Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب البيعة
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
24. بَابُ : الْبَيْعَةِ فِيمَا يَسْتَطِيعُ الإِنْسَانُ
باب: طاقت بھر حاکم کی سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) کی بیعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4192
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ. ح وأَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ:" فِيمَا اسْتَطَعْتَ". وَقَالَ عَلِيٌّ:" فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ فرماتے تھے: جتنی تمہاری طاقت ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 22 (1867)، سنن الترمذی/السیر 34 (1593)، (تحفة الأشراف: 7127، 7174)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام 43 (7202)، موطا امام مالک/البیعة 1(1)، مسند احمد (2/62، 81، 101، 139) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: دین اسلام کی طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے یہی رکھی ہے کہ بن دوں پر ان کی طبعی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے: «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها» اللہ تعالیٰ نے کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے (البقرة: 286)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4192 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4192  
اردو حاشہ:
باب کا مقصد یہ ہے کہ بیعت کرتے وقت طاقت کی قید بھی ذکر کرنی چاہیے۔ یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ بیعت میں طاقت و صسعت کی قید ملحوظ ہوتی ہے، خواہ  لفظاََ ذکر نہ کی جائے۔ طاقت سے بڑھ کر کوئی اطاعت کا مکلف نہیں بن سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4192   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 16  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 294- وبه: قال: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: فيما استطعتم . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ جب ہم سننے اور اطاعت کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فرماتے: جتنی تمہاری استطاعت ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 16]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7202، من حديث مالك، ومسلم 1867، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ ہر انسان پر اس کی استطاعت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے۔
➋ اسلام میں دو ہی بیعتیں ہیں:
اول: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت
دوم: خلیفہ اور حکمران کی بیعت
ان کے علاوہ کسی تیسری بیعت کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، چاہے یہ بیعت کسی نام نہاد کاغذی پارٹی کی ہو یا کسی پیر کی۔
➌ سیدنا ابوغادیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ شاگرد نے پوچھا: آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسند أحمد 5/68 ح20666 وسنده حسن]
◈ سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ نے دائیں ہاتھ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی، اس دائیں ہاتھ کو ابوالاسود الجرشی رحمہ اللہ نے لے کر اپنی آنکھوں اور چہرے پر پھیرا۔ دیکھئے [مسند أحمد 3/491 ح16016، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ افضل ہے۔ اسی طرح بعض آثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2940  
´بیعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کرتے تھے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلقین کرتے تھے کہ ہم یہ بھی کہیں: جہاں تک ہمیں طاقت ہے (یعنی ہم اپنی پوری طاقت بھر آپ کی سمع و طاعت کرتے رہیں گے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2940]
فوائد ومسائل:

اسلام اور جہادی بعیت کے بعد شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران کی بعیت بیعت حکومت کہلاتی ہیں۔
اس بعیت سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔


یہ بعیت اس بات کی علامت تھی۔
کہ لوگوں نے تجویز ہونے والےنام کو قبول کرلیا ہے۔
اس بعیت کے بعد خلافت کا انعقاد ہوجاتا تھا۔


تمام مسلمان شوریٰ کے ذریعے سے منتخب حکمران ان سے تعاون کریں گے۔
یہ ایک طرف کا عمرانی معاہدہ ہے۔
خلفائے راشدین نے ان الفاظ کا اضافہ کرایا۔
کہ سمع وطاقت ان کاموں میں ہوگی۔
جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات اور سابقہ خلفائے راشدین کے اقدامات کے مطابق ہوں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے بعیت کے الفاظ میں انسانی استطاعت کے مطابق کے الفاظ شامل کرنے کی تلقین اس لئے فرمائی کہ بعیت کرنے والے خود کو ایسی صورت حال میں نہ پایئں جس کی انسان استطاعت ہی نہیں رکھتا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2940   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4836  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور ماننے پر بیعت کرتے تھے، آپﷺ ہمیں فرماتے تھے تمہاری استطاعت کی حد تک۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4836]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت اور الفت کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ بیعت لیتے وقت خود یہ تلقین فرماتے کہ یوں کہو،
اپنی استطاعت کی حد تک۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو کسی چیز کا التزام اور پابندی اپنی قدرت اور طاقت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے اور کسی ایسی چیز کے الزام کو قبول نہیں کرنا چاہیے،
جو اپنی قدرت اور وسعت سے باہر ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4836   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7202  
7202. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ سے سمع و اطاعت کی بیعت کرتے تو آپ ہم سے فرماتے: جتنی تمہیں طاقت ہو۔ یعنی اپنی ہمت کے مطابق اسے بجا لائیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7202]
حدیث حاشیہ:
حاکم وقت سے سمع و طاعت پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسی بات کا حکم دے جو ہماری طبیعت یا ذاتی رائے کے خلاف ہو تو اپنی ذاتی طبیعت کے رجحان اور ذاتی رائے کو نظر انداز کر کے اپنی ہمت کے مطابق اس کی بات کو ماناجائے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو قدم قدم پر اختلاف و انتشار ہو گا۔
جو حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔
ہاں اگر اس کی بات شریعت کے خلاف ہو تو پھر اس کی بات ماننا ضروری نہیں کیونکہ شریعت کا حکم مقدم اور سب سے بالا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7202