ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”فطری (پیدائشی) سنتیں پانچ ہیں، ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، مونچھ کترنا، ناخن تراشنا، اور بغل کے بال اکھیڑنا“۔
وضاحت: فطرت سے مراد جبلت یعنی مزاج و طبیعت کے ہیں جس پر انسان کی پیدائش ہوتی ہے، یہاں مراد قدیم سنت ہے جسے انبیاء کرام علیہم السلام نے پسند فرمایا ہے اور تمام قدیم شریعتیں اس پر متفق ہیں، گویا کہ یہ پیدائشی معاملہ ہے۔ یہاں «حصر» یعنی ان فطری چیزوں کو ان پانچ چیزوں میں محصور کر دینا مراد نہیں ہے، بعض روایتوں میں «عشر من الفطرة» کے الفاظ وارد ہیں۔ (یعنی دس چیزیں فطری امور میں سے ہیں)۔ ایک حدیث کی رو سے چالیس دن سے زیادہ کی تاخیر اس میں درست نہیں ہے۔ مونچھ کترنا، اس سے مراد لب (ہونٹ) کے بڑھے ہوئے بالوں کا کاٹنا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑی اور لمبی مونچھیں ناپسندیدہ ہیں۔ (یعنی فطری چیز کو ان پانچ چیزوں میں محصور کر دینا)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھ کترنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، اور ختنہ کرنا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 14 (2756)، مسند احمد 2/229، 283، 410، 489، (تحفة الأشراف: 13286)، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: (5227) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، اور مونچھ کے بال لینا (یعنی کاٹنا)“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناخن تراشنا، مونچھ کے بال لینا، اور زیر ناف کے بال مونڈنا فطری (پیدائشی) سنتیں ہیں“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا جعفر هو ابن سليمان، عن ابي عمران الجوني، عن انس بن مالك، قال:" وقت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في قص الشارب وتقليم الاظفار وحلق العانة ونتف الإبط، ان لا نترك اكثر من اربعين يوما". وقال مرة اخرى: اربعين ليلة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" وَقَّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا". وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى: أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھ کترنے، ناخن تراشنے، زیر ناف کے بال صاف کرنے، اور بغل کے بال اکھیڑنے کی مدت ہمارے لیے مقرر فرما دی ہے کہ ان چیزوں کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎، راوی نے دوسری بار «أربعين يومًا» کے بجائے «أربعين ليلة» کے الفاظ کی روایت کی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مونچھوں کو خوب کترو ۱؎، اور داڑھیوں کو چھوڑے رکھو“۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 16 (259)، (تحفة الأشراف: 8177)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس 64 (5892)، 65 (5893)، سنن ابی داود/الترجل 16 (4199)، سنن الترمذی/الأدب 18 (2763)، ط: الشعر 1 (1)، مسند احمد 2/16، 52، 157 یہ حدیث مکرر، دیکھئے: 5048، 5228)، «ولفظہ عند أبي داود ومالک: أمر بإحفاء الشوارب وإعفاء اللحی» (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «أحفو» کے معنی کاٹنے میں مبالغہ کرنے کے ہیں۔ ۲؎: داڑھی کے لیے صحیحین کی روایتوں میں پانچ الفاظ استعمال ہوئے ہیں: «اعفوا، أو فوا، أرخو» اور «وفروا» ان سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی: داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑے رکھو، البتہ ابن عمر اور ابوہریرہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ وہ ایک مٹھی کے بعد زائد بال کو کاٹا کرتے تھے، جب کہ یہی لوگ «إعفاء اللحیۃ» کے راوی بھی ہیں، گویا کہ ان کا یہ فعل لفظ «إعفائ» کی تشریح ہے، اسی لیے ایک مٹھی کی مقدار بہت سے علماء کے نزدیک فرض ہے اس لیے ایک مٹھی سے کم کی داڑھی خلاف سنت ہے۔
عبدالرحمٰن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے نکلا، اور آپ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو دور جاتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 22 (334)، (تحفة الأشراف: 9733)، مسند احمد 3/443 و 4/224، 237 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا إسماعيل، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن المغيرة بن شعبة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان إذا ذهب المذهب ابعد. قال: فذهب لحاجته وهو في بعض اسفاره، فقال:" ائتني بوضوء، فاتيته بوضوء فتوضا ومسح على الخفين". قال الشيخ إسماعيل: هو ابن جعفر بن ابي كثير القارئ. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا ذَهَبَ الْمَذْهَبَ أَبْعَدَ. قَالَ: فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ وَهُوَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَقَالَ:" ائْتِنِي بِوَضُوءٍ، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ". قَالَ الشَّيْخُ إِسْمَاعِيلُ: هُوَ ابْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ الْقَارِئُ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانے کے لیے جاتے تو دور جاتے، مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے ایک سفر میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے (تو واپس آ کر) آپ نے فرمایا: ”میرے لیے وضو کا پانی لاؤ“، میں آپ کے پاس پانی لے کر آیا، تو آپ نے وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ امام نسائی کہتے ہیں اسمائیل سے مراد: ابن جعفر بن ابی کثیر القاری ہیں۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عيسى بن يونس، قال: انبانا الاعمش، عن شقيق، عن حذيفة، قال: كنت امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم" فانتهى إلى سباطة قوم فبال قائما، فتنحيت عنه، فدعاني وكنت عند عقبيه حتى فرغ ثم توضا ومسح على خفيه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَانْتَهَى إِلَى سُبَاطَةِ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا، فَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَدَعَانِي وَكُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔
وضاحت: ۱؎: کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی علماء نے متعدد توجیہیں بیان کیں ہیں، سب سے مناسب توجیہ یہ ہے کہ اسے بیان جواز پر محمول کیا جائے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ ۲؎: تاکہ میں آڑ بن جاؤں دوسرے لوگ آپ کو اس حالت میں نہ دیکھ سکیں۔