لیے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عوام کے لیے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عوام کے لیے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا کوئی حاکم نہیں جس کے دو قسم کے مشیر نہ ہوں، ایک مشیر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ لہٰذا جو اس کے شر سے بچا وہ بچ گیا اور ان دونوں مشیروں میں سے جو اس پر غالب آ جاتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لیے ہر صاحب اختیار (خواہ حاکم اعلی ہو یا ادنیٰ جیسے گورنر، تھانے دار یا کسی تنظیم کا سربراہ) اسے چاہیئے کہ اپنا مشیر بہت چھان پھٹک کر اختیار کرے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے کہ اے اللہ! مجھے صالح مشیر کار عطا فرما۔
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي سعيد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ما بعث الله من نبي، ولا استخلف من خليفة، إلا كانت له بطانتان: بطانة تامره بالخير، وبطانة تامره بالشر، وتحضه عليه، والمعصوم من عصم الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ، وَلَا اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِيفَةٍ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْخَيْرِ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ، وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم محفوظ تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم محفوظ رکھے“۔
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا گیا اور نہ اس کے بعد کوئی خلیفہ ایسا ہوا جس کے دو مشیر و راز دار نہ ہوں۔ ایک مشیر و راز دار اسے بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا جو خراب مشیر سے بچ گیا وہ (برائی اور فساد سے) بچ گیا“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان، قال: حدثنا بقية، قال: حدثنا ابن المبارك، عن ابن ابي حسين، عن القاسم بن محمد، قال: سمعت عمتي، تقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من ولي منكم عملا، فاراد الله به خيرا، جعل له وزيرا صالحا إن نسي ذكره، وإن ذكر اعانه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّتِي، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ عَمَلًا، فَأَرَادَ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرًا صَالِحًا إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ذمہ دار ہو جائے پھر اللہ اس سے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ایسا صالح وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن زبيد الإيامي، عن سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، عن علي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: بعث جيشا، وامر عليهم رجلا، فاوقد نارا، فقال: ادخلوها، فاراد ناس ان يدخلوها، وقال الآخرون: إنما فررنا منها، فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال للذين ارادوا ان يدخلوها:" لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة"، وقال للآخرين:" خيرا"، وقال ابو موسى في حديثه:" قولا حسنا"، وقال:" لا طاعة في معصية الله، إنما الطاعة في المعروف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَ جَيْشًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَأَرَادَ نَاسٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا:" لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ:" خَيْرًا"، وَقَالَ أَبُو مُوسَى فِي حَدِيثِهِ:" قَوْلًا حَسَنًا"، وَقَالَ:" لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھیجی اور ایک شخص ۱؎ کو اس کا امیر مقرر کیا، اس نے آگ جلائی اور کہا: تم لوگ اس میں داخل ہو جاؤ، تو کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا اور دوسروں نے کہا: ہم تو (ایمان لا کر) آگ ہی سے بھاگے ہیں، پھر لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونا چاہا تھا فرمایا: ”اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے، اور دوسروں سے اچھی بات کہی“۔ (ابوموسیٰ (محمد بن المثنیٰ) نے اپنی حدیث میں ( «خیراً» کے بجائے) «قولاً حسناً»(بہتر بات) کہا ہے)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہوتی، اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد وہی عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کا تذکرہ حدیث نمبر ۴۱۹۹ میں گزرا۔ ۲؎: ”صرف نیک کاموں میں اطاعت، اور نافرمانی کے کاموں میں اطاعت نہ کرنے“ کی بات ہر ایک اختیار والے کے ساتھ ہو گی: خواہ حکمران اعلی ہو یا ادنیٰ، یا والدین، یا اساتذہ، شوہر یا کسی تنظیم کا سربراہ۔ اگر کسی سربراہ کا اکثر حکم اللہ کی نافرمانی والا ہی ہو تو ایسے آدمی کو سارے ماتحت لوگ مشورہ کر کے اختیار سے بے دخل کر دیں۔ لیکن ہتھیار سے نہیں، یا فتنہ و فساد برپا کر کے نہیں۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن عبيد الله بن ابي جعفر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" على المرء المسلم السمع والطاعة فيما احب وكره، إلا ان يؤمر بمعصية، فإذا امر بمعصية، فلا سمع ولا طاعة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان شخص پر (امام و حکمراں کی) ہر چیز میں سمع و طاعت (حکم سننا اور اس پر عمل کرنا) واجب ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے۔ لہٰذا جب اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے تو کوئی سمع و طاعت نہیں“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن سفيان، عن ابي حصين، عن الشعبي، عن عاصم العدوي، عن كعب بن عجرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن تسعة، فقال:" إنه ستكون بعدي امراء، من صدقهم بكذبهم، واعانهم على ظلمهم، فليس مني، ولست منه، وليس بوارد علي الحوض، ومن لم يصدقهم بكذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم، فهو مني، وانا منه، وهو وارد علي الحوض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ تِسْعَةٌ، فَقَالَ:" إِنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، مَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ بِوَارِدٍ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَارِدٌ عَلَيَّ الْحَوْضَ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، آپ نے فرمایا: ”میرے بعد کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ ہی وہ (قیامت کے دن) میرے پاس حوض پہ آ سکے گا۔ اور جس نے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہیں کی اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض پر آئے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کسی حکمران، امیر، صدر، ناظم، کسی ادارہ کے سربراہ کے حوالی موالی جو ہر نیک و بد میں اس کی خوشامد کرتے ہیں اس کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ اس حدیث میں بیان کردہ وعید شدید پر توجہ دیں، نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم امیر کے ظلم میں تعاون کرنے والے کے لیے اتنی سخت وعید تو سنائی مگر اس ظالم امیر کو ہٹا دینے کی کوئی بات نہیں کی، ایسے ظالم کو نصیحت کی جائے گی یا سارے مسلمانوں کے اصحاب رائے کے مشورہ سے علاحدہ کیا جائے گا (بغیر فتنہ وفساد برپا کئے)۔
(مرفوع) اخبرنا هارون بن إسحاق، قال: حدثنا محمد يعني ابن عبد الوهاب، قال: حدثنا مسعر، عن ابي حصين، عن الشعبي، عن عاصم العدوي، عن كعب بن عجرة، قال: خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن تسعة: خمسة واربعة , احد العددين من العرب، والآخر من العجم، فقال:" اسمعوا، هل سمعتم انه ستكون بعدي امراء، من دخل عليهم فصدقهم بكذبهم، واعانهم على ظلمهم، فليس مني، ولست منه، وليس يرد علي الحوض، ومن لم يدخل عليهم، ولم يصدقهم بكذبهم، ولم يعنهم على ظلمهم، فهو مني، وانا منه، وسيرد علي الحوض". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ تِسْعَةٌ: خَمْسَةٌ وَأَرْبَعَةٌ , أَحَدُ الْعَدَدَيْنِ مِنَ الْعَرَبِ، وَالْآخَرُ مِنَ الْعَجَمِ، فَقَالَ:" اسْمَعُوا، هَلْ سَمِعْتُمْ أَنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِمْ فَصَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، پانچ ایک طرح کے اور چار دوسری طرح کے، ان میں سے کچھ عرب تھے اور کچھ عجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! کیا تم نے سنا؟ میرے بعد عنقریب کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے یہاں جائے گا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ وہ میرے پاس (قیامت کے دن) حوض پر نہ آ سکے گا، اور جو ان کے ہاں نہیں گیا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی، اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور عنقریب وہ میرے پاس حوض پر آئے گا“۔