سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
9. بَابُ : الْقَنَاعَةِ
باب: قناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4141
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى , قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ , آمِنًا فِي سِرْبِهِ , عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ , فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا".
عبیداللہ بن محصن انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہو گئی“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الز ھد 34 (2346)، (تحفة الأشراف: 9739) (حسن)» (سند میں سلمہ بن عبید اللہ مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2318)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4141 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4141
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جسے کوئی بیماری اور خوف نہ ہو اور دن بھر کی ضرورت کا سامان موجود ہو تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
(2)
ہم زیادہ کی خواہش میں ان نعمتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے جو ہمارے پاس موجود ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دل میں شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔
(3)
جس شخص کے پاس ایک دن کی ضروریات موجود ہیں اسے اس دن کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ امید رکھنی چاہیے کہ جب کل کا دن آئے گا تو اللہ تعالی اس کی ضروریات بھی مہیا فرما دے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4141
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2346
´زہد و قناعت سے متعلق ایک اور باب۔`
عبیداللہ بن محصن خطمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2346]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ امن وصحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہترہے جو امن وصحت والی نہ ہو،
گویا انسان کو مال ودولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگناچاہئے بلکہ صبروقناعت کا راستہ اختیارکرنا چاہئے کیونکہ امن وسکون اور راحت وآسائش اسی میں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2346
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:443
443- سلمہ بن عبید اللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ خوشحال ہو، جسمانی طور پر تندرست ہو، اس کے پاس اس دن کی خوراک موجود ہو تو، گویا اس کے لئے دنیا کو سمیٹ دیا گیا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:443]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحت و عافیت اور ایک دن کے کھانے کے سامان کا گھر میں ہونا ایسے ہی ہے جیسے پوری دنیا اس کے پاس ہے، سبحان اللہ۔ حدیث میں قناعت کا زبردست بیان ہے، اور ناشکری کرنے والوں کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 443