سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
22. بَابُ : تَرْكِ الْجَهْرِ بِـ { بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ }
باب: «بسم اللہ الرحمن الرحیم» زور سے نہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 907
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، قال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قال:" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُسْمِعْنَا قِرَاءَةَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1وَصَلَّى بِنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُمَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، تو آپ نے ہمیں «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کی قرآت نہیں سنائی، اور ہمیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نے بھی نماز پڑھائی، تو ہم نے ان دونوں سے بھی اسے نہیں سنا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1605) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: بسم اللہ سے متعلق زیادہ تر روایتیں آہستہ ہی پڑھنے کی ہیں، جو روایتیں زور (جہر) سے پڑھنے کی آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، سب سے عمدہ روایت نعیم المجمر کی ہے جس میں ہے «صليت وراء أبي هريرة فقرأ: بسم الله الرحمن الرحيم: ثم قرأ بأم القرآن» اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسے نعیم کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں، اس لیے ان کی روایت شاذ ہو گی، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ نعیم ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، اس لیے اس سے جہری پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ ان کی مخالفت ثقات نے کی ہے، اس لیے یہ تفرد غیر مقبول ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح