سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
11. بَابُ : إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا
باب: جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3964
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ أَبِي مُوسَى , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ , قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تحریم الدم 25 (4123)، (تحفة الأشراف: 8984، ومصباح الزجاجة: 1394)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/401، 403، 410، 418) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3964 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3964
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
۔
جب کوئی شخص جرم کی پوری کوشش کرے لیکن کسی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے تو اللہ کے ہاں وہ بھی مجرم ہے۔
(2)
جو شخص ارتکاب جرم کا عزم رکھتا ہو لیکن ارتکاب سے پہلے رجوع کرلے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے اور تو بہ کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3964