(مرفوع) اخبرني محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، عن ايوب، عن محمد، عن ام عطية، قالت: لما اردت، ان ابايع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، إن امراة اسعدتني في الجاهلية , فاذهب فاسعدها ثم اجيئك فابايعك؟، قال:" اذهبي فاسعديها"، قالت: فذهبت فساعدتها ثم جئت فبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: لَمَّا أَرَدْتُ، أَنْ أُبَايِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَةً أَسْعَدَتْنِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ , فَأَذْهَبُ فَأُسْعِدُهَا ثُمَّ أَجِيئُكَ فَأُبَايِعُكَ؟، قَالَ:" اذْهَبِي فَأَسْعِدِيهَا"، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ فَسَاعَدْتُهَا ثُمَّ جِئْتُ فَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنی چاہی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک عورت نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ (سوگ منانے) میں میری مدد کی تھی تو مجھے اس کے یہاں جا کر نوحہ میں اس کی مدد کرنی چاہیئے، پھر میں آ کر آپ سے بیعت کر لوں گی۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ اس کی مدد کرو“، چنانچہ میں نے جا کر اس کی مدد کی، پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بیعت کے بعد وہ نوحہ میں مدد نہیں کر سکتی تھیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آ رہی ہے، یہ اجازت صرف ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھی اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو یہ حق نہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو کسی کے لیے خاص کرے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، عن اميمة بنت رقيقة، انها قالت: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في نسوة من الانصار نبايعه، فقلنا: يا رسول الله، نبايعك على ان لا نشرك بالله شيئا، ولا نسرق، ولا نزني، ولا ناتي ببهتان نفتريه بين ايدينا وارجلنا، ولا نعصيك في معروف. قال:" فيما استطعتن، واطقتن"، قالت: قلنا الله ورسوله ارحم بنا , هلم نبايعك يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لا اصافح النساء، إنما قولي: لمائة امراة كقولي لامراة واحدة، او مثل قولي لامراة واحدة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ نُبَايِعُهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَأْتِيَ بِبُهْتَانٍ نَفْتَرِيهِ بَيْنَ أَيْدِينَا وَأَرْجُلِنَا، وَلَا نَعْصِيكَ فِي مَعْرُوفٍ. قَالَ:" فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ، وَأَطَقْتُنَّ"، قَالَتْ: قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا , هَلُمَّ نُبَايِعْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، إِنَّمَا قَوْلِي: لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ، أَوْ مِثْلُ قَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ".
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تاکہ ہم بیعت کریں، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، اور نہ ایسی کوئی الزام تراشی کریں گے جسے ہم خود اپنے سے گھڑیں، نہ کسی معروف (بھلے کام) میں ہم آپ کی نافرمانی کریں گے، آپ نے فرمایا: ”اس میں جس کی تمہیں استطاعت ہو یا قدرت ہو“، ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر زیادہ مہربان ہیں، آئیے ہم آپ سے بیعت کریں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو عورتوں سے کہنا ایک عورت سے کہنے کی طرح ہے یا ایک ایک عورت سے کہنے کے مانند ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/السیر 37 (1597)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 2 (2874)، (تحفة الأشراف: 15781)، موطا امام مالک/البیعة 1(2)، مسند احمد (6/357)، ویأتي عند المؤلف برقم: 4195 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا زياد بن ايوب، قال: حدثنا هشيم، عن يعلى بن عطاء، عن رجل من آل الشريد، يقال له عمرو , عن ابيه، قال: كان في وفد ثقيف رجل مجذوم , فارسل إليه النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع فقد بايعتك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ الشَّرِيدِ، يُقَالُ لَهُ عَمْرٌو , عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ فَقَدْ بَايَعْتُكَ".
شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ ”لوٹ جاؤ، میں نے تمہاری بیعت لے لی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 36 (2231)، سنن ابن ماجہ/الطب 44 (3544)، (تحفة الأشراف: 4837)، مسند احمد (4/389، 390) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ اس کے آنے سے لوگ گھن محسوس کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض کمزور ایمان والے وہم میں بھی مبتلا ہو جائیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ خود آپ کو گھن نہیں آئی، نہ آپ کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، آپ سے بڑھ کر صاحب ایمان کون ہو سکتا ہے؟۔
ہرماس بن زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ہاتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا تاکہ آپ مجھ سے بیعت لے لیں، میں ایک نابالغ لڑکا تھا تو آپ نے مجھ سے بیعت نہیں لی ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: جاء عبد , فبايع النبي صلى الله عليه وسلم على الهجرة , ولا يشعر النبي صلى الله عليه وسلم انه عبد , فجاء سيده يريده، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" بعنيه" , فاشتراه بعبدين اسودين، ثم لم يبايع احدا , حتى يساله:" اعبد هو؟". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ , فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ , وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ , فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْنِيهِ" , فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا , حَتَّى يَسْأَلَهُ:" أَعَبْدٌ هُوَ؟".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، ان اعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاصاب الاعرابي وعك بالمدينة، فجاء الاعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله، اقلني بيعتي؟ فابى , ثم جاءه، فقال: اقلني بيعتي؟ فابى , فخرج الاعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما المدينة كالكير تنفي خبثها، وتنصع طيبها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي؟ فَأَبَى , ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي؟ فَأَبَى , فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، وَتَنْصَعُ طِيبَهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اس کو مدینے میں بخار آ گیا، تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت توڑ دیجئیے ۱؎، آپ نے انکار کیا، اس نے پھر آپ کے پاس آ کر کہا: میری بیعت توڑ دیجئیے، آپ نے انکار کیا، تو اعرابی چلا گیا ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے جو اپنی گندگی کو نکال پھینکتا ہے اور پاکیزہ کو اور خالص بنا دیتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ اس بیماری کو بیعت کی نحوست سمجھ بیٹھا تھا۔ ۲؎: یعنی مدینہ سے چلا گیا، تاکہ اپنے خیال میں اس نحوست سے نجات پا جائے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی خلیفہ (حکمراں) سے خلافت کی بیعت، یا کسی خاص بات کو توڑنا جائز نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع، انه دخل على الحجاج، فقال: يا ابن الاكوع، ارتددت على عقبيك، وذكر كلمة معناها , وبدوت. قال: لا , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم" اذن لي في البدو". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، ارْتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا , وَبَدَوْتَ. قَالَ: لَا , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَذِنَ لِي فِي الْبُدُوِّ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ ”ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا“ بھی ہے (اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر «التعرب فی الفتنۃ»”فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا“ کا باب باندھا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ فرماتے تھے: ”جتنی تمہاری طاقت ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دین اسلام کی طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے یہی رکھی ہے کہ بن دوں پر ان کی طبعی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے: «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها»”اللہ تعالیٰ نے کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے“(البقرة: 286)۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے تو آپ ہم سے فرماتے تھے: ”جتنی تمہاری طاقت ہے“۔