(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع، انه دخل على الحجاج، فقال: يا ابن الاكوع، ارتددت على عقبيك، وذكر كلمة معناها , وبدوت. قال: لا , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم" اذن لي في البدو". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، ارْتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا , وَبَدَوْتَ. قَالَ: لَا , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَذِنَ لِي فِي الْبُدُوِّ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ ”ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا“ بھی ہے (اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر «التعرب فی الفتنۃ»”فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا“ کا باب باندھا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4191
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ہجرت کرنے کے بعد بادیہ نشینی نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صبر اور ان کی جرأت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انھوں نے جحاج کی بے ادبی پر صبر کیا، اور پھر اسے جواب بھی دیا۔ جحاج بنوامیہ کے دور کا ایک ظالم اور گستاخ گورنر تھا۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی سے اس کا انداز تخاطب اس کے تکبر اور گستاخی کی واضح دلیل ہے۔ اسے اقتدار کے نشے نے چھوٹے بڑے کی تمیز بھلا دی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی اسے اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا بلکہ لعنت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بے ادبی انسان کی خوبیوں کو چھپا دیتی ہے۔ (3)”بادیہ“ مراد صحرائی علاقہ ہے، یعنی آبادیوں سے باہر کھلے اور آزاد علاقے۔ ان میں رہنے والے کو بدوی یا اعرابی کہتے ہیں۔ (4) حجاج کا اعتراض فضول تھا۔ کوئی شخص کسی بھی جگہ رہائش اختیار رکھ سکتا ہے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کوئی مہاجر نہیں تھے کہ مدینہ چھوڑ کر اپنے سابقہ گھر چلے گئے ہوں اور ان پر اعتراض ہوسکے۔ بہت سے مہاجر صحابہ بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ خیر انھوں نے تو نبی ﷺ سے اجازت بھی لے رکھی تھی اور پھر وہ فوت بھی مدینہ منورہ ہی ہوئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4191
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4825
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا، اے اکوع کے بیٹے! آپ الٹے پاؤں لوٹ گئے ہیں؟ دوبارہ بدویت اختیار کر لی ہے، ابن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، نہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4825]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امت مسلمہ کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ مہاجر کا اپنی جائے ہجرت کو چھوڑ کر واپس اپنے وطن آنا یا جنگلوں اور دیہات میں جا رہنا جائز نہیں ہے، لیکن بعض وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلم قبیلہ کے لوگوں کو فرمایا، تم جہاں بھی رہو مہاجر ہو اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی طور پر بھی اجازت لی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7087
7087. حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے پاس گئے تو اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم الٹے پاؤں پھر گئےہو، تم نے آبادی سے باہر رہائش رکھ لی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایسا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ یزید بن ابو عبید نے کہا: جب حضرت عثمان ؓ شہید کر دیے گئے تو حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے زبذہ میں رہائش رکھ لی انہوں نے وہاں ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، وہاں ربذہ میں ہی رہے یہاں تک کہ وفات سے چند دن پہلےمدینہ طیبہ آگئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7087]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابق ظاہر ہے حضرت سلمہ بن الاکوع نے 80 سال کی عمر میں سنہ74ھ میں وفات پائی (رضي اللہ عنه) آج بھی فتنوں کا زمانہ ہے ہر جگہ گھر گھر نفاق و شقاق ہے۔ باہمی خلوص کا پتہ نہیں۔ ایسے حالات میں بھی سب سے تنہائی بہتر ہے، کچھ مولانا قسم کے لوگ لوگوں سے بیعت لے کر ان احادیث کو پیش کرتے ہیں، یہ ان کی کم عقلی ہے۔ یہاں بیعت خلاف مراد ہے اور فتنے سے اسلامی ریاست کا شیرازہ بکھر جانا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7087
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7087
7087. حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے پاس گئے تو اس نے کہا: اے ابن اکوع! تم الٹے پاؤں پھر گئےہو، تم نے آبادی سے باہر رہائش رکھ لی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ایسا نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ یزید بن ابو عبید نے کہا: جب حضرت عثمان ؓ شہید کر دیے گئے تو حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے زبذہ میں رہائش رکھ لی انہوں نے وہاں ایک عورت سے شادی کی اور ان کے بچے بھی پیدا ہوئے، وہاں ربذہ میں ہی رہے یہاں تک کہ وفات سے چند دن پہلےمدینہ طیبہ آگئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7087]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو شخص ہجرت کر کے کسی شہر میں رہائش اختیار کرتا، اسے وہاں سے منتقل ہو کر دیہات میں جانا جائز نہ تھا اسے مرتد جیسا کہا جاتا تھا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو باعث لعنت قرار دیا ہے۔ (سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5105) البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایسا کرنا جائز تھا جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی تھی، پرفتن دور میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ 2۔ آج بھی فتنوں کا دور ہے ہر جگہ گھر گھر میں نفاق ہے۔ خلوص کا دور، دور تک نشان نظر نہیں آتا، ایسے حالات میں تنہائی اختیار کرنا افضل عمل ہے لیکن اگر کوئی شخص لوگوں میں رہتے ہوئے اصلاح کا فریضہ سرانجام دے اور اپنا ایمان بھی قائم رکھ سکے تو ایسے شخص کے لیے آبادی میں رہنا افضل ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7087