(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا يسوق بدنة، قال:" اركبها"، قال: يا رسول الله إنها بدنة، قال:" اركبها، ويلك" , في الثانية، او في الثالثة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً، قَالَ:" ارْكَبْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ:" ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ" , فِي الثَّانِيَةِ، أَوْ فِي الثَّالِثَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے اونٹ کو ہانک کر لے جا رہا ہے آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے کہا: اللہ کے رسول! ہدی کا اونٹ ہے۔ آپ نے (پھر) فرمایا: ”سوار ہو جاؤ“، تمہارا، برا ہو، راوی کو شک ہے «ويلك»”تمہارا برا ہو“۱؎ کا کلمہ آپ نے دوسری بار میں کہا یا تیسری بار میں۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبدة بن سليمان، قال: حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا يسوق بدنة، فقال:" اركبها" قال: إنها بدنة، قال:" اركبها" قال: إنها بدنة، قال في الرابعة: اركبها ويلك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ:" ارْكَبْهَا" قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ:" ارْكَبْهَا" قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ فِي الرَّابِعَةِ: ارْكَبْهَا وَيْلَكَ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کا اونٹ اپنے ساتھ ہانکے لیے جا رہا ہے، آپ نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے، آپ نے (پھر) فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“، اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے، آپ نے چوتھی مرتبہ فرمایا: ”سوار ہو جاؤ تیرا برا ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا حميد، عن ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى رجلا يسوق بدنة وقد جهده المشي، قال:" اركبها" قال: إنها بدنة، قال:" اركبها وإن كانت بدنة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً وَقَدْ جَهَدَهُ الْمَشْيُ، قَالَ:" ارْكَبْهَا" قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ:" ارْكَبْهَا وَإِنْ كَانَتْ بَدَنَةً".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہدی کا اونٹ لے جاتے دیکھا اور وہ تھک کر چور ہو چکا تھا آپ نے اس سے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ“ وہ کہنے لگا ہدی کا اونٹ ہے، آپ نے فرمایا: ”وار ہو جاؤ اگرچہ وہ ہدی کا اونٹ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 396) وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ الحج 65 (1323)، مسند احمد (3/99، 106) (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا ابن جريج، قال: اخبرني ابو الزبير، قال: سمعت جابر بن عبد الله يسال عن ركوب البدنة، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اركبها بالمعروف إذا الجئت إليها حتى تجد ظهرا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَسْأَلُ عَنْ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا".
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ان سے قربانی کے جانور پر سوار ہونے کے متعلق پوچھا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دستور کے مطابق اس کی سواری کر جب تم اس کے لیے مجبور کر دئیے جاؤ یہاں تک کہ دوسری سواری پا لو۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة، عن جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا الحج، فلما قدمنا مكة طفنا بالبيت، امر رسول الله صلى الله عليه وسلم من لم يكن ساق الهدي ان يحل، فحل من لم يكن ساق الهدي، ونساؤه لم يسقن، فاحللن، قالت عائشة: فحضت، فلم اطف بالبيت، فلما كانت ليلة الحصبة قلت: يا رسول الله: يرجع الناس بعمرة وحجة، وارجع انا بحجة، قال:" او ما كنت طفت ليالي قدمنا مكة؟" قلت: لا , قال:" فاذهبي مع اخيك إلى التنعيم، فاهلي بعمرة، ثم موعدك مكان كذا وكذا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نُرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ، فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ، فَأَحْلَلْنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحِضْتُ، فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ، قَالَ:" أَوَ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ؟" قُلْتُ: لَا , قَالَ:" فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانُ كَذَا وَكَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لوگ ہدی لے کر نہیں آئے تھے انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا تو جو ہدی نہیں لائے تھے حلال ہو گئے، آپ کی بیویاں بھی ہدی لے کر نہیں آئیں تھیں تو وہ بھی حلال ہو گئیں، تو مجھے حیض آ گیا (جس کی وجہ سے) میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، جب محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگ حج و عمرہ دونوں کر کے اپنے گھروں کو واپس جائیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی، آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے ان راتوں میں جن میں ہم مکہ آئے تھے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو تم اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ، وہاں عمرے کا تلبیہ پکارو، (اور طواف وغیرہ کر کے) واپس آ کر فلاں فلاں جگہ ہم سے ملو“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن يحيى، عن عمرة، عن عائشة، قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نرى إلا انه الحج، فلما دنونا من مكة،" امر رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان معه هدي ان يقيم على إحرامه، ومن لم يكن معه هدي ان يحل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ،" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ أَنْ يُقِيمَ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ أَنْ يَحِلَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، تو جب ہم مکہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے ساتھ ہدی تھی انہیں اپنے احرام پر قائم رہنے کا حکم دیا، اور جن کے ساتھ ہدی نہیں تھی انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا۔
(مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن علية، عن ابن جريج، قال: اخبرني عطاء، عن جابر، قال: اهللنا اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالحج خالصا ليس معه غيره خالصا وحده فقدمنا مكة صبيحة رابعة مضت من ذي الحجة، فامرنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" احلوا واجعلوها عمرة"، فبلغه عنا انا نقول: لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس، امرنا ان نحل، فنروح إلى منى ومذاكيرنا تقطر من المني، فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فخطبنا، فقال:" فقد بلغني الذي قلتم وإني لابركم واتقاكم ولولا الهدي لحللت، ولو استقبلت من امري ما استدبرت ما اهديت". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقدم علي من اليمن، فقال:" بما اهللت؟" قال بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" فاهد وامكث حراما كما انت". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وقال سراقة بن مالك بن جعشم: يا رسول الله ارايت عمرتنا هذه لعامنا هذا او للابد؟ قال:" هي للابد". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ غَيْرُهُ خَالِصًا وَحْدَهُ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَحِلُّوا وَاجْعَلُوهَا عُمْرَةً"، فَبَلَغَهُ عَنَّا أَنَّا نَقُولُ: لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، فَنَرُوحَ إِلَى مِنًى وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ مِنَ الْمَنِيِّ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَنَا، فَقَالَ:" فَقَدْ بَلَغَنِي الَّذِي قُلْتُمْ وَإِنِّي لَأَبَرُّكُمْ وَأَتْقَاكُمْ وَلَوْلَا الْهَدْيُ لَحَلَلْتُ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ:" بِمَا أَهْلَلْتَ؟" قَالَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا كَمَا أَنْتَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ عُمْرَتَنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا أَوْ لِلْأَبَدِ؟ قَالَ:" هِيَ لِلْأَبَدِ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے احرام کھول کر حلال ہو جائیں تو ہم منیٰ کو جائیں گے، اور ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو گی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ”جو بات تم لوگوں نے کہی ہے وہ مجھے معلوم ہو چکی ہے، میں تم سے زیادہ نیک اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہو گیا ہوتا، اگر جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے پہلے معلوم ہو گئی ہوتی تو میں ہدی ساتھ لے کر نہ آتا“۔ (اسی دوران) علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے، تو آپ نے ان سے پوچھا: ”تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟“ انہوں نے کہا: جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا ہے، آپ نے فرمایا: ”تم ہدی دو اور احرام باندھے رہو، جس طرح تم ہو“۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں بتائیے ہمارا یہ عمرہ اسی سال کے لیے ہے، یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے ہے“۔
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں بتائیے کیا ہمارا یہ عمرہ ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحج40 (2977)، (تحفة الأشراف: 3815)، مسند احمد (4/175) (صحیح)»
سراقہ بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ہم سب نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا۔ تو ہم نے عرض کیا: کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یہاں اصطلاحی تمتع مراد نہیں لغوی تمتع مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ عمرہ اور حج دونوں کا آپ نے فائدہ اٹھایا کیونکہ صحیح روایتوں سے آپ کا قارن ہونا ثابت ہے۔