انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، تو آپ نے ہمیں «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کی قرآت نہیں سنائی، اور ہمیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نے بھی نماز پڑھائی، تو ہم نے ان دونوں سے بھی اسے نہیں سنا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بسم اللہ سے متعلق زیادہ تر روایتیں آہستہ ہی پڑھنے کی ہیں، جو روایتیں زور (جہر) سے پڑھنے کی آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، سب سے عمدہ روایت نعیم المجمر کی ہے جس میں ہے «صليت وراء أبي هريرة فقرأ: بسم الله الرحمن الرحيم: ثم قرأ بأم القرآن» اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسے نعیم کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں، اس لیے ان کی روایت شاذ ہو گی، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ نعیم ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، اس لیے اس سے جہری پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ ان کی مخالفت ثقات نے کی ہے، اس لیے یہ تفرد غیر مقبول ہو گا۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی «بسم اللہ الرحمن الرحيم» زور سے پڑھتے نہیں سنا۔
عبداللہ بن مغفل کے بیٹے کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ جب ہم میں سے کسی سے «بسم اللہ الرحمن الرحيم» پڑھتے ہوئے سنتے تو کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی «بسم اللہ الرحمن الرحيم» پڑھتے نہیں سنا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 66 (244)، سنن ابن ماجہ/إقامة 4 (815)، (تحفة الأشراف: 9667)، مسند احمد 4/85 و 5/54، 55 (ضعیف) (بعض ائمہ نے ”ابن عبداللہ بن مغفل‘ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جب کہ حافظ مزی نے ان کا نام ’’یزید‘‘ لکھا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ’’صدوق‘‘ کہا ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی زور سے پڑھتے نہیں سنا، نہ کہ بالکل پڑھتے ہی نہیں تھے (دیکھئیے پچھلی دونوں حدیثیں)۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن، انه سمع ابا السائب مولى هشام بن زهرة يقول: سمعت ابا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج هي خداج هي خداج غير تمام"، فقلت يا ابا هريرة: إني احيانا اكون وراء الإمام فغمز ذراعي وقال: اقرا بها يا فارسي في نفسك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يقول الله عز وجل:" قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرءوا يقول العبد الحمد لله رب العالمين يقول الله عز وجل:" حمدني عبدي" يقول العبد: الرحمن الرحيم يقول الله عز وجل اثنى علي عبدي يقول العبد:" مالك يوم الدين يقول الله عز وجل مجدني عبدي يقول العبد إياك نعبد وإياك نستعين فهذه الآية بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال يقول العبد اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين فهؤلاء لعبدي ولعبدي ما سال". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ"، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" حَمِدَنِي عَبْدِي" يَقُولُ الْعَبْدُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ:" مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوسائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں“، میں نے پوچھا: ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سورۃ فاتحہ پڑھو، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے ۲؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ «اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“۔
وضاحت: ۱؎: صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ۲؎: اسی سے مؤلف نے سورۃ فاتحہ میں «بسم الله الرحمن الرحيم» نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ ”اصل سورۃ فاتحہ“ تو «الحمد للہ» سے ہے، اور رہا پڑھنا «بسم الله» ‘ تو ہر سورۃ کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل، اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی، کیونکہ «لاء» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہٰذا جز یا کُل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب (زیادہ قریب) اور کمال ذات سے ابعد (زیادہ دور) ہے، اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد (بعید تر) ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 911 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع «ید»(ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے «لا تقطع الید إلا فی ربع دینار فصاعدا»”چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا“ یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہٰذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ”اس شخص کی صلاۃ نہیں ہو گی جس نے سورۃ فاتحہ سے کم پڑھا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك المخرمي قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن عمار بن رزيق، عن عبد الله بن عيسى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده جبريل عليه السلام إذ سمع نقيضا فوقه فرفع جبريل عليه السلام بصره إلى السماء فقال:" هذا باب قد فتح من السماء ما فتح قط قال: فنزل منه ملك فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ابشر بنورين اوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك فاتحة الكتاب وخواتيم سورة البقرة لم تقرا حرفا منهما إلا اعطيته". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قال: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام إِذْ سَمِعَ نَقِيضًا فَوْقَهُ فَرَفَعَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ:" هَذَا بَابٌ قَدْ فُتِحَ مِنَ السَّمَاءِ مَا فُتِحَ قَطُّ قَالَ: فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَمْ تَقْرَأْ حَرْفًا مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام ایک ساتھ ہی تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے اوپر دروازہ کھلنے کی آواز سنی، تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا: یہ آسمان کا ایک دروازہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: مبارک ہو! آپ کو دو نور دیا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں، ان دونوں میں سے ایک حرف بھی تم پڑھو گے تو (اس کا ثواب) تمہیں ضرور دیا جائے گا۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث، عن ابي سعيد بن المعلى، ان النبي صلى الله عليه وسلم مر به وهو يصلي فدعاه قال: فصليت، ثم اتيته فقال:" ما منعك ان تجيبني" قال كنت اصلي قال: الم يقل الله عز وجل يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24" الا اعلمك اعظم سورة قبل ان اخرج من المسجد قال: فذهب ليخرج قلت يا رسول الله قولك قال:" الحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني الذي اوتيت والقرآن العظيم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قال: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَدَعَاهُ قَالَ: فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي" قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ: فَذَهَبَ لِيَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْلَكَ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي الَّذِي أُوتِيتُ وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ".
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟“ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم»”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو“(الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟“ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے، اور یہی «سبع المثاني»۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة 1 (4474)، تفسیر الأنفال 3 (4647)، تفسیر الحجر 3 (4703)، فضائل القرآن 9 (5006)، سنن ابی داود/الصلاة 350 (1458)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3785)، (تحفة الأشراف: 12047)، مسند احمد 3/450، 4 (211)، سنن الدارمی/الصلاة 172 (1533)، فضائل القرآن 12 (3414)، موطا امام مالک/ الصلاة 8 (37) من حدیث أبی بن کعب (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سورۃ فاتحہ کا نام «سبع المثاني» ہے، «سبع» اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور «مثانی» اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو رات میں اتاری ہے اور نہ انجیل میں، یہی «سبع المثاني» ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے بیچ بٹی ہوئی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر الحجر (3125)، (تحفة الأشراف: 77)، مسند احمد 5/114، سنن الدارمی/الفضائل 12 (3415) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور وہ یہ ہیں: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، ہود اور یونس، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول سند میں شریک ضعیف ہیں، نیز ابواسحاق بیہقی مدلس و مختلط لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1459) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 327