(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن منصور، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا سفيان، عن فراس، عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد الله في رجل تزوج امراة، فمات ولم يدخل بها، ولم يفرض لها، قال: لها الصداق , وعليها العدة , ولها الميراث، فقال معقل بن سنان: فقد سمعت النبي صلى الله عليه وسلم" قضى به في بروع بنت واشق، (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَمَاتَ وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا، قَالَ: لَهَا الصَّدَاقُ , وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ , وَلَهَا الْمِيرَاثُ، فَقَالَ مَعِقْلُ بْنُ سِنَانٍ: فقد سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَضَى بِهِ فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ،
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے ایک عورت سے شادی کی پھر مر گیا نہ اس سے خلوت کی تھی اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیا تھا۔ تو اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا: اس عورت کا مہر (مہر مثل) ہو گا۔ اسے عدت گزارنی ہو گی اور اسے میراث ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بروع بنت واشق کے معاملہ میں ایسا ہی فیصلہ کرتے سنا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا علي بن مسهر، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن علقمة، عن عبد الله، انه اتاه قوم , فقالوا: إن رجلا منا تزوج امراة، ولم يفرض لها صداقا ولم يجمعها إليه حتى مات: فقال عبد الله ما سئلت منذ فارقت رسول الله صلى الله عليه وسلم اشد علي من هذه فاتوا غيري، فاختلفوا إليه فيها شهرا، ثم قالوا له في آخر ذلك: من نسال إن لم نسالك وانت من جلة اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم بهذا البلد ولا نجد غيرك؟ قال: ساقول فيها بجهد رايي، فإن كان صوابا، فمن الله وحده لا شريك له، وإن كان خطا فمني ومن الشيطان، والله ورسوله منه برآء،" ارى ان اجعل لها صداق نسائها لا وكس، ولا شطط ولها الميراث وعليها العدة اربعة اشهر وعشرا، قال: وذلك بسمع اناس من اشجع فقاموا، فقالوا نشهد انك قضيت بما قضى به رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراة منا يقال لها بروع بنت واشق" , قال: فما رئي عبد الله فرح فرحة يومئذ إلا بإسلامه. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أَتَاهُ قَوْمٌ , فَقَالُوا: إِنَّ رَجُلًا مِنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَةً، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ يَجْمَعْهَا إِلَيْهِ حَتَّى مَاتَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَا سُئِلْتُ مُنْذُ فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ هَذِهِ فَأْتُوا غَيْرِي، فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ فِيهَا شَهْرًا، ثُمَّ قَالُوا لَهُ فِي آخِرِ ذَلِكَ: مَنْ نَسْأَلُ إِنْ لَمْ نَسْأَلْكَ وَأَنْتَ مِنْ جِلَّةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْبَلَدِ وَلَا نَجِدُ غَيْرَكَ؟ قَالَ: سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْيِي، فَإِنْ كَانَ صَوَابًا، فَمِنَ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآءُ،" أُرَى أَنْ أَجْعَلَ لَهَا صَدَاقَ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ، وَلَا شَطَطَ وَلَهَا الْمِيرَاثُ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَ: وَذَلِكَ بِسَمْعِ أُنَاسٍ مَنْ أَشْجَعَ فَقَامُوا، فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَضَيْتَ بِمَا قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِقٍ" , قَالَ: فَمَا رُئِيَ عَبْدُ اللَّهِ فَرِحَ فَرْحَةً يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِإِسْلَامِهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا: ہم میں سے ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی، نہ اس کا مہر مقرر کیا، نہ اس سے خلوت کی اور مر گیا (اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟)، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑا ہے (یعنی آپ کے انتقال کے بعد) اس سے زیادہ ٹیڑھا اور مشکل سوال مجھ سے نہیں کیا گیا ہے۔ تو تم لوگ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ (اور اس سے فتویٰ پوچھ لو)، لیکن وہ لوگ اس مسئلہ کے سلسلے میں مہینہ بھر ان کا پیچھا کرتے رہے بالآخر انہوں نے ان سے کہا: اگر آپ سے نہ پوچھیں تو پھر کس سے پوچھیں! آپ اس شہر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں، آپ کے سوا ہم کسی اور کو نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا: (جب ایسی بات ہے) تو میں اپنی عقل و رائے سے اس بارے میں بتاتا ہوں، اگر میری بات درست ہو تو سمجھو یہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب سے ہے اور اگر غلط ہو تو سمجھو کہ وہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے، اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں، میں اس کے لیے مہر مثل کا فتویٰ دیتا ہوں نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث ملے گی اور وہ چار مہینہ دس دن کی عدت گزارے گی۔ یہ مسئلہ اشجع قبیلہ کے چند لوگوں نے سنا تو کھڑے ہو کر کہنے لگے: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ویسا ہی فیصلہ کیا ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری قوم کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا تھا۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (اپنا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے موافق ہو جانے کے باعث) اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ اسلام لانے کے وقت کی خوشی کے سوا اس سے زیادہ خوش کبھی نہ دیکھے گئے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا هارون بن عبد الله، قال: حدثنا معن، قال: حدثنا مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امراة، فقالت: يا رسول الله إني قد وهبت نفسي لك، فقامت قياما طويلا، فقام رجل فقال: زوجنيها إن لم يكن لك بها حاجة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل عندك شيء" قال: ما اجد شيئا، قال:" التمس ولو خاتما من حديد"، فالتمس، فلم يجد شيئا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل معك من القرآن شيء" قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا لسور سماها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد زوجتكها على ما معك من القرآن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ، فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ عِنْدَكَ شَيْءٌ" قَالَ: مَا أَجِدُ شَيْئًا، قَالَ:" الْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ"، فَالْتَمَسَ، فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ" قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ زَوَّجْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہنے لگی: اللہ کے رسول! میں نے اپنی ذات کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے (یہ کہہ کر) وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک شخص اٹھا اور آپ سے عرض کیا (اللہ کے رسول!) اگر آپ کو اسے رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو آپ میری شادی اس سے کرا دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کچھ ہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا: ”جاؤ ڈھونڈو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو (پاؤ تو اسے لے آؤ)، اس نے (جا کر) ڈھونڈا، اسے کچھ بھی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا تمہارے پاس قرآن کا بھی کچھ علم ہے؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، اس نے ان سورتوں کا نام لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جاؤ) میں نے تمہارا نکاح اس عورت کے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے“(تم اسے قرآن پڑھا دو اور یاد کرا دو)۔
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے متعلق جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا فرمایا: اگر اس کی بیوی نے لونڈی کو اس کے لیے حلال کیا تھا تو میں اسے (آدمی کو) سو کوڑے ماروں گا ۱؎، اور اگر اس (کی بیوی) نے حلال نہیں کیا تھا تو میں اسے سنگسار کر دوں گا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 28 (4458)، سنن الترمذی/الحدود 21 (1452)، سنن ابن ماجہ/الحدود 8 (2551)، (تحفة الأشراف: 11613)، مسند احمد (4/272، 273، 275، 276، 277)، سنن الدارمی/الحدود 20 (2375) (ضعیف) (اس کے راوی ”حبیب بن سالم‘‘ میں بہت کلام ہے، نیز خطابی کے بقول: نعمان رضی الله عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بغیر جائز صورت کے کسی کے لیے کسی کی شرمگاہ حلال نہیں ہوتی، اس لیے بطور تأدیب اسے سو کوڑے لگیں گے۔ ۲؎: اس لیے کہ اس نے شادی شدہ ہوتے ہوئے جرم زنا کا ارتکاب کیا۔ اکثر اہل علم کا عمل اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی بیوی کی لونڈی سے اگر جماع کرے تو اس پر حد نہیں پڑے گی۔ ان کا خیال ہے کہ نعمان بن بشیر کو اس مسئلہ میں دھوکا ہو گیا ہے، واللہ اعلم۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معمر، قال: حدثنا حبان، قال: حدثنا ابان، عن قتادة، عن خالد بن عرفطة، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، ان رجلا يقال له عبد الرحمن بن حنين وينبز قرقورا، انه وقع بجارية امراته، فرفع إلى النعمان بن بشير، فقال:" لاقضين فيها بقضية رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن كانت احلتها لك جلدتك، وإن لم تكن احلتها لك رجمتك بالحجارة، فكانت احلتها له فجلد مائة"، قال قتادة: فكتبت إلى حبيب بن سالم، فكتب إلي بهذا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُنَيْنٍ وَيُنْبَزُ قُرْقُورًا، أَنَّهُ وَقَعَ بِجَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَرُفِعَ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، فَقَالَ:" لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَكَ جَلَدْتُكَ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَكَ رَجَمْتُكَ بِالْحِجَارَةِ، فَكَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ فَجُلِدَ مِائَةً"، قَالَ قَتَادَةُ: فَكَتَبْتُ إِلَى حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، فَكَتَبَ إِلَيَّ بِهَذَا.
حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس کا نام عبدالرحمٰن بن حنین تھا اور لوگ اسے (برے لقب) «قرقور»۱؎ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ اپنی بیوی کی لونڈی سے صحبت (زنا) کر بیٹھا، یہ معاملہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: میں اس معاملے میں ویسا ہی فیصلہ دوں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا تھا، اگر بیوی نے اپنی باندی کو تیرے لیے حلال کر دیا تھا تب تو (تعزیراً) تجھے کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اسے تیرے لیے حلال نہیں کیا تھا تو تجھے سنگسار کر دوں گا۔ (پوچھنے پر پتہ لگا کہ) بیوی نے وہ لونڈی اس کے لیے حلال کر دی تھی تو اسے سو کوڑے مارے گئے۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے حبیب بن سالم کو (خط) لکھا تو انہوں نے مجھے یہی حدیث لکھ کر بھیجی۔
حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا فرمایا: ”اگر اس کی بیوی نے اسے اس کی اجازت دے دی تھی تو میں اسے سو کوڑے لگاؤں گا اور اگر اس نے اس کے لیے اسے حلال نہ کیا ہو گا تو میں اسے (یعنی شوہر کو) سنگسار کر دوں گا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن قتادة، عن الحسن، عن قبيصة بن حريث، عن سلمة بن المحبق، قال:" قضى النبي صلى الله عليه وسلم في رجل وطئ جارية امراته، إن كان استكرهها فهي حرة وعليه لسيدتها مثلها، وإن كانت طاوعته فهي له وعليه لسيدتها مثلها". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، قَالَ:" قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ وَطِئَ جَارِيَةَ امْرَأَتِهِ، إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَهِيَ حُرَّةٌ وَعَلَيْهِ لِسَيِّدَتِهَا مِثْلُهَا، وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَهِيَ لَهُ وَعَلَيْهِ لِسَيِّدَتِهَا مِثْلُهَا".
سلمہ بن محبق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا فیصلہ جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا تھا (اس طرح) فرمایا: اگر اس نے اس کے ساتھ زبردستی زنا کی ہے تو وہ لونڈی آزاد ہو جائے گی اور اس شخص کو اس لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہو گی اور اگر (مرد نے زبردستی نہیں کی بلکہ) لونڈی کی رضا مندی سے یہ کام ہوا تو یہ لونڈی اس (مرد) کی ہو جائے گی اور اس مرد کو لونڈی کی مالکہ کو اس جیسی لونڈی دینی ہو گی۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سلمة بن المحبق: ان رجلا غشي جارية لامراته، فرفع ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إن كان استكرهها فهي حرة من ماله، وعليه الشروى لسيدتها، وإن كانت طاوعته فهي لسيدتها ومثلها من ماله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ: أَنَّ رَجُلًا غَشِيَ جَارِيَةً لِامْرَأَتِهِ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَهِيَ حُرَّةٌ مِنْ مَالِهِ، وَعَلَيْهِ الشَّرْوَى لِسَيِّدَتِهَا، وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَهِيَ لِسَيِّدَتِهَا وَمِثْلُهَا مِنْ مَالِهِ".
سلمہ بن محبق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کیا، یہ قضیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر اس نے اس لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر (زبردستی زنا) کیا ہے تو یہ لونڈی اس کے مال سے آزاد ہو گی اور اسے اس جیسی دوسری لونڈی اس کی مالکہ کو دینی ہو گی اور اگر لونڈی نے اس کام میں مرد کا ساتھ دیا ہے (اور اس کی خوشی و رضا مندی سے یہ کام ہوا ہے) تو یہ لونڈی اپنی مالکہ (یعنی بیوی) ہی کی رہے گی اور اس (شوہر) کے مال سے اس جیسی دوسری لونڈی (خرید کر) اس کی مالکہ کو ملے گی“(گویا یہ پرائی عورت سے جماع کرنے کا جرمانہ ہے)۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن عبيد الله بن عمر، قال: حدثني الزهري، عن الحسن، وعبد الله ابني محمد، عن ابيهما: ان عليا بلغه ان رجلا لا يرى بالمتعة باسا، فقال: إنك تائه إنه" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، وعن لحوم الحمر الاهلية، يوم خيبر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابني محمد، عَنْ أَبِيهِمَا: أَنَّ عَلِيًّا بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا لَا يَرَى بِالْمُتْعَةِ بَأْسًا، فَقَالَ: إِنَّكَ تَائِهٌ إِنَّهُ" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، يَوْمَ خَيْبَرَ".
علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان کو اطلاع ملی کہ ایک شخص ۱؎ ہے جو متعہ میں کچھ حرج اور قباحت نہیں سمجھتا۔ علی رضی اللہ عنہ نے (اس سے) کہا تم گمراہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: ایک شخص سے مراد ابن عباس رضی الله عنہما ہیں، ممکن ہے متعہ سے متعلق ممانعت کی انہوں نے کوئی تأویل کی ہو یا اس ممانعت سے وہ باخبر نہ رہے ہوں کیونکہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب مغنی (۷؍۵۷۲) میں لکھا ہے: بیان کیا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔ (واللہ اعلم)