(مرفوع) حدثنا يوسف بن موسى القطان , حدثنا جرير , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل:" ما تقول في الصلاة؟" , قال: اتشهد , ثم اسال الله الجنة , واعوذ به من النار , اما والله ما احسن دندنتك ولا دندنة معاذ , قال:" حولها ندندن". (مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ , حَدَّثَنَا جَرِيرٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ:" مَا تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ؟" , قَالَ: أَتَشَهَّدُ , ثُمَّ أَسْأَلُ اللَّهَ الْجَنَّةَ , وَأَعُوذُ بِهِ مِنَ النَّار , أَمَا وَاللَّهِ مَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَكَ وَلَا دَنْدَنَةَ مُعَاذٍ , قَالَ:" حَوْلَهَا نُدَنْدِنُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: ”تم نماز میں کیا کہتے ہو“؟ اس نے کہا: میں تشہد (التحیات) پڑھتا ہوں، پھر اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم میں آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ اچھی طرح سمجھ نہیں پاتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بھی تقریباً ویسے ہی گنگناتے ہیں“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ ﷺ کی اور معاذ رضی اللہ عنہ کی گنگناہٹ میں نہیں سمجھتا آواز تو سنتا ہوں لیکن معلوم نہیں ہوتا کہ آپ اور معاذ رضی اللہ عنہ کیا دعا مانگتے ہیں۔ ۲؎: یعنی مقصود ہماری دعاؤں کا بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے اور جہنم سے بچائے۔ آمین۔
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي , حدثنا ابن ابي فديك اخبرني سلمة بن وردان , عن انس بن مالك , قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل , فقال: يا رسول الله , اي الدعاء افضل؟ قال:" سل ربك العفو والعافية في الدنيا والآخرة" , ثم اتاه في اليوم الثاني , فقال: يا رسول الله , اي الدعاء افضل؟ قال:" سل ربك العفو والعافية في الدنيا والآخرة" , ثم اتاه في اليوم الثالث , فقال: يا نبي الله , اي الدعاء افضل؟ قال:" سل ربك العفو والعافية في الدنيا والآخرة , فإذا اعطيت العفو والعافية في الدنيا والآخرة , فقد افلحت". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" , ثُمَّ أَتَاهُ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ" , ثُمَّ أَتَاهُ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" سَلْ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , فَقَدْ أَفْلَحْتَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! کون سی دعا سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو“، پھر وہ شخص دوسرے دن حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سی دعا سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو“، پھر وہ تیسرے دن بھی حاضر خدمت ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے نبی! کون سی دعا سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ جب تمہیں دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت عطا ہو گئی تو تم کامیاب ہو گئے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 85 (3512)، (تحفة الأشراف: 869)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/127) (ضعیف)» (سند میں سلمہ بن وردان ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: بیشک عافیت میں عام بلاؤں، بیماریوں اور تکالیف سے حفاظت ہو گی، اور معافی میں گناہوں کی بخشش، اب اور کیا چاہتے ہو، یہ دو لفظ ہزاروں لفظوں کو شامل ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3512) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514
(مرفوع) حدثنا ابو بكر , وعلي بن محمد , قالا: حدثنا عبيد بن سعيد , قال: سمعت شعبة , عن يزيد بن خمير , قال: سمعت سليم بن عامر يحدث , عن اوسط بن إسماعيل البجلي , انه سمع ابا بكر , حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في مقامي هذا عام الاول , ثم بكى ابو بكر , ثم قال:" عليكم بالصدق فإنه مع البر , وهما في الجنة , وإياكم والكذب فإنه مع الفجور , وهما في النار , وسلوا الله المعافاة , فإنه لم يؤت احد بعد اليقين خيرا من المعافاة , ولا تحاسدوا , ولا تباغضوا , ولا تقاطعوا , ولا تدابروا , وكونوا عباد الله إخوانا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يُحَدِّثُ , عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيل الْبَجَلِيِّ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ , حِينَ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَقَامِي هَذَا عَامَ الْأَوَّلِ , ثُمَّ بَكَى أَبُو بَكْرٍ , ثُمَّ قَالَ:" عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ , وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ , وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ , وَهُمَا فِي النَّارِ , وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ , فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْمُعَافَاةِ , وَلَا تَحَاسَدُوا , وَلَا تَبَاغَضُوا , وَلَا تَقَاطَعُوا , وَلَا تَدَابَرُوا , وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا".
اوسط بن اسماعیل بجلی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پچھلے سال میری اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے لیے سچائی کو لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی ساتھی ہے، اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی، اور تم جھوٹ سے پرہیز کرو کیونکہ جھوٹ برائی کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گی، اور تم اللہ تعالیٰ سے تندرستی اور عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد صحت و تندرستی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، تم آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہ کرو، قطع رحمی اور ترک تعلقات سے بچو، اور ایک دوسرے سے منہ موڑ کر پیٹھ نہ پھیرو بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6586، ومصباح الزجاجة: 1348)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 106 (3558)، مسند احمد (1/3، 5، 7، 8) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی تمام مسلمانوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آؤ، اور کسی مسلمان کو مت ستاؤ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دعا کرو «اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني»”اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی و درگزر کو پسند کرتا ہے تو تو مجھ کو معاف فرما دے۔“
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 85 (3513)، (تحفة الأشراف: 16185)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/171، 182، 183، 208) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3513) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جو بھی دعا مانگتا ہے وہ اس دعا سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتی: (وہ دعا یہ ہے) «اللهم إني أسألك المعافاة في الدنيا والآخرة» اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت چاہتا ہوں۔“
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة عنعن وفي السند اختلاف وللحديث شاهد معنوي (بالسند المنقطع) في مجمع الزوائد (10/ 175) وقال: ”رواه البزار ورجاله رجال الصحيح‘‘۔قلت: ھو في كشف الأستار (4/ 51۔52 ح 3176) و قال البزار: ”و سالم (بن أبي الجعد) لم يسمع من أبي الدرداء“ فالسند ضعيف لانقطاعه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ہم پر اور عاد کے بھائی (ہود علیہ السلام) پر رحم فرمائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5592، ومصباح الزجاجة: 1350) (ضعیف)» (سند میں زید بن الحباب ہیں، جو سفیان سے احادیث کی روایت میں غلطیاں کرتے ہیں، نیز ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: 4829)
وضاحت: ۱؎: ہود علیہ السلام قوم عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو إسحاق ھو الشيباني،وفيه عنعنة سفيان الثوري وللحديث شاهد مرسل ضعيف عند ابن أبي شيبة (220/10) وحديث مسلم (2380/172) يُغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے“، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہ کی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایسا کہنا مالک کی جناب میں بے ادبی ہے، اور مالک کا اختیار ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے اس وقت دعا قبول کرتا ہے، کبھی جلدی، کبھی دیر میں اور کبھی دنیا میں قبول نہیں کرتا، جب بندے کا فائدہ دعا قبول نہ ہونے میں ہوتا ہے تو آخرت کے لئے اس دعا کو اٹھا رکھتا ہے، غرض مالک کی حکمتیں اور اس کے بھید زیادہ وہی جانتا ہے، اور کسی حال میں بندے کو اپنے مالک سے مایوس نہ ہونا چاہئے، کیونکہ سوا اس کے در کے اور کونسا در ہے؟ اور وہ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحیم وکریم ہے، پس بہتر یہی ہے کہ بندہ سب کام اللہ کی رضا پر چھوڑ دے اور ظاہر میں شرعی احکام کے مطابق دعا کرتا رہے، لیکن اگر دعا قبول نہ ہو تو بھی دل خوش رہے، اور یہ سمجھے کہ اس میں ضرور کوئی حکمت ہو گی، اور ہمارا کچھ فائدہ ہو گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے یقینی طور پر سوال کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی زور زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13872)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 31 (7477)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 3 (2679)، سنن ابی داود/الصلاة 358 (1483)، سنن الترمذی/الدعوات 78 (3497)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن 8 (28)، مسند احمد (2/243، 457، 486) (صحیح)»
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیات میں ہے «وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم»”تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے“(سورۃ البقرہ: ۱۶۳) اور سورۃ آل عمران کے شروع میں: «الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم»” «الم»، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو حی و قیوم (زندہ اور سب کا نگہبان) ہے۔“(سورۃ آل عمران: ۱-۲)۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 358 (1496)، سنن الترمذی/الدعوات 65 (3478)، (تحفة الأشراف: 15767)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/461)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 14 (3432) (حسن)» (سند میں عبید اللہ القداح ضعیف ہیں، نیز شہر بن حوشب میں بھی کلام ہے، ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اس کی شاہد ابوامامہ کی حدیث (3856؍أ) ہے، جس سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہوئی، ملاحظہ ہو: ا لصحیحہ: 746، وصحیح ابی داود: 5؍ 234)
وضاحت: ۱؎: سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران میں بھی یہی ہے: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم»(سورة آل عمران: 2) اور سورۃ طہ میں ہے: «الله لا إله إلا هو له الأسماء الحسنى»(سورة طہ: 8) بعضوں نے کہا: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» یہی اسم اعظم ہے، بعضوں نے کہا صرف «الحي القيوم» ہے۔