(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: انبانا عبد الرحمن، عن سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والذي لا إله غيره , لا يحل دم امرئ مسلم يشهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله إلا ثلاثة نفر: التارك للإسلام مفارق الجماعة، والثيب الزاني، والنفس بالنفس". قال الاعمش: فحدثت به إبراهيم فحدثني، عن الاسود، عن عائشة بمثله. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ , لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ: التَّارِكُ لِلْإِسْلَامِ مُفَارِقُ الْجَمَاعَةِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ". قَالَ الْأَعْمَشُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَنِي، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! کسی مسلمان کا خون جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں حلال نہیں، سوائے تین افراد کے: ایک وہ جو (مسلمانوں کی) جماعت سے الگ ہو کر اسلام کو ترک کر دے، دوسرا شادی شدہ زانی، اور تیسرا جان کے بدلے جان ۱؎۔ اعمش کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث ابراہیم نخعی سے بیان کی تو انہوں نے اس جیسی حدیث مجھ سے اسود کے واسطے سے عائشہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کی۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر کوئی دین اسلام سے مرتد ہو گیا، یا شادی شدہ ہو کر بھی زنا کر لیا، یا کسی کو ناحق قتل کیا ہے، تو اسے ان جرائم کی بنا پر اس کا خون حلال ہو گیا لیکن اس کے خون لینے کا کام اسلامی حکومت کا ہے نہ کہ سماج کا۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو إسحاق، عن عمرو بن غالب، قال: قالت عائشة: اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يحل دم امرئ مسلم إلا رجل زنى بعد إحصانه، او كفر بعد إسلامه، او النفس بالنفس". وقفه زهير. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوِ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ". وَقَّفَهُ زُهَيْرٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے اس شخص کے جس نے شادی کے بعد زنا کیا یا اسلام لانے کے بعد کفر کیا یا جان کے بدلے جان لینا ہو“۔ اسے زہیر نے موقوفاً روایت کیا ہے (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17422)، مسند احمد (6/58، 181، 205، 214)، ویأتي عند المؤلف برقم 4023 (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»
(مرفوع) اخبرنا هلال بن العلاء، قال: حدثنا حسين، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا ابو إسحاق، عن عمرو بن غالب، قال: قالت عائشة:" يا عمار , اما إنك تعلم انه , لا يحل دم امرئ إلا ثلاثة: النفس بالنفس، او رجل زنى بعد ما احصن"، وساق الحديث. (مرفوع) أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" يَا عَمَّارُ , أَمَا إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ , لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ إِلَّا ثَلَاثَةٌ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ مَا أُحْصِنَ"، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عمار! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے تین صورت کے: جان کے بدلے جان، یا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو، اور پھر انہوں نے آگے (یہی) حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو إسحاق عنعن. وحديث أبى داود (الأصل: 4353) و سنده صحيح والنسائي الآتي (الأصل: 4053) يغني عنه. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 350
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن يعقوب، قال: حدثنا محمد بن عيسى، قال: حدثنا حماد بن زيد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثني ابو امامة بن سهل، وعبد الله بن عامر بن ربيعة , قالا: كنا مع عثمان وهو محصور، وكنا إذا دخلنا مدخلا نسمع كلام من بالبلاط، فدخل عثمان يوما، ثم خرج , فقال: إنهم ليتواعدوني بالقتل. قلنا: يكفيكهم الله. قال: فلم يقتلوني؟ , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: رجل كفر بعد إسلامه، او زنى بعد إحصانه، او قتل نفسا بغير نفس"، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا إسلام، ولا تمنيت ان لي بديني بدلا منذ هداني الله، ولا قتلت نفسا فلم يقتلونني. (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ , قَالَا: كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ، وَكُنَّا إِذَا دَخَلْنَا مَدْخَلًا نَسْمَعُ كَلَامَ مَنْ بِالْبَلَاطِ، فَدَخَلَ عُثْمَانُ يَوْمًا، ثُمَّ خَرَجَ , فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونِّي بِالْقَتْلِ. قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ. قَالَ: فَلِمَ يَقْتُلُونِّي؟ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوْ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ، وَلَا تَمَنَّيْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِيَ اللَّهُ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا فَلِمَ يَقْتُلُونَنِي.
ابوامامہ بن سہل اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور وہ (اپنے گھر میں) قید تھے۔ ہم جب کسی جگہ سے اندر گھستے تو بلاط ۱؎ والوں کی گفتگو سنتے۔ ایک دن عثمان رضی اللہ عنہ اندر گئے پھر باہر آئے اور بولے: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا: آپ کے لیے تو اللہ کافی ہے۔ وہ بولے: آخر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنے کے درپہ ہیں؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین میں سے کسی ایک سبب سے: کسی نے اسلام لانے کے بعد کافر و مرتد ہو گیا ہو، یا شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو“، اللہ کی قسم! نہ تو میں نے جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام لانے کے بعد، اور جب سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہوئی میں نے یہ آرزو بھی نہیں کی کہ میرے لیے اس دین کے بجائے کوئی اور دین ہو، اور نہ میں نے ناحق کسی کو قتل کیا، تو آخر یہ مجھے کیوں کر قتل کریں گے؟۔
وضاحت: ۱؎: بلاط: مسجد نبوی اور بازار کے درمیان مدینہ میں ایک جگہ کا نام تھا۔ بلاط: دراصل ایسی خالی جگہ کو کہتے ہیں جس میں اینٹ بچھائی گئی ہو۔ اس جگہ اینٹ بچھائی گئی تھی، پھر اس مکان کا یہی نام پڑ گیا۔
(مرفوع) اخبرني احمد بن يحيى الصوفي، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا يزيد بن مردانبة، عن زياد بن علاقة، عن عرفجة بن شريح الاشجعي، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر , يخطب الناس , فقال:" إنه سيكون بعدي هنات وهنات، فمن رايتموه فارق الجماعة، او يريد يفرق امر امة محمد صلى الله عليه وسلم كائنا من كان فاقتلوه، فإن يد الله على الجماعة، فإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض". (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مَرْدَانِبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ شُرَيْحٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ , يَخْطُبُ النَّاسَ , فَقَالَ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، أَوْ يُرِيدُ يُفَرِّقُ أَمْرَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَائِنًا مَنْ كَانَ فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُضُ".
عرفجہ بن شریح اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا، آپ نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، تو تم جسے دیکھو کہ وہ جماعت سے الگ ہو گیا ہے یا امت محمدیہ میں افتراق و اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے قتل کر دو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا اس کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے“۔
عرفجہ بن شریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، (آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے پھر فرمایا) تو تم جسے دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کر رہا ہے جب کہ وہ متفق و متحد ہیں تو اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا زياد بن علاقة، عن عرفجة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ستكون بعدي هنات وهنات، فمن اراد ان يفرق امر امة محمد صلى الله عليه وسلم , وهم جمع فاضربوه بالسيف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَتَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُمْ جَمْعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ".
عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا پس اگر امت محمدیہ میں کوئی انتشار و تفرقہ ڈالنا چاہے جب کہ وہ متفق و متحد ہوں تو اسے قتل کر دو“۔
7. باب: آیت کریمہ: ”جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا بدلہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے“ کی تفسیر اور کن لوگوں کے بارے میں یہ نازل ہوئی ان کا ذکر اور اس بارے میں انس بن مالک رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: The Meaning of the Saying of Allah, the Mighty and Sublime: "The Recompense of Those Who
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا يزيد بن زريع، عن حجاج الصواف، قال: حدثنا ابو رجاء مولى ابي قلابة، قال: حدثنا ابو قلابة، قال: حدثني انس بن مالك، ان نفرا من عكل ثمانية , قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم، فاستوخموا المدينة وسقمت اجسامهم، فشكوا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" الا تخرجون مع راعينا في إبله فتصيبوا من البانها وابوالها"، قالوا: بلى، فخرجوا، فشربوا من البانها وابوالها، فصحوا , فقتلوا راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبعث فاخذوهم , فاتي بهم فقطع ايديهم , وارجلهم , وسمر اعينهم , ونبذهم في الشمس حتى ماتوا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قِلَابَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً , قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَلَا تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ فَتُصِيبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا"، قَالُوا: بَلَى، فَخَرَجُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَصَحُّوا , فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فَأَخَذُوهُمْ , فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ , وَأَرْجُلَهُمْ , وَسَمَّرَ أَعْيُنَهُمْ , وَنَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، بیمار پڑ گئے، انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ہمارے چرواہوں کے ساتھ اونٹوں میں جا کر ان کا دودھ اور پیشاب پیو گے؟“ وہ بولے: کیوں نہیں، چنانچہ وہ نکلے اور انہوں نے ان کا دودھ اور پیشاب پیا ۲؎، تو اچھے ہو گئے، اب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے کچھ لوگ روانہ کئے، جنہوں نے انہیں گرفتار کر لیا، جب انہیں لایا گیا تو آپ نے ان کے ہاتھ اور قبیلہ عرینہ کے مجرمین کے پاؤں کاٹ دئیے، ان کی آنکھیں (گرم سلائی سے) پھوڑ دیں اور انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: اس آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس کا نزول قبیلہ عرنین کے مجرمین کے بارے میں ہوا ہے جب کہ مالک، شافعی، ابوثور اور اصحاب رأے کا کہنا ہے کہ اس کے نزول کا تعلق مسلمانوں میں سے ہر اس شخص سے ہے جو رہزنی اور زمین میں فساد برپا کرے، امام بخاری اور امام نسائی جمہور کے موافق ہیں۔ ۲؎: جمہور علماء محدثین کے نزدیک جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب پائخانہ پاک ہے، اور بوقت ضرورت ان کے پیشاب سے علاج جائز ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا۔ ۳؎: ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ جس طرح کیا تھا اسی طرح آپ نے ان کے ساتھ قصاص کے طور پر کیا، یا یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے والے باغی تھے اس لیے ان کے ساتھ ایسا کیا، جمہور کے مطابق اگر اس طرح کے لوگ مسلمان ہوں تو جن ہوں نے قتل کیا ان کو قتل کیا جائے گا، اور جنہوں نے صرف مال لیا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، اور جنہوں نے نہ قتل کیا اور نہ ہی مال لیا بلکہ صرف ہنگامہ مچایا تو ایسے لوگوں کو اس جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ قید کر دیا جائے گا۔
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار، عن الوليد، عن الاوزاعي، عن يحيى، عن ابي قلابة، عن انس: ان نفرا من عكل قدموا على النبي صلى الله عليه وسلم , فاجتووا المدينة،" فامرهم النبي صلى الله عليه وسلم ان ياتوا إبل الصدقة فيشربوا من ابوالها والبانها"، ففعلوا فقتلوا راعيها واستاقوها،" فبعث النبي صلى الله عليه وسلم في طلبهم، قال: فاتي بهم فقطع ايديهم وارجلهم , وسمر اعينهم , ولم يحسمهم , وتركهم حتى ماتوا فانزل الله عز وجل: إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله سورة المائدة آية 33 الآية". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الْوَلِيدِ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ،" فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا"، فَفَعَلُوا فَقَتَلُوا رَاعِيَهَا وَاسْتَاقُوهَا،" فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهِمْ، قَالَ: فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ , وَسَمَّرَ أَعْيُنَهُمْ , وَلَمْ يَحْسِمْهُمْ , وَتَرَكَهُمْ حَتَّى مَاتُوا فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة المائدة آية 33 الْآيَةَ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ صدقے و زکاۃ کے اونٹوں میں جا کر ان کا پیشاب اور دودھ پیئیں، انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر چرواہے کو قتل کر دیا اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں چند افراد بھیجے، جب پکڑ کر وہ لائے گئے تو آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے، ان کی آنکھیں گرم سلائی سے پھوڑ دیں، اور ان کے زخموں کو داغا نہیں بلکہ یوں ہی چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «إنما جزاء الذين يحاربون اللہ ورسوله»”ان لوگوں کا بدلہ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں، الآیۃ“۔