ہرماس بن زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ہاتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا تاکہ آپ مجھ سے بیعت لے لیں، میں ایک نابالغ لڑکا تھا تو آپ نے مجھ سے بیعت نہیں لی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بیعت میں کسی بات کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے، جب کہ نابالغ پر کسی عہد و پیمان کی پابندی واجب نہیں ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4188
اردو حاشہ: بیعت دراصل عظیم الشان عہد ہوتا ہے جو پوری عقل وحواس اور بصیرت سے کیا جاتا ہے۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں اور نہ کوئی بے فائدہ رسم ہے جو صرف تبرک کے لیے ہر کس وناکس سے پوری کروائی جائے۔ آج کل بعض حضرات بیعت کو تبرک سمجھ کر کرتے ہیں کہ ہم فلاں بزرگ سے بیعت ہیں اور وہ اسے آخرت میں کوئی مفید شے سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ غیر اسلامی عمل ہے۔ بیعت امام کی ہوسکتی ہے یا اس کے مقرر کردہ نائب کی۔ اسلامی بیعت تو عہد کا نام ہے جو ایک ذمہ داری ہے جس کی فکر کرنا پڑتی ہے نہ کہ بیعت انسان کو ذمہ داریوں سے آزاد کرتی ہے جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ”فلاں بزرگ سے بیعت ہو جاؤ بس نجات ہو جائے گی۔ شرعی فرائض کی ادائیگی کوئی ضروری نہیں“ گویا ہر قسم کی ذمہ داری بیعت لینے والے پر ڈال دی جاتی ہے۔ اسلام ایسی خرافات کا قائل نہیں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4188