(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي الاسود، حدثنا ابو ضمرة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" استاذن العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيت بمكة ليالي منى من اجل سقايته، فاذن له".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال:" اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيتَ بمكة لَيَالِيَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن ابی الاسود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پانی (زمزم کا حاجیوں کو) پلانے کے لیے منیٰ کے دنوں میں مکہ ٹھہرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔
Narrated Ibn `Umar: Al `Abbas bin `Abdul-Muttalib asked the permission of Allah's Apostle to let him stay in Mecca during the nights of Mina in order to provide the pilgrims with water to drink, so the Prophet permitted him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 699
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى السقاية فاستسقى، فقال العباس: يا فضل، اذهب إلى امك، فات رسول الله صلى الله عليه وسلم بشراب من عندها، فقال: اسقني، قال: يا رسول الله، إنهم يجعلون ايديهم فيه، قال: اسقني، فشرب منه، ثم اتى زمزم وهم يسقون ويعملون فيها، فقال: اعملوا فإنكم على عمل صالح، ثم قال: لولا ان تغلبوا لنزلت حتى اضع الحبل على هذه يعني عاتقه، واشار إلى عاتقه".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ إِلَى السِّقَايَةِ فَاسْتَسْقَى، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا فَضْلُ، اذْهَبْ إِلَى أُمِّكَ، فَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ مِنْ عِنْدِهَا، فَقَالَ: اسْقِنِي، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَجْعَلُونَ أَيْدِيَهُمْ فِيهِ، قَالَ: اسْقِنِي، فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ وَهُمْ يَسْقُونَ وَيَعْمَلُونَ فِيهَا، فَقَالَ: اعْمَلُوا فَإِنَّكُمْ عَلَى عَمَلٍ صَالِحٍ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا لَنَزَلْتُ حَتَّى أَضَعَ الْحَبْلَ عَلَى هَذِهِ يَعْنِي عَاتِقَهُ، وَأَشَارَ إِلَى عَاتِقِهِ".
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پلانے کی جگہ (زمزم کے پاس) تشریف لائے اور پانی مانگا (حج کے موقع پر) عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فضل! اپنی ماں کے یہاں جا اور ان کے یہاں سے کھجور کا شربت لا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے (یہی) پانی پلاؤ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہر شخص اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہتے رہے کہ مجھے (یہی) پانی پلاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا پھر زمزم کے قریب آئے۔ لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں دیکھ کر) فرمایا کام کرتے جاؤ کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا (اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ آئندہ لوگ) تمہیں پریشان کر دیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے اس پر رکھ لیتا۔ مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانہ سے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا۔
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle came to the drinking place and asked for water. Al-Abbas said, "O Fadl! Go to your mother and bring water from her for Allah's Apostle ." Allah's Apostle said, "Give me water to drink." Al-Abbas said, "O Allah's Apostle! The people put their hands in it." Allah's Apostle again said, 'Give me water to drink. So, he drank from that water and then went to the Zamzam (well) and there the people were offering water to the others and working at it (drawing water from the well). The Prophet then said to them, "Carry on! You are doing a good deed." Then he said, "Were I not afraid that other people would compete with you (in drawing water from Zamzam), I would certainly take the rope and put it over this (i.e. his shoulder) (to draw water)." On saying that the Prophet pointed to his shoulder.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 700
(مرفوع) وقال عبدان: اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، قال انس بن مالك: كان ابو ذر رضي الله عنه يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فرج سقفي وانا بمكة، فنزل جبريل عليه السلام ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فافرغها في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج إلى السماء الدنيا، قال جبريل لخازن السماء الدنيا: افتح، قال: من هذا؟ قال: جبريل(مرفوع) وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فُرِجَ سَقْفِي وَأَنَا بمكة، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ
اور عبدان نے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری (گھر کی) چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبرائیل علیہ السلام نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل!۔
Narrated Anas bin Malik that Abu Dhar said: Allah's Messenger (saws) said, "The roof of my house was made open while I was at Makkah (on the night of Mi'raj) and Jibril descended. He opened up my chest and washed it with the water of Zamzam. The he brought the golden tray full of Wisdom and Belief and poured it in my chest and then closed it. The he took hold of my hand and ascended to the nearest heaven. Jibril told the gatekeeper of the nearest heaven to open the gate. The gatekeeper asked, "Who is it?" Jibril replied, "I am Jibril." (See Hadith No. 349 Vol.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 701
(مرفوع) حدثنا محمد هو ابن سلام، اخبرنا الفزاري، عن عاصم، عن الشعبي، ان ابن عباس رضي الله عنهما حدثه، قال:" سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم، فشرب وهو قائم" , قال عاصم: فحلف عكرمة، ما كان يومئذ إلا على بعير.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَهُ، قال:" سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ" , قَالَ عَاصِمٌ: فَحَلَفَ عِكْرِمَةُ، مَا كَانَ يَوْمَئِذٍ إِلَّا عَلَى بَعِيرٍ.
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبر دی، انہیں عاصم نے اور انہیں شعبی نے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کھڑے ہو کر پیا تھا۔ عاصم نے بیان کیا کہ عکرمہ نے قسم کھا کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔
Narrated Ibn `Abbas: I gave Zamzam water to Allah's Apostle and he drank it while standing. 'Asia (a sub-narrator) said that `Ikrima took the oath that on that day the Prophet had not been standing but riding a camel.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 701
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها،" خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع فاهللنا بعمرة، ثم قال: من كان معه هدي، فليهل بالحج والعمرة، ثم لا يحل حتى يحل منهما، فقدمت بمكة وانا حائض، فلما قضينا حجنا ارسلني مع عبد الرحمن إلى التنعيم فاعتمرت، فقال صلى الله عليه وسلم: هذه مكان عمرتك، فطاف الذين اهلوا بالعمرة، ثم حلوا، ثم طافوا طوافا آخر بعد ان رجعوا من منى، واما الذين جمعوا بين الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا، فَقَدِمْتُ بمكة وَأَنَا حَائِضٌ، فَلَمَّا قَضَيْنَا حَجَّنَا أَرْسَلَنِي مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ مَكَانَ عُمْرَتِكِ، فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى، وَأَمَّا الَّذِينَ جَمَعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حجتہ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) نکلے اور ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے۔ ایسے لوگ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہوں گے۔ میں بھی مکہ آئی تھی لیکن مجھے حیض آ گیا تھا۔ اس لیے جب ہم نے حج کے کام پورے کر لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلہ میں ہے (جسے تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا) جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے سعی کے بعد احرام کھول دیا اور دوسرا طواف منٰی سے واپسی پر کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔
Narrated `Aisha: We set out with Allah's Apostle in the year of his Last Hajj and we mended (the Ihram) for `Umra. Then the Prophet said, "Whoever has a Hadi with him should assume Ihram for both Hajj and `Umra, and should not finish it till he performs both of the them (Hajj and `Umra)." When we reached Mecca, I had my menses. When we had performed our Hajj, the Prophet sent me with `Abdur-Rahman to Tan`im and I performed the `Umra. The Prophet said, "This is in lieu of your missed `Umra." Those who had assumed Ihram for `Umra performed Tawaf (between Safa and Marwa) and then finished their Ihram. And then they performed another Tawaf (between Safa and Marwa) after returning from Mina. And those who had assumed lhram for Hajj and `Umra to get her ( Hajj-Qiran ) performed only one Tawaf (between Safa and Marwa).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 702
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن علية، عن ايوب، عن نافع ان ابن عمر رضي الله عنهما، دخل ابنه عبد الله بن عبد الله وظهره في الدار، فقال:" إني لا آمن ان يكون العام بين الناس قتال فيصدوك عن البيت فلو اقمت، فقال: قد خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فإن حيل بيني وبينه افعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، ثم قال: اشهدكم اني قد اوجبت مع عمرتي حجا، قال: ثم قدم فطاف لهما طوافا واحدا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، دَخَلَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَظَهْرُهُ فِي الدَّارِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ فَيَصُدُّوكَ عَنْ البيت فَلَوْ أَقَمْتَ، فَقَالَ: قَدْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنهُ وَبَيْنَ البيت، فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ أَفْعَلُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، ثُمَّ قَالَ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، قَالَ: ثُمَّ قَدِمَ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہو جائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے (عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج (اپنے اوپر) واجب کر لیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔
Narrated Nafi`: `Abdullah bin `Abdullah bin `Umar and his riding animal entered the house of Ibn `Umar. He (the son of Ibn `Umar) said, "I fear that this year a battle might take place between the people and you might be prevented from going to the Ka`ba. I suggest that you should stay here." Ibn `Umar said, "Once Allah's Apostle set out for the pilgrimage, and the pagans of Quraish intervened between him and the Ka`ba. So, if the people intervened between me and the Ka`ba, I would do the same as Allah's Apostle had done . . . "Verily, in Allah's Apostle you have a good example." Then he added, "I make you a witness that I have intended to perform Hajj along with `Umra." After arriving at Mecca, Ibn `Umar performed one Tawaf only (between Safa and Marwa).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 703
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع،" ان ابن عمر رضي الله عنهما اراد الحج عام نزل الحجاج بابن الزبير، فقيل له: إن الناس كائن بينهم قتال وإنا نخاف ان يصدوك، فقال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، إذا اصنع كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني اشهدكم اني قد اوجبت عمرة، ثم خرج حتى إذا كان بظاهر البيداء، قال: ما شان الحج والعمرة إلا واحد، اشهدكم اني قد اوجبت حجا مع عمرتي، واهدى هديا اشتراه بقديد ولم يزد على ذلك، فلم ينحر ولم يحل من شيء حرم منه، ولم يحلق ولم يقصر حتى كان يوم النحر فنحر وحلق، وراى ان قد قضى طواف الحج والعمرة بطوافه الاول , وقال ابن عمر رضي الله عنهما: كذلك فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ،" أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، إِذًا أَصْنَعَ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي، وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ , وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ جس سال حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اس سال حج کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے۔ پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز کیا جس سے (احرام کی وجہ سے) آپ رک گئے تھے۔ نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے دسویں تاریخ میں آپ نے قربانی کی اور بال منڈوائے۔ آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کر لیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
Narrated Nafi`: Ibn `Umar intended to perform Hajj in the year when Al-Hajjaj attacked Ibn Az-Zubair. Somebody said to Ibn `Umar, "There is a danger of an impending war between them." Ibn `Umar said, "Verily, in Allah's Apostle you have a good example. (And if it happened as you say) then I would do the same as Allah's Apostle had done. I make you witness that I have decided to perform `Umra." Then he set out and when he reached Al-Baida', he said, "The ceremonies of both Hajj and `Umra are similar. I make you witness that I have made Hajj compulsory for me along with `Umra." He drove (to Mecca) a Hadi which he had bought from (a place called) Qudaid and did not do more than that. He did not slaughter the Hadi or finish his Ihram, or shave or cut short his hair till the day of slaughtering the sacrifices (10th Dhul-Hijja). Then he slaughtered his Hadi and shaved his head and considered the first Tawaf (of Safa and Marwa) as sufficient for Hajj and `Umra. Ibn `Umar said, "Allah's Apostle did the same."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 704
(مرفوع) حدثنا احمد بن عيسى، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل القرشي، انه سال عروة بن الزبير، فقال: قد حج النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرتني عائشة رضي الله عنها انه اول شيء بدا به حين قدم انه توضا، ثم طاف بالبيت، ثم لم تكن عمرة، ثم حج ابو بكر رضي الله عنه فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم تكن عمرة، ثم عمر رضي الله عنه مثل ذلك، ثم حج عثمان رضي الله عنه فرايته اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم تكن عمرة، ثم معاوية وعبد الله بن عمر، ثم حججت مع ابي الزبير بن العوام فكان اول شيء بدا به الطواف بالبيت، ثم لم تكن عمرة، ثم رايت المهاجرين والانصار يفعلون ذلك، ثم لم تكن عمرة، ثم آخر من رايت فعل ذلك ابن عمر، ثم لم ينقضها عمرة، وهذا ابن عمر عندهم فلا يسالونه ولا احد ممن مضى ما كانوا يبدءون بشيء حتى يضعوا اقدامهم من الطواف بالبيت ثم لا يحلون، وقد رايت امي وخالتي حين تقدمان، لا تبتدئان بشيء اول من البيت تطوفان به، ثم إنهما لا تحلان.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْقُرَشِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: قَدْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً، ثُمَّ حَجَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً، ثُمَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ حَجَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَأَيْتُهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً، ثُمَّ مُعَاوِيَةُ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ثُمَّ حَجَجْتُ مَعَ أَبِي الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً، ثُمَّ رَأَيْتُ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ عُمْرَةً، ثُمَّ آخِرُ مَنْ رَأَيْتُ فَعَلَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ لَمْ يَنْقُضْهَا عُمْرَةً، وَهَذَا ابْنُ عُمَرَ عِنْدَهُمْ فَلَا يَسْأَلُونَهُ وَلَا أَحَدٌ مِمَّنْ مَضَى مَا كَانُوا يَبْدَءُونَ بِشَيْءٍ حَتَّى يَضَعُوا أَقْدَامَهُمْ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ ثُمَّ لَا يَحِلُّونَ، وَقَدْ رَأَيْتُ أُمِّي وَخَالَتِي حِينَ تَقْدَمَانِ، لَا تَبْتَدِئَانِ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنْ الْبَيْتِ تَطُوفَانِ بِهِ، ثُمَّ إِنَّهُمَا لَا تَحِلَّانِ.
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل قرشی نے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے پوچھا تھا، عروہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ معلوم ہے حج کیا تھا۔ مجھے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کے متعلق خبر دی کہ جب آپ مکہ معظمہ آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے وضو کیا، پھر کعبہ کا طواف کیا۔ یہ آپ کا عمرہ نہیں تھا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور آپ نے بھی سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا جب کہ یہ آپ کا بھی عمرہ نہیں تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کیا میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آپ نے بھی کعبہ کا طواف کیا۔ آپ کا بھی یہ عمرہ نہیں تھا۔ پھر معاویہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا زمانہ آیا۔ پھر میں نے اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی حج کیا۔ یہ (سارے اکابر) پہلے کعبہ ہی کے طواف سے شروع کرتے تھے جب کہ یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد مہاجرین و انصار کو بھی میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے رہے اور ان کا بھی یہ عمرہ نہیں ہوتا تھا۔ آخری ذات جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تھی۔ انہوں نے بھی عمرہ نہیں کیا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما ابھی موجود ہیں لیکن ان سے لوگ اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو حضرات گزر گئے، ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا قدم طواف کے لے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ (اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما) اور خالہ (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو بھی دیکھا کہ جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں اور یہ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔
Narrated Muhammad bin `Abdur-Rahman bin Nawfal Al-Qurashi: I asked `Urwa bin Az-Zubair (regarding the Hajj of the Prophet ). `Urwa replied, "Aisha narrated, 'When the Prophet reached Mecca, the first thing he started with was the ablution, then he performed Tawaf of the Ka`ba and his intention was not `Umra alone (but Hajj and `Umra together).' " Later Abu Bakr I performed the Hajj and the first thing he started with was Tawaf of the Ka`ba and it was not `Umra alone (but Hajj and `Umra together). And then `Umar did the same. Then `Uthman performed the Hajj and the first thing he started with was Tawaf of the Ka`ba and it was not `Umra alone. And then Muawiya and `Abdullah bin `Umar did the same. I performed Hajj with Ibn Az-Zubair and the first thing he started with was Tawaf of the Ka`ba and it was not `Umra alone, (but Hajj and `Umra together). Then I saw the Muhajirin (Emigrants) and Ansar doing the same and it was not `Umra alone. And the last person I saw doing the same was Ibn `Umar, and he did not do another `Umra after finishing the first. Now here is Ibn `Umar present amongst the people! They neither ask him nor anyone of the previous ones. And all these people, on entering Mecca, would not start with anything unless they had performed Tawaf of the Ka`ba, and would not finish their Ihram. And no doubt, I saw my mother and my aunt, on entering Mecca doing nothing before performing Tawaf of the Ka`ba, and they would not finish their lhram. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 705
(مرفوع) وقد اخبرتني امي انها اهلت هي واختها والزبير وفلان وفلان بعمرة، فلما مسحوا الركن حلوا".(مرفوع) وَقَدْ أَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا أَهَلَّتْ هِيَ وَأُخْتُهَا وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ بِعُمْرَةٍ، فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا".
اور مجھے میری والدہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بہن اور زبیر اور فلاں فلاں (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ عمرہ کیا ہے یہ سب لوگ حجر اسود کا بوسہ لے لیتے تو عمرہ کا احرام کھول دیتے۔
And my mother informed me that she, her sister, Az-Zubair and such and such persons had assumed lhram for `Umra and after passing their hands over the Corner (the Black Stone) (i.e. finishing their Umra) they finished their Ihram.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 705
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال عروة:" سالت عائشة رضي الله عنها، فقلت لها: ارايت قول الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158 فوالله ما على احد جناح ان لا يطوف بالصفا والمروة، قالت: بئس ما قلت يا ابن اختي، إن هذه لو كانت كما اولتها عليه كانت لا جناح عليه ان لا يتطوف بهما، ولكنها انزلت في الانصار، كانوا قبل ان يسلموا يهلون لمناة الطاغية التي كانوا يعبدونها عند المشلل، فكان من اهل يتحرج ان يطوف بالصفا والمروة، فلما اسلموا سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، قالوا: يا رسول الله، إنا كنا نتحرج ان نطوف بين الصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قالت عائشة رضي الله عنها: وقد سن رسول الله صلى الله عليه وسلم الطواف بينهما، فليس لاحد ان يترك الطواف بينهما، ثم اخبرت ابا بكر بن عبد الرحمن، فقال: إن هذا لعلم ما كنت سمعته، ولقد سمعت رجالا من اهل العلم يذكرون ان الناس إلا من ذكرت عائشة ممن كان يهل بمناة كانوا يطوفون كلهم بالصفا والمروة، فلما ذكر الله تعالى الطواف بالبيت ولم يذكر الصفا والمروة في القرآن، قالوا: يا رسول الله، كنا نطوف بالصفا والمروة وإن الله انزل الطواف بالبيت، فلم يذكر الصفا، فهل علينا من حرج ان نطوف بالصفا والمروة؟ فانزل الله تعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158، قال ابو بكر: فاسمع هذه الآية نزلت في الفريقين كليهما في الذين كانوا يتحرجون ان يطوفوا بالجاهلية بالصفا والمروة والذين يطوفون، ثم تحرجوا ان يطوفوا بهما في الإسلام من اجل ان الله تعالى امر بالطواف بالبيت ولم يذكر الصفا، حتى ذكر ذلك بعد ما ذكر الطواف بالبيت".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال عُرْوَةُ:" سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ أَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَذْكُرُونَ أَنَّ النَّاسَ إِلَّا مَنْ ذَكَرَتْ عَائِشَةُ مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ بِمَنَاةَ كَانُوا يَطُوفُونَ كُلُّهُمْ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَطُوفُ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، فَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، فَهَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَأَسْمَعُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي الْفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا فِي الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْجَاهِلِيَّةِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَالَّذِينَ يَطُوفُونَ، ثُمَّ تَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بِهِمَا فِي الْإِسْلَامِ مِنْ أَجْلِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَذْكُرْ الصَّفَا، حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا ذَكَرَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے (جو سورۃ البقرہ میں ہے کہ)”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں“۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا“ ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں“ بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لیے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب (زمانہ جاہلیت میں) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تو یہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سوا جن کا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا جو مناۃ کے لیے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور جب اللہ نے قرآن شریف میں بیت اللہ کے طواف کا ذکر فرمایا اور صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو وہ لوگ کہنے لگے یا رسول اللہ! ہم تو جاہلیت کے زمانہ میں صفا اور مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہو گا؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ ”صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔“ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا و مروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرما دیا۔
Narrated `Urwa: I asked `Aisha : "How do you interpret the statement of Allah,. : Verily! (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah, and whoever performs the Hajj to the Ka`ba or performs `Umra, it is not harmful for him to perform Tawaf between them (Safa and Marwa.) (2.158). By Allah! (it is evident from this revelation) there is no harm if one does not perform Tawaf between Safa and Marwa." `Aisha said, "O, my nephew! Your interpretation is not true. Had this interpretation of yours been correct, the statement of Allah should have been, 'It is not harmful for him if he does not perform Tawaf between them.' But in fact, this divine inspiration was revealed concerning the Ansar who used to assume lhram for worship ping an idol called "Manat" which they used to worship at a place called Al-Mushallal before they embraced Islam, and whoever assumed Ihram (for the idol), would consider it not right to perform Tawaf between Safa and Marwa. When they embraced Islam, they asked Allah's Apostle (p.b.u.h) regarding it, saying, "O Allah's Apostle! We used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa." So Allah revealed: 'Verily; (the mountains) As-Safa and Al-Marwa are among the symbols of Allah.' " Aisha added, "Surely, Allah's Apostle set the tradition of Tawaf between Safa and Marwa, so nobody is allowed to omit the Tawaf between them." Later on I (`Urwa) told Abu Bakr bin `Abdur-Rahman (of `Aisha's narration) and he said, 'I have not heard of such information, but I heard learned men saying that all the people, except those whom `Aisha mentioned and who used to assume lhram for the sake of Manat, used to perform Tawaf between Safa and Marwa. When Allah referred to the Tawaf of the Ka`ba and did not mention Safa and Marwa in the Qur'an, the people asked, 'O Allah's Apostle! We used to perform Tawaf between Safa and Marwa and Allah has revealed (the verses concerning) Tawaf of the Ka`ba and has not mentioned Safa and Marwa. Is there any harm if we perform Tawaf between Safa and Marwa?' So Allah revealed: "Verily As-Safa and Al- Marwa are among the symbols of Allah." Abu Bakr said, "It seems that this verse was revealed concerning the two groups, those who used to refrain from Tawaf between Safa and Marwa in the Pre- Islamic Period of ignorance and those who used to perform the Tawaf then, and after embracing Islam they refrained from the Tawaf between them as Allah had enjoined Tawaf of the Ka`ba and did not mention Tawaf (of Safa and Marwa) till later after mentioning the Tawaf of the Ka`ba.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 706