(مرفوع) حدثنا ابو كريب , حدثنا ابو معاوية , وعبد الرحمن المحاربي , ووكيع , عن الاعمش , عن زيد بن وهب , عن عبد الرحمن بن عبد رب الكعبة , قال: انتهيت إلى عبد الله بن عمرو بن العاص , وهو جالس في ظل الكعبة , والناس مجتمعون عليه , فسمعته يقول: بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , إذ نزل منزلا فمنا من يضرب خباءه , ومنا من ينتضل , ومنا من هو في جشره , إذ نادى مناديه الصلاة جامعة فاجتمعنا , فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخطبنا فقال:" إنه لم يكن نبي قبلي , إلا كان حقا عليه ان يدل امته على ما يعلمه خيرا لهم , وينذرهم ما يعلمه شرا لهم , وإن امتكم هذه جعلت عافيتها في اولها , وإن آخرهم يصيبهم بلاء وامور ينكرونها , ثم تجيء فتن يرقق بعضها بعضا , فيقول المؤمن: هذه مهلكتي ثم تنكشف , ثم تجيء فتنة , فيقول المؤمن: هذه مهلكتي ثم تنكشف , فمن سره ان يزحزح عن النار ويدخل الجنة , فلتدركه موتته وهو يؤمن بالله واليوم الآخر , وليات إلى الناس الذي يحب ان ياتوا إليه , ومن بايع إماما فاعطاه صفقة يمينه وثمرة قلبه فليطعه ما استطاع , فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر" , قال: فادخلت راسي من بين الناس , فقلت: انشدك الله انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: فاشار بيده إلى اذنيه , فقال: سمعته اذناي ووعاه قلبي. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ , ووكيع , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ , قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ , وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ , فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ , وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ , وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ , إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ فَاجْتَمَعْنَا , فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَطَبَنَا فَقَالَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي , إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ , وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ , وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا , وَإِنَّ آخِرَهُمْ يُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا , ثُمَّ تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا , فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ , ثُمَّ تَجِيءُ فِتْنَةٌ , فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ , فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ , فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ , وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ , وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَمِينِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ , فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ" , قَالَ: فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ , فَقُلْتُ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ , فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي.
عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا: اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا: ”مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کو وہ ان کے لیے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا و مصیبت لاحق ہو گی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم برا جانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسرا ہلکا محسوس ہو گا، مومن کہے گا: اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہو جائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا، مومن کہے گا: اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہو جائے گا، تو جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امام آ کر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے (اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے) تو اس دوسرے امام کی گردن مار دے“۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے (یہ سن کر) اپنا سر لوگوں میں سے نکال کر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی جانب اشارہ کر کے کہا: میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , ومحمد بن الصباح , قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , حدثني ابي , عن عمارة بن حزم , عن عبد الله بن عمرو , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" كيف بكم وبزمان يوشك ان ياتي , يغربل الناس فيه غربلة , وتبقى حثالة من الناس قد مرجت عهودهم واماناتهم , فاختلفوا وكانوا هكذا" وشبك بين اصابعه , قالوا: كيف بنا يا رسول الله إذا كان ذلك , قال:" تاخذون بما تعرفون وتدعون ما تنكرون , وتقبلون على خاصتكم وتذرون امر عوامكم". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ , يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً , وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ , فَاخْتَلَفُوا وَكَانُوا هَكَذَا" وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ , قَالُوا: كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ , قَالَ:" تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ , وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مر جائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہو جائیں گے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھوڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات و مسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔ یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اور بری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت، ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة , حدثنا حماد بن زيد , عن ابي عمران الجوني , عن المشعث بن طريف , عن عبد الله بن الصامت , عن ابي ذر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيف انت يا ابا ذر؟ وموتا يصيب الناس حتى يقوم البيت بالوصيف" يعني: القبر , قلت: ما خار الله لي ورسوله او قال: الله ورسوله اعلم , قال:" تصبر" , قال:" كيف؟ انت وجوعا يصيب الناس , حتى تاتي مسجدك فلا تستطيع ان ترجع إلى فراشك , ولا تستطيع ان تقوم من فراشك إلى مسجدك" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , او ما خار الله لي ورسوله , قال:" عليك بالعفة" , ثم قال:" كيف انت وقتلا يصيب الناس حتى تغرق حجارة الزيت بالدم" , قلت: ما خار الله لي ورسوله , قال:" الحق بمن انت منه" , قال: قلت: يا رسول الله , افلا آخذ بسيفي فاضرب به من فعل ذلك , قال:" شاركت القوم إذا ولكن ادخل بيتك" , قلت: يا رسول الله , فإن دخل بيتي , قال:" إن خشيت ان يبهرك شعاع السيف , فالق طرف ردائك على وجهك فيبوء بإثمه وإثمك فيكون من اصحاب النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ , عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ؟ وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِ" يَعْنِي: الْقَبْرَ , قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ أَوْ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" تَصَبَّرْ" , قَالَ:" كَيْفَ؟ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ , حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ , وَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ , قَالَ:" عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ" , ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ" , قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ , قَالَ:" الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَفَلَا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ , قَالَ:" شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا وَلَكِنْ ادْخُلْ بَيْتَكَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي , قَالَ:" إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ , فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ فَيَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر! اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تم صبر سے کام لینا“، پھر فرمایا: ”اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہو گی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، یا کہا (اللہ اور اس کا رسول جو میرے لیے پسند کرے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس وقت) تم اپنے اوپر پاک دامنی کو لازم کر لینا“، پھر فرمایا: ”تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں) لوگوں کا قتل عام ہو گا، حتیٰ کہ مدینہ میں ایک پتھریلا مقام «حجارة الزيت»۲؎ خون میں ڈوب جائے گا“، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لیے پسند فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو“(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہو جانا) ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں؟“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کرو گے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہو جاؤ گے، تمہیں چاہیئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھر ہی میں پڑے رہو“۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آ جائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہو جانا) وہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہارا دونوں کا گناہ اپنے سر لے گا، اور وہ جہنمی ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 11947، ومصباح الزجاجة: 1390)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفتن 2 (4261)، بدون ذکر الجوع و العفة، مسند احمد (5/149، 163) (صحیح) (ملا حظہ ہو: الإرواء: 2451)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ۲؎: «حجارة الزيت» مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ۳؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا عوف , عن الحسن , حدثنا اسيد بن المتشمس , قال: حدثنا ابو موسى , حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بين يدي الساعة لهرجا" , قال: قلت: يا رسول الله , ما الهرج؟ قال:" القتل" , فقال بعض المسلمين: يا رسول الله , إنا نقتل الآن في العام الواحد من المشركين كذا وكذا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس بقتل المشركين , ولكن يقتل بعضكم بعضا , حتى يقتل الرجل جاره , وابن عمه , وذا قرابته" , فقال بعض القوم: يا رسول الله , ومعنا عقولنا ذلك اليوم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تنزع عقول اكثر ذلك الزمان , ويخلف له هباء من الناس لا عقول لهم" , ثم قال الاشعري: وايم الله إني لاظنها مدركتي , وإياكم وايم الله ما لي ولكم منها مخرج , إن ادركتنا فيما عهد إلينا نبينا صلى الله عليه وسلم , إلا ان نخرج كما دخلنا فيها. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا عَوْفٌ , عَنْ الْحَسَنِ , حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ الْمُتَشَمِّسِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى , حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَهَرْجًا" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ" , فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نَقْتُلُ الْآنَ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ كَذَا وَكَذَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ بِقَتْلِ الْمُشْرِكِينَ , وَلَكِنْ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا , حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ , وَابْنَ عَمِّهِ , وَذَا قَرَابَتِهِ" , فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَعَنَا عُقُولُنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ , وَيَخْلُفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ لَا عُقُولَ لَهُمْ" , ثُمَّ قَالَ الْأَشْعَرِيُّ: وَايْمُ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا مُدْرِكَتِي , وَإِيَّاكُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجٌ , إِنْ أَدْرَكَتْنَا فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ كَمَا دَخَلْنَا فِيهَا.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا: ”قیامت سے پہلے «ہرج» ہو گا“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! «ہرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل“، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا“، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا: ”اللہ کے رسول! کیا اس وقت ہم لوگ عقل و ہوش میں ہوں گے کہ نہیں“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کر لی جائیں گی، اور ان کی جگہ ایسے کم تر لوگ لے لیں گے جن کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی“۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ زمانہ مجھے اور تم کو پا لے، اللہ کی قسم! اگر ایسا زمانہ مجھ پر اور تم پر آ گیا تو ہمارے اور تمہارے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وصیت کی ہے، سوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8980، ومصباح الزجاجة: 1391)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/391، 392، 406، 414) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1682)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا صفوان بن عيسى , حدثنا عبد الله بن عبيد مؤذن مسجد حردان , قال: حدثتني عديسة بنت اهبان , قالت: لما جاء علي بن ابي طالب هاهنا البصرة دخل على ابي , فقال: يا ابا مسلم , الا تعينني على هؤلاء القوم , قال: بلى , قال: فدعا جارية له , فقال: يا جارية , اخرجي سيفي , قال: فاخرجته فسل منه قدر شبر , فإذا هو خشب , فقال: إن خليلي وابن عمك صلى الله عليه وسلم عهد إلي" إذا كانت الفتنة بين المسلمين فاتخذ سيفا من خشب" , فإن شئت خرجت معك , قال: لا حاجة لي فيك , ولا في سيفك. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ حُرْدَانَ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي عُدَيْسَةُ بِنْتُ أُهْبَانَ , قَالَتْ: لَمَّا جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ هَاهُنَا الْبَصْرَةَ دَخَلَ عَلَى أَبِي , فَقَالَ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ , أَلَا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ , قَالَ: بَلَى , قَالَ: فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ , فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ , أَخْرِجِي سَيْفِي , قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ , فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ , فَقَالَ: إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ" إِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ" , فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ , قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيكَ , وَلَا فِي سَيْفِكَ.
عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ ”جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہو جائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں“، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا: مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 33 (2203)، (تحفة الأشراف: 1734)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/69، 6/393) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کر دیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔
(مرفوع) حدثنا عمران بن موسى الليثي , حدثنا عبد الوارث بن سعيد , حدثنا محمد بن جحادة , عن عبد الرحمن بن ثروان , عن هزيل بن شرحبيل , عن ابي موسى الاشعري , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بين يدي الساعة فتنا كقطع الليل المظلم , يصبح الرجل فيها مؤمنا , ويمسي كافرا , ويمسي مؤمنا , ويصبح كافرا , القاعد فيها خير من القائم , والقائم فيها خير من الماشي , والماشي فيها خير من الساعي , فكسروا قسيكم , وقطعوا اوتاركم , واضربوا بسيوفكم الحجارة , فإن دخل على احد منكم فليكن كخير ابني آدم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ , عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ , عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ , يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا , وَيُمْسِي كَافِرًا , وَيُمْسِي مُؤْمِنًا , وَيُصْبِحُ كَافِرًا , الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ , وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي , وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي , فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ , وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ , وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِكُمُ الْحِجَارَةَ , فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، تو شام کو کافر ہو گا اور شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو گا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمان کے تانت کاٹ ڈالنا، اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر لینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح ہو جا نا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جنہوں نے اپنے بھائی قابیل سے کہا: تو مجھے اگر مارے گا تب بھی تجھے نہیں ماروں گا، مطلب آپ کا یہ ہے کہ ان فتنوں میں لڑنا اور مسلمانوں کو مارنا گویا فتنہ کی تائید کرنا ہے، پس گھر میں خاموشی سے بیٹھے رہنا مناسب ہے، اور جس قدر کوئی زیادہ حرکت کرے گا اتنا ہی وہ برا ہے۔
ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت جلد ایک فتنہ ہو گا، فرقہ بندی ہو گی اور اختلاف ہو گا، جب یہ زمانہ آئے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر آنا، اور اس پر اسے مارنا کہ وہ ٹوٹ جائے، اور پھر اپنے گھر بیٹھ جانا یہاں تک کہ کوئی خطاکار ہاتھ تمہیں قتل کر دے، یا موت آ جائے جو تمہارا کام تمام کر دے“۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ فتنہ آ گیا ہے، اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماحہ، (تحفة الأشراف: 11234، ومصباح الزجاجة: 1392)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/493، 4/226) (صحیح)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1380)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1061، ومصباح الزجاجة: 1393) (صحیح)» (سند میں مبارک بن سحیم متروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، کما سیاتی)
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تحریم الدم 25 (4123)، (تحفة الأشراف: 8984، ومصباح الزجاجة: 1394)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/401، 403، 410، 418) (صحیح)»
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ صورت اس وقت ہے جب دونوں ایک ساتھ ہتھیار لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے اٹھیں گے لیکن اگر کوئی شخص ہتھیار لے کر قتل کرنے آئے تو اپنی حفاظت صحیح ہے اور اگر مدافعت میں حملہ کرنے والا مارا جائے تو وہی جہنم میں جائے گا مدافعت کرنے والے کا کوئی قصور نہیں۔