سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
The Book of Wills
حدیث نمبر: 3661
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن عطاء بن السائب، عن ابي عبد الرحمن، عن سعد بن ابي وقاص، قال: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضي، فقال:" اوصيت؟" قلت: نعم، قال:" بكم قلت؟" بمالي كله في سبيل الله، قال:" فما تركت لولدك؟" قلت: هم اغنياء، قال:" اوص بالعشر"، فما زال يقول: واقول: حتى قال:" اوص بالثلث، والثلث كثير او كبير".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِي، فَقَالَ:" أَوْصَيْتَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" بِكَمْ قُلْتُ؟" بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:" فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ؟" قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَاءُ، قَالَ:" أَوْصِ بِالْعُشْرِ"، فَمَا زَالَ يَقُولُ: وَأَقُولُ: حَتَّى قَالَ:" أَوْصِ بِالثُّلُثِ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا: تم نے وصیت کر دی؟ میں نے کہا: جی ہاں کر دی، آپ نے فرمایا: کتنی؟ میں نے کہا: اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا؟ میں نے کہا: وہ سب مالدار و بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: دسویں حصے کی وصیت کرو، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ۱؎ آپ نے فرمایا: اچھا تہائی کی وصیت کر لو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، (تحفة الأشراف: 3898)، مسند احمد (1/174) (ضعیف) (مولف کی یہ سند عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر پچھلی سند صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے آدھا کہا، آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے کہا: تہائی؟

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 3662
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن سعد، ان النبي صلى الله عليه وسلم عاده في مرضه، فقال: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: فالشطر؟ قال:" لا"، قال: فالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير او كبير".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، کہا: آدھے کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، کہا: تہائی کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کی کر دو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3906)، مسند احمد (1/172) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3663
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن الوليد الفحام، قال: حدثنا محمد بن ربيعة، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى سعدا يعوده، فقال له سعد: يا رسول الله، اوصي بثلثي مالي؟ قال:" لا"، قال: فاوصي بالنصف؟ قال:" لا"، قال: فاوصي بالثلث؟ قال:" نعم، الثلث، والثلث كثير او كبير، إنك ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم فقراء يتكففون".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْفَحَّامُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى سَعْدًا يَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ فُقَرَاءَ يَتَكَفَّفُونَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے پاس آئے، سعد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنے مال کے دو تہائی حصے اللہ کی راہ میں دے دینے کا حکم (یعنی اجازت) دے دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: تو پھر ایک تہائی کی وصیت کر دیتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی ہو سکتا ہے، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے، (آپ نے مزید فرمایا) اگر تم اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر (اس دنیا سے) جاؤ تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تم انہیں فقیر بنا کر جاؤ کہ وہ (دوسروں کے سامنے) ہاتھ پھیلاتے پھریں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17234) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3664
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: لو غض الناس إلى الربع، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الثلث، والثلث كثير او كبير".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبُعِ، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ اگر وصیت کو ایک چوتھائی تک کم کریں (تو مناسب ہے) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 3 (2743)، صحیح مسلم/الوصایا 1 (1629)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 5 (2711)، (تحفة الأشراف: 5876)، مسند احمد (1/230، 233) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 3665
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا حجاج بن المنهال، قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن محمد بن سعد، عن ابيه سعد بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءه وهو مريض، فقال: إنه ليس لي ولد إلا ابنة واحدة، فاوصي بمالي كله؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا"، قال: فاوصي بنصفه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا"، قال: فاوصي بثلثه؟ قال:" الثلث، والثلث كثير".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِي وَلَدٌ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِنِصْفِهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِثُلُثِهِ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کر دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3927)، مسند احمد (1/172، 173)، سنن الدارمی/الوصیة 7 (3238) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سعد بن مالک ہی سعد بن ابی وقاص ہیں، والد کا نام مالک اور کنیت ابوسعد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 3666
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا القاسم بن زكريا بن دينار، قال: حدثنا عبيد الله، عن شيبان، عن فراس، عن الشعبي، قال: حدثني جابر بن عبد الله، ان اباه استشهد يوم احد، وترك ست بنات، وترك عليه دينا، فلما حضر جداد النخل، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت:" قد علمت ان والدي استشهد يوم احد، وترك دينا كثيرا، وإني احب ان يراك الغرماء، قال:" اذهب، فبيدر كل تمر على ناحية، ففعلت، ثم دعوته، فلما نظروا إليه كانما اغروا بي تلك الساعة، فلما راى ما يصنعون اطاف حول اعظمها بيدرا ثلاث مرات، ثم جلس عليه، ثم قال: ادع اصحابك، فما زال يكيل لهم حتى ادى الله امانة والدي، وانا راض ان يؤدي الله امانة والدي لم تنقص تمرة واحدة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:" قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ، قَالَ:" اذْهَبْ، فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ دَعَوْتُهُ، فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّمَا أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ أَصْحَابَكَ، فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَأَنَا رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ ان کے والد ۱؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہو گئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور ہر ڈھیر الگ الگ کر دو، تو میں نے (ایسا ہی) کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس گھڑی گویا وہ لوگ مجھ پر اور بھی زیادہ غصہ ہو گئے ۲؎ جب آپ نے ان لوگوں کی حرکتیں جو وہ کر رہے تھے دیکھیں تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے اردگرد تین چکر لگائے پھر اسی ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ جب وہ لوگ آ گئے تو آپ انہیں برابر (ان کے مطالبے کے بقدر) ناپ ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کرا دی اور میں اس پر راضی و خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت ادا کر دی اور ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 51 (2127)، الاستقراض 8 (2395)، 18 (2405)، الہبة 21 (2601)، الوصایا 36 (2781)، المناقب 25 (3580)، المغازي 18 (4053)، (تحفة الأشراف: 2344)، ویأتی فیما یلي: 3667، 3668 و3670 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی الله عنہ۔ ۲؎: یعنی اپنا اپنا مطالبہ لے کر شور برپا کرنے لگے کہ ہمیں دو، ہمارا حساب پہلے چکتا کرو وغیرہ وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
4. بَابُ: قَضَاءِ الدَّيْنِ قَبْلَ الْمِيرَاثِ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ جَابِرٍ فِيهِ
4. باب: میراث کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی کا بیان اور اس سلسلہ میں جابر رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف الفاظ کا ذکر۔
Chapter: Paying Off Debts Before Distributing Inheritance And Mentioning The Difference In The Wordings Of Th
حدیث نمبر: 3667
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن محمد بن سلام، قال: حدثنا إسحاق وهو الازرق , قال: حدثنا زكريا، عن الشعبي، عن جابر، ان اباه توفي وعليه دين فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت:" يا رسول الله، إن ابي توفي وعليه دين، ولم يترك إلا ما يخرج نخله، ولا يبلغ ما يخرج نخله ما عليه من الدين دون سنين، فانطلق معي يا رسول الله، لكي لا يفحش علي الغرام،" فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يدور بيدرا بيدرا، فسلم حوله، ودعا له، ثم جلس عليه، ودعا الغرام، فاوفاهم، وبقي مثل ما اخذوا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق وَهُوَ الْأَزْرَقُ , قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، وَلَمْ يَتْرُكْ إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ مَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ دُونَ سِنِينَ، فَانْطَلِقْ مَعِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِكَيْ لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَّامُ،" فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدُورُ بَيْدَرًا بَيْدَرًا، فَسَلَّمَ حَوْلَهُ، وَدَعَا لَهُ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا الْغُرَّامَ، فَأَوْفَاهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَخَذُوا".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد انتقال کر گئے اور ان پر قرض تھا اور کھجوروں کے باغ کی آمدنی کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور کئی سالوں کی باغ کی آمدنی کے بغیر یہ قرض ادا نہ ہو سکے گا، اللہ کے رسول! میرے ساتھ چلئے تاکہ قرض خواہ لوگ مجھے برا بھلا نہ کہیں، چنانچہ آپ کھجور کی ایک ایک ڈھیر کے اردگرد گھومے اور اس کے آس پاس سلام کیا اس کے لیے دعا فرمائی اور پھر اسی پر بیٹھ گئے اور قرض خواہوں کو بلایا اور انہیں (ان کا حق) پورا پورا دیا اور جتنا وہ لے گئے اتنا ہی بچ رہا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 3668
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا جرير، عن مغيرة، عن الشعبي، عن جابر، قال:" توفي عبد الله بن عمرو بن حرام، قال: وترك دينا، فاستشفعت برسول الله صلى الله عليه وسلم على غرمائه، ان يضعوا من دينه شيئا، فطلب إليهم، فابوا، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: اذهب فصنف تمرك اصنافا العجوة على حدة، وعذق ابن زيد على حدة واصنافه، ثم ابعث إلي، قال: ففعلت، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجلس في اعلاه، او في اوسطه، ثم قال: كل للقوم، قال: فكلت لهم حتى اوفيتهم، ثم بقي تمري كان لم ينقص منه شيء".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ، قَالَ: وَتَرَكَ دَيْنًا، فَاسْتَشْفَعْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى غُرَمَائِهِ، أَنْ يَضَعُوا مِنْ دَيْنِهِ شَيْئًا، فَطَلَبَ إِلَيْهِمْ، فَأَبَوْا، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَكَ أَصْنَافًا الْعَجْوَةَ عَلَى حِدَةٍ، وَعِذْقَ ابْنِ زَيْدٍ عَلَى حِدَةٍ وَأَصْنَافَهُ، ثُمَّ ابْعَثْ إِلَيَّ، قَالَ: فَفَعَلْتُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ فِي أَعْلَاهُ، أَوْ فِي أَوْسَطِهِ، ثُمَّ قَالَ: كِلْ لِلْقَوْمِ، قَالَ: فَكِلْتُ لَهُمْ حَتَّى أَوْفَيْتُهُمْ، ثُمَّ بَقِيَ تَمْرِي كَأَنْ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْءٌ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ انتقال فرما کر گئے اور (اپنے ذمہ لوگوں کا) قرض چھوڑ گئے تو میں نے ان کے قرض خواہوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرض میں کچھ کمی کر دینے کی سفارش کرائی تو آپ نے ان سے کم کرانے کی گزارش کی، لیکن وہ نہ مانے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کو الگ الگ کر دو، عجوہ کو علیحدہ رکھو اور عذق بن زید اور دوسری قسموں کو الگ الگ کرے کے رکھو۔ پھر مجھے بلاؤ، تو میں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور سب سے اونچی والی ڈھیر پر یا بیچ والی ڈھیر پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے فرمایا: لوگوں کو ناپ ناپ کر دو، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں انہیں ناپ ناپ کر دینے لگا یہاں تک کہ میں نے سبھی کو پورا پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچی رہیں، ایسا لگتا تھا کہ میری کھجوروں میں کچھ بھی کمی نہیں آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3666 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 3669
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن يونس بن محمد حرمي، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا حماد، عن عمار بن ابي عمار، عن جابر بن عبد الله، قال:" كان ليهودي على ابي تمر، فقتل يوم احد، وترك حديقتين، وتمر اليهودي يستوعب ما في الحديقتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هل لك ان تاخذ العام نصفه، وتؤخر نصفه؟ فابى اليهودي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: هل لك ان تاخذ الجداد فآذني؟ فآذنته، فجاء هو، وابو بكر، فجعل يجد ويكال من اسفل النخل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو بالبركة حتى وفيناه جميع حقه من اصغر الحديقتين، فيما يحسب عمار، ثم اتيتهم برطب وماء، فاكلوا وشربوا، ثم قال: هذا من النعيم الذي تسالون عنه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ لِيَهُودِيٍّ عَلَى أَبِي تَمْرٌ، فَقُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ حَدِيقَتَيْنِ، وَتَمْرُ الْيَهُودِيِّ يَسْتَوْعِبُ مَا فِي الْحَدِيقَتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ الْعَامَ نِصْفَهُ، وَتُؤَخِّرَ نِصْفَهُ؟ فَأَبَى الْيَهُودِيُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ الْجِدَادَ فَآذِنِّي؟ فَآذَنْتُهُ، فَجَاءَ هُوَ، وَأَبُو بَكْرٍ، فَجَعَلَ يُجَدُّ وَيُكَالُ مِنْ أَسْفَلِ النَّخْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِالْبَرَكَةِ حَتَّى وَفَيْنَاهُ جَمِيعَ حَقِّهِ مِنْ أَصْغَرِ الْحَدِيقَتَيْنِ، فِيمَا يَحْسِبُ عَمَّارٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُمْ بِرُطَبٍ وَمَاءٍ، فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا، ثُمَّ قَالَ: هَذَا مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد کے ذمہ ایک یہودی کی کھجوریں تھیں، اور وہ جنگ احد میں قتل کر دیے گئے اور کھجوروں کے دو باغ چھوڑ گئے، یہودی کی کھجوریں دو باغوں کی کھجوریں ملا کر پوری پڑ رہی تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہودی سے) فرمایا: کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم اس سال اپنے قرض کا آدھا لے لو اور آدھا دیر کر کے (اگلے سال) لے لو؟، یہودی نے (ایسا کرنے سے) انکار کر دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے فرمایا:) کیا تم پھل توڑتے وقت مجھے خبر کر سکتے ہو؟، تو میں نے آپ کو پھل توڑتے وقت خبر کر دی تو آپ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور (کھجور کے) نیچے سے نکال کر الگ کرنے اور ناپ ناپ کر دینے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برکت کی دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ چھوٹے باغ ہی کے پھلوں سے اس کے پورے قرض کی ادائیگی کر دی، پھر میں ان دونوں حضرات کے پاس (بطور تواضع) تازہ کھجوریں اور پانی لے کر آیا، تو ان لوگوں نے کھایا پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے متعلق تم لوگوں سے پوچھ تاچھ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2501)، مسند احمد 3/338، 351، 391) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3670
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، عن حديث عبد الوهاب، قال: حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، قال:" توفي ابي وعليه دين، فعرضت على غرمائه ان ياخذوا الثمرة بما عليه، فابوا ولم يروا فيه وفاء، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، قال: إذا جددته فوضعته في المربد فآذني , فلما جددته ووضعته في المربد اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء ومعه ابو بكر وعمر، فجلس عليه، ودعا بالبركة، ثم قال: ادع غرماءك، فاوفهم، قال: فما تركت احدا له على ابي دين إلا قضيته، وفضل لي ثلاثة عشر وسقا، فذكرت ذلك له، فضحك وقال: ائت ابا بكر وعمر فاخبرهما ذلك، فاتيت ابا بكر وعمر فاخبرتهما، فقالا: قد علمنا إذ صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما صنع انه سيكون ذلك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا الثَّمَرَةَ بِمَا عَلَيْهِ، فَأَبَوْا وَلَمْ يَرَوْا فِيهِ وَفَاءً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: إِذَا جَدَدْتَهُ فَوَضَعْتَهُ فِي الْمِرْبَدِ فَآذِنِّي , فَلَمَّا جَدَدْتُهُ وَوَضَعْتُهُ فِي الْمِرْبَدِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ غُرَمَاءَكَ، فَأَوْفِهِمْ، قَالَ: فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلَّا قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ لِي ثَلَاثَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَضَحِكَ وَقَالَ: ائْتِ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَخْبِرْهُمَا ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُمَا، فَقَالَا: قَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا صَنَعَ أَنَّهُ سَيَكُونُ ذَلِكَ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد (غزوہ احد میں) انتقال کر گئے اور ان کے ذمہ قرض تھا تو میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ والد کے ذمہ ان کا جو حق ہے اس کے بدلے (ہمارے باغ کی) کھجوریں لے لیں تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا، وہ سمجھتے تھے کہ اتنی کھجوریں ان کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کھجوریں توڑ کر کھلیان میں رکھ دو تو مجھے خبر کرو، چنانچہ جب میں نے کھجوریں توڑ کر انہیں کھلیان میں رکھ دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور آپ کو بتایا) آپ آئے، آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، آپ اس پر بیٹھ گئے اور برکت کی دعا فرمائی پھر فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور انہیں ان کا حق پورا پورا دیتے جاؤ تو میں نے کسی کو بھی جس کا میرے باپ پر قرض تھا نہیں چھوڑا، سب کو اس کا پورا پورا حق دے دیا اور میرے لیے تیرہ وسق کھجوریں بھی بچ رہیں، جب میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے اور فرمایا: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور انہیں بھی یہ بات بتاؤ، تو میں نے ان دونوں کو بھی اس بات کی خبر دی، تو ان دونوں نے کہا: جب ہم نے آپ کو وہ کرتے دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تو ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإستقراض 9 (2396)، الصلح 13 (2709)، سنن ابی داود/الوصایا 17 (2884)، مختصراً سنن ابن ماجہ/الصدقات 20 (2434)، تحفة الأشراف: 3126) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.