انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن کوئی مالدار یا فقیر ایسا نہ ہو گا جو یہ تمنا نہ کرے کہ اس کو دنیا میں بہ قدر ضرورت روزی ملی ہوتی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1626، ومصباح الزجاجة: 1469)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/117، 167) (ضعیف جدا)» (سند میں نفیع متروک راوی ہے، ابن معین نے اس کی تکذیب کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا نفيع أبو داود الأعمي: متروك وقدكذبه ابن معين انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526
عبیداللہ بن محصن انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہو گئی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الز ھد 34 (2346)، (تحفة الأشراف: 9739) (حسن)» (سند میں سلمہ بن عبید اللہ مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2318)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , حدثنا وكيع , وابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انظروا إلى من هو اسفل منكم , ولا تنظروا إلى من هو فوقكم , فإنه اجدر ان لا تزدروا نعمة الله" , قال ابو معاوية:" عليكم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ , وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ , فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ" , قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ:" عَلَيْكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے“۔ ابومعاویہ نے «فوقكم» کی جگہ «عليكم» کا لفظ استعمال کیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة10 (2564)، (تحفة الأشراف: 14823)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/484، 539) (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ ایسے گزارتے تھے کہ ہمارے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، سوائے کھجور اور پانی کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ابن نمیر نے «نمكث شهرا» کے بجائے «نلبث شهرا» کہا ہے۔
(موقوف) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن عائشة , قالت:" لقد كان ياتي على آل محمد صلى الله عليه وسلم , الشهر ما يرى في بيت من بيوته الدخان" , قلت: فما كان طعامهم؟ قالت:" الاسودان , التمر والماء , غير انه كان لنا جيران من الانصار جيران صدق , وكانت لهم ربائب , فكانوا يبعثون إليه البانها" , قال محمد: وكانوا تسعة ابيات. (موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , الشَّهْرُ مَا يُرَى فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِهِ الدُّخَانُ" , قُلْتُ: فَمَا كَانَ طَعَامُهُمْ؟ قَالَتْ:" الْأَسْوَدَانِ , التَّمْرُ وَالْمَاءُ , غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ لَنَا جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ جِيرَانُ صِدْقٍ , وَكَانَتْ لَهُمْ رَبَائِبُ , فَكَانُوا يَبْعَثُونَ إِلَيْهِ أَلْبَانَهَا" , قَالَ مُحَمَّدٌ: وَكَانُوا تِسْعَةَ أَبْيَاتٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی کبھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا مہینہ ایسا گزر جاتا تھا کہ ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں دھواں نہ دیکھا جاتا تھا، ابوسلمہ نے پوچھا: پھر وہ کیا کھاتے تھے؟ کہا: دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی، البتہ ہمارے کچھ انصاری پڑوسی تھے، جو صحیح معنوں میں پڑوسی تھے، ان کی کچھ پالتو بکریاں تھیں، وہ آپ کو ان کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو گھر تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17763، ومصباح الزجاجة: 1470)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/182، 437) (حسن صحیح)»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دن میں بھوک سے کروٹیں بدلتے رہتے تھے، آپ کو خراب اور ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزھد (2978)، سنن الترمذی/الزھد 39 (2372)، (تحفة الأشراف: 10652)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/24، 50) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نو بیبیوں میں سے سب کا یہی حال تھا کہ ایک ایک مہینے تک ان کے یہاں چولہا ٹھنڈا رہتا، کھجور پانی پر گزر بسر کرتے، کبھی پڑوسی دودھ بھیجتے تو آپ ﷺ دودھ پی لیتے، اللہ اللہ جو بادشاہ ہو تمام دنیا کا اور سارے زمانے کے دنیا دار بادشاہ اور رئیس اس کے غلام کے غلام ہوں وہ اس طرح سے گزارا کرے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا الحسن بن موسى , انبانا شيبان , عن قتادة , عن انس بن مالك , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول مرارا:" والذي نفس محمد بيده , ما اصبح عند آل محمد صاع حب ولا صاع تمر" , وإن له يومئذ تسع نسوة. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى , أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ مِرَارًا:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , مَا أَصْبَحَ عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ صَاعُ حَبٍّ وَلَا صَاعُ تَمْرٍ" , وَإِنَّ لَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَ نِسْوَةٍ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار فرماتے سنا ہے: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا، اور ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ سے زیادہ نہیں رہا، یا آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ نہیں رہا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12445، ومصباح الزجاجة: 1472) (صحیح)» (سند میں انقطاع ہے، ابو عبیدہ نے اپنے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2404)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو عبيدة عن أبيه: منقطع والصحيح ما رواه البخاري(2508) ”ما أصبح لآل محمد ﷺ إلا صاع‘‘ أو ما رواه الترمذي (1215) وغيره ”ما أمسي عند آل محمد ﷺ صاع من تمر ولا صاع حب“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، اور ہم تین دن تک ٹھہرے رہے مگر ہمیں کھانا نہ ملا جو ہم آپ کو کھلاتے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4570، ومصباح الزجاجة: 1473) (ضعیف)» (سند میں عبدالاکرم ضعیف راوی ہے، اور ان کے والد تابعی مبہم ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد الأكرم بن أبي حنيفة الكوفي: شيخ مقبول (تقريب: 3740) أي مجهول الحال،وأبوه: مجهول(تقريب: 8067) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526