(مرفوع) وقال عبدان: اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، قال انس بن مالك: كان ابو ذر رضي الله عنه يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فرج سقفي وانا بمكة، فنزل جبريل عليه السلام ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فافرغها في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج إلى السماء الدنيا، قال جبريل لخازن السماء الدنيا: افتح، قال: من هذا؟ قال: جبريل(مرفوع) وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فُرِجَ سَقْفِي وَأَنَا بمكة، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ
اور عبدان نے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری (گھر کی) چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبرائیل علیہ السلام نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل!۔
Narrated Anas bin Malik that Abu Dhar said: Allah's Messenger (saws) said, "The roof of my house was made open while I was at Makkah (on the night of Mi'raj) and Jibril descended. He opened up my chest and washed it with the water of Zamzam. The he brought the golden tray full of Wisdom and Belief and poured it in my chest and then closed it. The he took hold of my hand and ascended to the nearest heaven. Jibril told the gatekeeper of the nearest heaven to open the gate. The gatekeeper asked, "Who is it?" Jibril replied, "I am Jibril." (See Hadith No. 349 Vol.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1636
حدیث حاشیہ: (1) زمزم وہ سدا بہار چشمہ ہے جو بیت اللہ سے کچھ فاصلے پر مسجد حرام میں حضرت جبرئیل ؑ کے پَر مارنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ اس عظیم الشان قدیم کنویں کی تاریخ حضرت اسماعیل ؑ کی شیر خواری سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مبارک چشمہ پیاس کی بے تابی میں آپ کے زمین پر ایڑیاں رگڑنے سے فوارے کی طرح اس بے آب و گیاہ اور سنگلاخ وادی میں ابلا تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ نے جب اپنے لخت جگر کے زیر قدم یہ نعمت دیکھی تو باغ باغ ہو گئیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ماء زمزم کی فضیلت ثابت کی ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا سینہ مبارک اسی پانی سے دھویا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث ماء زمزم کی فضیلت کے متعلق مروی ہیں مگر امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق مذکورہ حدیث تھی جسے انہوں نے بیان کر دیا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آب زمزم کو ایک بہترین اور بابرکت مشروب کے علاوہ اسے خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے بطور دوا بھی تجویز کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6359 (2473) ، و صحیح الجامع للألباني: 230/1) نیز حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے اللہ اسے پورا کرتا ہے۔ “(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3062)(3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ کثیر مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا جاتا ہے۔ (فتح الباري: 623/3)(4) واضح رہے کہ چشمہ زمزم بیت اللہ سے چالیس ہاتھ کے فاصلے پر ہے۔ (عمدةالقاري: 217/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1636