ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے“۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، اور عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 855، ومصباح الزجاجة: 1401) (حسن صحیح)» (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا: غرباء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 13 (2629)، (تحفة الأشراف: 9510)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/398)، سنن الدارمی/الرقاق 42 (2797) (صحیح)» «قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل» کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: 175)
وضاحت: ۱؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر رضی اللہ عنہم وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہو گئے تھے اس لئے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قال قيل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن وكيع ضعيف حفص بن غياث و سليمان الأعمش و أبو إسحاق مدلسون و لم أجد تصريح سماعھم والحديث السابق (الأصل: 3986) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 518
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى , حدثنا عبد الله بن وهب , اخبرني ابن لهيعة , عن عيسى بن عبد الرحمن , عن زيد بن اسلم , عن ابيه , عن عمر بن الخطاب , انه خرج يوما إلى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فوجد معاذ بن جبل قاعدا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم يبكي , فقال: ما يبكيك؟ قال: يبكيني شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن يسير الرياء شرك , وإن من عادى لله وليا فقد بارز الله بالمحاربة , إن الله يحب الابرار الاتقياء الاخفياء , الذين إذا غابوا لم يفتقدوا , وإن حضروا لم يدعوا , ولم يعرفوا قلوبهم مصابيح الهدى , يخرجون من كل غبراء مظلمة". (مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي , فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يُبْكِينِي شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ , وَإِنَّ مَنْ عَادَى لِلَّهِ وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ بِالْمُحَارَبَةِ , إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ , الَّذِينَ إِذَا غَابُوا لَمْ يُفْتَقَدُوا , وَإِنْ حَضَرُوا لَمْ يُدْعَوْا , وَلَمْ يُعْرَفُوا قُلُوبُهُمْ مَصَابِيحُ الْهُدَى , يَخْرُجُونَ مِنْ كُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مسجد نبوی کی جانب گئے، تو وہاں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں، انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے رونے کا سبب پوچھا، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ایک ایسی بات رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”معمولی ریاکاری بھی شرک ہے، بیشک جس نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی، تو اس نے اللہ سے اعلان جنگ کیا، اللہ تعالیٰ ان نیک، گم نام متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اگر غائب ہو جائیں تو کوئی انہیں تلاش نہیں کرتا، اور اگر وہ حاضر ہو جائیں تو لوگ انہیں کھانے کے لیے نہیں بلاتے، اور نہ انہیں پہچانتے ہیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ایسے لوگ ہر گرد آلود تاریک فتنے سے نکل جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11305، ومصباح الزجاجة: 1402) (ضعیف)» (سند میں عیسیٰ بن عبد الرحمن ضعیف و متروک راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا عيسي بن عبد الرحمٰن الزرقي: متروك (تقريب: 5306) ولبعض الحديث شواهد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 518
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار حدثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي حدثنا زيد بن اسلم عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الناس كإبل مائة لا تكاد تجد فيها راحلة» . (مرفوع) حدثنا هشام بن عمار حدثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي حدثنا زيد بن أسلم عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الناس كإبل مائة لا تكاد تجد فيها راحلة» .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کے مانند ہے، جن میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاؤ گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سواری میں استعمال ہونے والا جانور نرم مزاج اور سیدھا ہوتا ہے، لیکن عملاً کمیاب، ایسے سیکڑوں آدمیوں میں سے کوئی کوئی ہوتا ہے، جو دوستی اور تعلقات کو استوار کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں مختلف انداز کی کمیاں پائی جاتی ہیں، کامل و مکمل اور بھر پور شخصیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں، امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الرقاق کے باب «رفع الامانہ» میں اسی لئے ذکر کیا ہے کہ اخیر امت میں لوگ اس باب میں بھی کمیاب ہوں گے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15099)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة 1 (4596)، سنن الترمذی/الإیمان 18 (2640)، مسند احمد (2/332) (حسن صحیح)» (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي , حدثنا عباد بن يوسف , حدثنا صفوان بن عمرو , عن راشد بن سعد , عن عوف بن مالك , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة , فواحدة في الجنة , وسبعون في النار , وافترقت النصارى على ثنتين وسبعين فرقة , فإحدى وسبعون في النار , وواحدة في الجنة , والذي نفس محمد بيده لتفترقن امتي على ثلاث وسبعين فرقة , واحدة في الجنة , وثنتان وسبعون في النار" , قيل: يا رسول الله , من هم؟ قال:" الجماعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً , فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ , وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ , وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً , فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ , وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً , وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ , وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ" , قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَنْ هُمْ؟ قَالَ:" الْجَمَاعَةُ".
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اکہتر (۷۱) فرقوں میں بٹ گئے جن میں سے ایک جنت میں جائے گا اور ستر (۷۰) جہنم میں، نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جن میں سے اکہتر (۷۱) جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا، اور بہتر (۷۲) فر قے جہنم میں“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الجماعة» ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10908، ومصباح الزجاجة: 1403) (صحیح)» (عباد بن یوسف کندی مقبول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اہل سنت و الجماعت جنہوں نے حدیث اور قرآن کو نہیں چھوڑا اس وجہ سے اہل سنت ہوئے، اور جماعت المسلمین کے ساتھ رہے تھے۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا ابو عمرو , حدثنا قتادة , عن انس بن مالك , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بني إسرائيل افترقت على إحدى وسبعين فرقة , وإن امتي ستفترق على ثنتين وسبعين فرقة , كلها في النار , إلا واحدة وهي الجماعة". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو , حَدَّثَنَا قَتَادَةُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً , وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً , كُلُّهَا فِي النَّارِ , إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے، اور وہ «الجماعة» ہے، (وہ جماعت جو میری اور میرے صحابہ کی روش اور طریقے پر ہو)۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1314، ومصباح الزجاجة: 1404)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/120) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جس نے مسلمانوں کی جماعت اور امام وقت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر زمانہ میں امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ رہے،یہ مضمون اہل سنت والجماعت کے علاوہ کسی اور فرقہ اور جماعت پر صادق نہیں آتا، اس لیے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت ہی ناجی جماعت ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لتتبعن سنة من كان قبلكم باعا بباع , وذراعا بذراع , وشبرا بشبر , حتى لو دخلوا في جحر ضب لدخلتم فيه" , قالوا: يا رسول الله , اليهود , والنصارى؟ قال:" فمن إذا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَتَتَّبِعُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بَاعًا بِبَاعٍ , وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ , وَشِبْرًا بِشِبْرٍ , حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِيهِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الْيَهُودُ , وَالنَّصَارَى؟ قَالَ:" فَمَنْ إِذًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے اگر وہ ہاتھ پھیلانے کے مقدار چلے ہوں گے ۱؎، تو تم بھی وہی مقدار چلو گے، اور اگر وہ ایک ہاتھ چلے ہوں گے تو تم بھی ایک ہاتھ چلو گے، اور اگر وہ ایک بالشت چلے ہوں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب اور کون ہو سکتے ہیں“؟ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15120، ومصباح الزجاجة: 1405)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاعتصام 14 (7319)، مسند احمد (2/450، 527) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی قدم بہ قد م، «باع»: کہتے ہیں دونوں ہاتھ کی لمبائی کو، «ذراع»: ایک ہاتھ اور «شبر» ایک بالشت۔ ۲؎: یہود اور نصاریٰ نے یہ کیا تھا کہ تورات اور انجیل کو چھوڑ کر اپنے مولویوں اور درویشوں کی پیروی میں غرق ہو گئے تھے، اور اسی کو دین و ایمان جانتے تھے، مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ قرآن و حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور ان پر عمل کرنا اور کرانا بالکل چھوڑ دیا، اور قرآن و حدیث کی جگہ دوسرے ملاؤں کی کتابیں ایسی رائج اور مشہور ہو گئیں کہ بکثرت مسلمان انہی کتابوں پر چلنے لگے الا ماشاء اللہ، ایک طائفہ قلیلہ اہل حدیث کا (شکر اللہ سعیم) کہ ہر زمانہ میں وہ قرآن و حدیث پر قائم رہا۔، فاسد آراء اور باطل قیاس کی طرف انہوں نے کبھی التفات نہیں کیا، جاہل و بے دین اور بدعت و شرک میں مبتلا سادہ لوح مسلمانوں نے اس گروہ سے دشمنی کی، اعداء اسلام نے بھی دشمنی میں کوئی کسر نہیں باقی رکھی، لیکن ان سب کی دشمنی اور عداوت سے ان اہل حق کو کبھی نقصان نہ ہو سکا، اور یہ فرقہ حقہ قیامت تک اپنے دلائل حقہ کے ساتھ غالب اور قائم رہے گا، اس کے دلائل و براہین کا کسی کے پاس جواب نہیں ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا عيسى بن حماد المصري , انبانا الليث بن سعد , عن سعيد المقبري , عن عياض بن عبد الله , انه سمع ابا سعيد الخدري , يقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطب الناس , فقال:" لا والله ما اخشى عليكم ايها الناس إلا ما يخرج الله لكم من زهرة الدنيا" , فقال له رجل: يا رسول الله , اياتي الخير بالشر؟ فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة , ثم قال:" كيف قلت؟" , قال: قلت: وهل ياتي الخير بالشر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الخير لا ياتي إلا بخير , او خير هو إن كل ما ينبت الربيع يقتل حبطا , او يلم إلا آكلة الخضر اكلت , حتى إذا امتلات امتدت خاصرتاها , استقبلت الشمس فثلطت وبالت , ثم اجترت فعادت فاكلت , فمن ياخذ مالا بحقه يبارك له , ومن ياخذ مالا بغير حقه فمثله كمثل الذي ياكل ولا يشبع". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ , عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ , يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ , فَقَالَ:" لَا وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَّا مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا" , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً , ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ قُلْتَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ , أَوَ خَيْرٌ هُوَ إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا , أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ , حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتِ امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا , اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ , ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ , فَمَنْ يَأْخُذُ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكُ لَهُ , وَمَنْ يَأْخُذُ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا: ”اللہ کی قسم، لوگو! مجھے تمہارے متعلق کسی بات کا خوف نہیں، ہاں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیاوی مال و دولت سے نوازے گا“، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا خیر (مال و دولت) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا: ”تم نے کیسے کہا تھا“؟ میں نے عرض کیا: کیا خیر (یعنی مال و دولت کی زیادتی) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر سے تو خیر ہی پیدا ہوتا ہے، اور کیا وہ مال خیر ہے؟ ہر وہ سبزہ جسے موسم بہار اگاتا ہے، جانور کا پیٹ پھلا کر بدہضمی سے مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے، مگر اس جانور کو جو گھاس کھائے یہاں تک کہ جب پیٹ پھول کر اس کے دونوں پہلو تن جائیں تو دھوپ میں چل پھر کر، پاخانہ پیشاب کرے، اور جگالی کر کے ہضم کر لے، اور واپس آ کر پھر کھائے، تو اسی طرح جو شخص مال کو جائز طریقے سے حاصل کرے گا، تو اس کے مال میں برکت ہو گی، اور جو اسے ناجائز طور پر حاصل کرے گا، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کھاتا رہے اور آسودہ نہ ہو“۔