جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی تو آپ نے مجھے ”جتنی میری طاقت ہے“ کہنے کی تلقین کی، نیز میں نے ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہم سے فرمایا: ”جتنی تم استطاعت اور قدرت رکھتی ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، عن ابي معاوية، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة، قال: انتهيت إلى عبد الله بن عمرو وهو جالس في ظل الكعبة , والناس عليه مجتمعون، قال: فسمعته، يقول: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر إذ نزلنا منزلا، فمنا من يضرب خباءه، ومنا من ينتضل، ومنا من هو في جشرته إذ نادى منادي النبي صلى الله عليه وسلم: الصلاة جامعة، فاجتمعنا، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فخطبنا، فقال:" إنه لم يكن نبي قبلي إلا كان حقا عليه، ان يدل امته على ما يعلمه خيرا لهم , وينذرهم ما يعلمه شرا لهم، وإن امتكم هذه جعلت عافيتها في اولها، وإن آخرها سيصيبهم بلاء وامور ينكرونها تجيء فتن، فيدقق بعضها لبعض فتجيء الفتنة، فيقول المؤمن: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، ثم تجيء، فيقول: هذه مهلكتي، ثم تنكشف، فمن احب منكم، ان يزحزح عن النار، ويدخل الجنة، فلتدركه موتته وهو مؤمن بالله واليوم الآخر، وليات إلى الناس ما يحب ان يؤتى إليه، ومن بايع إماما فاعطاه صفقة يده وثمرة قلبه، فليطعه ما استطاع، فإن جاء احد ينازعه , فاضربوا رقبة الآخر"، فدنوت منه، فقلت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هذا؟ قال: نعم، وذكر الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ , وَالنَّاسُ عَلَيْهِ مُجْتَمِعُونَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ نَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرَتِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَنَا، فَقَالَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ، أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ , وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا تَجِيءُ فِتَنٌ، فَيُدَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ فَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ، فَيَقُولُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ، أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ , فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ"، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگ ان کے پاس اکٹھا تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: اسی دوران جب کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ہم میں سے بعض لوگ خیمہ لگانے لگے، بعض نے تیر اندازی شروع کی، بعض جانور چرانے لگے، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے پکارا: نماز کھڑی ہونے والی ہے، چنانچہ ہم اکٹھا ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور آپ نے فرمایا: ”مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہ تھا جس پر ضروری نہ رہا ہو کہ جس چیز میں وہ بھلائی دیکھے اس کو وہ اپنی امت کو بتائے، اور جس چیز میں برائی دیکھے، انہیں اس سے ڈرائے، اور تمہاری اس امت کی خیر و عافیت شروع (کے لوگوں) میں ہے، اور اس کے آخر کے لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتیں اور ایسے مسائل گھیر لیں گے جن کو یہ ناپسند کریں گے، فتنے ظاہر ہوں گے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہوں گے، پھر ایک ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت و بربادی ہے، پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا، پھر دوبارہ فتنہ آئے گا، تو مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت و بربادی ہے۔ پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا۔ لہٰذا تم میں سے جس کو یہ پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو ضروری ہے کہ اسے موت ایسی حالت میں آئے جب وہ اللہ، اور آخرت (کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اور چاہیئے کہ وہ لوگوں سے اس طرح پیش آئے جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اور جو کسی امام سے بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے اور اخلاص کے ساتھ دے تو طاقت بھر اس کی اطاعت کرے، اب اگر کوئی اس سے (اختیار چھیننے کے لیے) جھگڑا کرے تو اس کی گردن اڑا دو، یہ سن کر میں نے ان سے قریب ہو کر کہا: کیا یہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، پھر (پوری) حدیث ذکر کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا آخری حصہ مؤلف نے نہیں ذکر کیا، امام مسلم نے اس کو ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ”عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ نے عرض کیا: معاویہ رضی اللہ عنہ ایسا ویسا کر رہے ہیں، اس پر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”تم معروف (بھلی بات) میں ان کی اطاعت کرتے رہو، اگر کسی منکر (برے کام) کا حکم دیں تو تم انکار کر دو، لیکن ان کے خلاف بغاوت مت کرو (خلاصہ) یہ کہ یہ حدیث سلف صالحین کے اس منہج اور طریقے کی تائید کرتی ہے کہ کسی مسلمان حاکم کے بعض منکر کاموں کی وجہ سے ان کو اختیار سے بے دخل کر دینے کے لیے ان کے خلاف تحریک نہیں چلائی جا سکتی، معروف کے سارے کام اس کی ماتحتی میں کئے جاتے رہیں گے۔ اور منکر کے سلسلے میں صرف زبانی نصیحت کی جائے گی۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن يحيى بن حصين، قال: سمعت جدتي، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في حجة الوداع:" ولو استعمل عليكم عبد حبشي يقودكم بكتاب الله، فاسمعوا له واطيعوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدَّتِي، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا".
یحییٰ بن حصین کی دادی (ام الحصٰن الاحمسیۃ رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے ہوئے سنا: اگر کوئی حبشی غلام بھی تم پر امیر بنا دیا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو تم اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، ان زياد بن سعد اخبره، ان ابن شهاب اخبره، ان ابا سلمة اخبره، انه سمع ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اطاعني فقد اطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن اطاع اميري فقد اطاعني، ومن عصى اميري فقد عصاني". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ زِيَادَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 8 (1835)، (تحفة الأشراف: 15138)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 9 10 (2957)، الأحکام 1 (7137)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 1(3)، الجہاد 39 (2859)، مسند احمد 2/511 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا الحسن بن محمد، قال: حدثنا حجاج، قال: قال ابن جريج، اخبرني يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس: يايها الذين آمنوا اطيعوا الله واطيعوا الرسول سورة النساء آية 59، قال:" نزلت في عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي، بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ سورة النساء آية 59، قَالَ:" نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ، بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ «يا أيها الذين آمنوا أطيعوا اللہ وأطيعوا الرسول»”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو“(النساء: ۵۹) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں اتری، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اس سریہ میں کسی بات پر اپنے ماتحتوں پر ناراض ہو گئے تو آگ جلانے کا حکم دیا، اور جب آگ جلا دی گئی تو سب کو حکم دیا کہ اس میں کود جائیں، اس پر بعض ماتحتوں نے کہا: ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیوں داخل ہوں، پھر معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کی بات آئی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیٰ الامر سے مراد امراء ہیں نہ کہ علماء اور اگر علماء بھی شامل ہیں تو مقصود یہ ہو گا کہ ایسے امور جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود نہ ہوں ان میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ ”ائمہ اربعہ کے بارے میں خاص طور پر اس آیت کے نازل ہونے کی بات تو قیاس سے بہت زیادہ بعید ہے کیونکہ اس وقت تو ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی تقلید جامد تو بقول شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن عثمان بن سعيد، قال: حدثنا بقية بن الوليد، قال: حدثنا بحير، عن خالد بن معدان، عن ابي بحرية، عن معاذ بن جبل، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الغزو غزوان: فاما من ابتغى وجه الله، واطاع الإمام، وانفق الكريمة، واجتنب الفساد، فإن نومه ونبهته اجر كله، واما من غزا رياء وسمعة، وعصى الإمام، وافسد في الارض، فإنه لا يرجع بالكفاف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَتَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”جہاد دو طرح کے ہیں: ایک تو یہ کہ کوئی خالص اللہ کی رضا کے لیے لڑے، امام کی اطاعت کرے، اپنے سب سے پسندیدہ مال کو خرچ کرے اور فساد سے دور رہے تو اس کا سونا جاگنا سب عبادت ہے، دوسرے یہ کہ کوئی شخص دکھاوے اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امام کی نافرمانی کرے، اور زمین میں فساد برپا کرے، تو وہ برابر سراسر بھی نہ لوٹے گا“(بلکہ عذاب کا مستحق ہو گا)۔
(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثنا شعيب، قال: حدثني ابو الزناد، مما حدثه عبد الرحمن الاعرج، مما ذكر انه سمع ابا هريرة يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنما الإمام جنة، يقاتل من ورائه، ويتقى به، فإن امر بتقوى الله وعدل، فإن له بذلك اجرا، وإن امر بغيره، فإن عليه وزرا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا، وَإِنْ أَمَرَ بِغَيْرِهِ، فَإِنَّ عَلَيْهِ وِزْرًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام ایک ڈھال ہے جس کے زیر سایہ ۱؎ سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے جان بچائی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر وہ اس کے علاوہ کا حکم دے تو اس کا وبال اسی پر ہو گا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: سالت سهيل بن ابي صالح، قلت: حدثنا عمرو، عن القعقاع، عن ابيك، قال: انا سمعته من الذي حدث ابي، حدثه رجل من اهل الشام يقال له: عطاء بن يزيد، عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما الدين النصيحة"، قالوا: لمن يا رسول الله؟، قال:" لله، ولكتابه، ولرسوله، ولائمة المسلمين , وعامتهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَأَلْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ، قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِيكَ، قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي حَدَّثَ أَبِي، حَدَّثَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ , وَعَامَّتِهِمْ".
تمیم الداری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین نصیحت خیر خواہی کا نام ہے“، آپ نے کہا: (نصیحت و خیر خواہی) کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عوام کے لیے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اللہ کے لیے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کتاب اللہ (قرآن) کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے۔ رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ نبوت و رسالت محمدیہ کی تصدیق کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، اور آپ کی تعلیمات کو عام کرے، مسلمانوں کے حاکموں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے، اور ان کے مصالح کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین خیر خواہی کا نام ہے“ لوگوں نے عرض کیا: کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ اور عوام کے لیے“۔