معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تمہیں لے کر ستر امتیں پوری ہوئیں، اور تم ان میں سب سے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہو“۔
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت والوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، ان میں سے اسی صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی، اور چالیس صفیں اور امتوں میں سے“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم آخری امت ہیں اور سب سے پہلے حساب کے لیے بلائے جائیں گے، کہا جائے گا: امت اور اس کے نبی کہاں ہیں؟ تو ہم اول بھی ہیں اور آخر بھی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6500، ومصباح الزجاجة: 1535)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/16) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا جبارة بن المغلس , حدثنا عبد الاعلى بن ابي المساور , عن ابي بردة , عن ابيه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جمع الله الخلائق يوم القيامة , اذن لامة محمد في السجود فيسجدون له طويلا , ثم يقال: ارفعوا رءوسكم قد جعلنا عدتكم فداءكم من النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْخَلَائِقَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , أُذِنَ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ فِي السُّجُودِ فَيَسْجُدُونَ لَهُ طَوِيلًا , ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعُوا رُءُوسَكُمْ قَدْ جَعَلْنَا عِدَّتَكُمْ فِدَاءَكُمْ مِنَ النَّارِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مخلوق کو جمع کرے گا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو سجدے کا حکم دے گا، وہ بڑی دیر تک اس کو سجدہ کرتے رہیں گے، پھر حکم ہو گا اپنے سروں کو اٹھاؤ ہم نے تمہاری تعداد کے مطابق تمہارے فدئیے جہنم سے کر دئیے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 9111، ومصباح الزجاجة: 1536) (ضعیف جدا)» (جبارہ بن المغلس ضعیف اور عبد الاعلی بن ابی المساور متروک راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا وجملة الفداء عند م
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا جبارة وعبدالأعلى: مجروحان (تقدما:740، 87) و حديث مسلم (2767) يُغني عنه۔
(مرفوع) حدثنا جبارة بن المغلس , حدثنا كثير بن سليم , عن انس بن مالك , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذه الامة مرحومة عذابها بايديها , فإذا كان يوم القيامة دفع إلى كل رجل من المسلمين رجل من المشركين , فيقال: هذا فداؤك من النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ , حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ مَرْحُومَةٌ عَذَابُهَا بِأَيْدِيهَا , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دُفِعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ , فَيُقَالُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ امت امت مرحومہ ہے (یعنی اس پر رحمت نازل کی گئی ہے)، اس کا عذاب اسی کے ہاتھوں میں ہے، جب قیامت کا دن ہو گا تو ہر مسلمان کے حوالے ایک مشرک کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ تیرا فدیہ ہے جہنم سے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1449، ومصباح الزجاجة: 1537) (صحیح)» (سند میں جبارہ و کثیر ضعیف ہیں لیکن صحیح مسلم میں ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا جبارة وكثير بن سليم: مجروحان (تقدما:740، 1862) وحديث أبي داود (4278) يغني عنه وإسناده حسن۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , انبانا عبد الملك , عن عطاء , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إن لله مائة رحمة , قسم منها رحمة بين جميع الخلائق , فبها يتراحمون , وبها يتعاطفون , وبها تعطف الوحش على اولادها , واخر تسعة وتسعين رحمة , يرحم بها عباده يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ , قَسَمَ مِنْهَا رَحْمَةً بَيْنَ جَمِيعِ الْخَلَائِقِ , فَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ , وَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ , وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى أَوْلَادِهَا , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ رَحْمَةً , يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا“۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب , واحمد بن سنان , قالا: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي سعيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خلق الله عز وجل , يوم خلق السموات والارض , مائة رحمة , فجعل في الارض منها رحمة , فبها تعطف الوالدة على ولدها , والبهائم بعضها على بعض , والطير , واخر تسعة وتسعين إلى يوم القيامة , فإذا كان يوم القيامة , اكملها الله بهذه الرحمة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ , مِائَةَ رَحْمَةٍ , فَجَعَلَ فِي الْأَرْضِ مِنْهَا رَحْمَةً , فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا , وَالْبَهَائِمُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ , وَالطَّيْرُ , وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ , أَكْمَلَهَا اللَّهُ بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سو رحمتیں پیدا کیں، زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے، اور چرند و پرند جانور بھی ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے اٹھا رکھا ہے، جب قیامت کا دن ہو گا، تو اللہ تعالیٰ ان رحمتوں کو پورا کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4024، ومصباح الزجاجة: 1538)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/55) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ عزوجل نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب , حدثنا ابو عوانة , حدثنا عبد الملك بن عمير , عن ابن ابي ليلى , عن معاذ بن جبل , قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا على حمار , فقال:" يا معاذ , هل تدري ما حق الله على العباد؟ وما حق العباد على الله؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا , وحق العباد على الله إذا فعلوا ذلك ان لا يعذبهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا , وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے“؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے“۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا إبراهيم بن اعين , حدثنا إسماعيل بن يحيى الشيباني , عن عبد الله بن عمر بن حفص , عن نافع , عن ابن عمر , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض غزواته , فمر بقوم , فقال:" من القوم" , فقالوا: نحن المسلمون , وامراة تحصب تنورها , ومعها ابن لها , فإذا ارتفع وهج التنور , تنحت به , فاتت النبي صلى الله عليه وسلم , فقالت: انت رسول الله؟ قال:" نعم" , قالت: بابي انت وامي اليس الله بارحم الراحمين؟ قال:" بلى" , قالت: اوليس الله بارحم بعباده من الام بولدها؟ قال:" بلى" , قالت: فإن الام لا تلقي ولدها في النار , فاكب رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي ثم رفع راسه إليها , فقال:" إن الله لا يعذب من عباده إلا المارد المتمرد , الذي يتمرد على الله , وابى ان يقول: لا إله إلا الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَعْيَنَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ يَحْيَى الشَّيْبَانِيُّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ , فَمَرَّ بِقَوْمٍ , فَقَالَ:" مَنِ الْقَوْمُ" , فَقَالُوا: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ , وَامْرَأَةٌ تَحْصِبُ تَنُّورَهَا , وَمَعَهَا ابْنٌ لَهَا , فَإِذَا ارْتَفَعَ وَهَجُ التَّنُّورِ , تَنَحَّتْ بِهِ , فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ" , قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمِ الرَّاحِمِينَ؟ قَالَ:" بَلَى" , قَالَتْ: أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمَ بِعِبَادِهِ مِنَ الْأُمِّ بِوَلَدِهَا؟ قَالَ:" بَلَى" , قَالَتْ: فَإِنَّ الْأُمَّ لَا تُلْقِي وَلَدَهَا فِي النَّارِ , فَأَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهَا , فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الْمَارِدَ الْمُتَمَرِّدَ , الَّذِي يَتَمَرَّدُ عَلَى اللَّهِ , وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے کہ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو پوچھا: ”تم کون لوگ ہو“؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، ان میں ایک عورت تنور میں ایندھن جھوک رہی تھی، اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، جب تنور کی آگ بھڑک اٹھی وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہٹ گئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ عورت نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا اللہ سارے رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“ وہ بولی: کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم نہیں کرے گا جتنا ماں اپنے بچے پر کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں“؟ اس نے کہا: ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا دیا، اور روتے رہے پھر اپنا سر اٹھایا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں کو عذاب دے گا جو بہت سرکش و شریر ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہوتے ہیں اور «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کرتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7739، ومصباح الزجاجة: 1539) (موضوع)» (سند میں اسماعیل بن یحییٰ متہم بالکذب ہے، اور عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف)
قال الشيخ الألباني: موضوع
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده موضوع قال الإمام يزيد بن هارون: ”كان إسماعيل الشعري كذابًا“ (الضعفاء للعقيلي 96/1 وسنده صحيح)