(مرفوع) حدثنا ابو بكر , وعلي بن محمد , قالا: حدثنا عبيد بن سعيد , قال: سمعت شعبة , عن يزيد بن خمير , قال: سمعت سليم بن عامر يحدث , عن اوسط بن إسماعيل البجلي , انه سمع ابا بكر , حين قبض النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في مقامي هذا عام الاول , ثم بكى ابو بكر , ثم قال:" عليكم بالصدق فإنه مع البر , وهما في الجنة , وإياكم والكذب فإنه مع الفجور , وهما في النار , وسلوا الله المعافاة , فإنه لم يؤت احد بعد اليقين خيرا من المعافاة , ولا تحاسدوا , ولا تباغضوا , ولا تقاطعوا , ولا تدابروا , وكونوا عباد الله إخوانا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يُحَدِّثُ , عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيل الْبَجَلِيِّ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرٍ , حِينَ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَقَامِي هَذَا عَامَ الْأَوَّلِ , ثُمَّ بَكَى أَبُو بَكْرٍ , ثُمَّ قَالَ:" عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ , وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ , وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ , وَهُمَا فِي النَّارِ , وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ , فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْمُعَافَاةِ , وَلَا تَحَاسَدُوا , وَلَا تَبَاغَضُوا , وَلَا تَقَاطَعُوا , وَلَا تَدَابَرُوا , وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا".
اوسط بن اسماعیل بجلی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پچھلے سال میری اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے لیے سچائی کو لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی ساتھی ہے، اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی، اور تم جھوٹ سے پرہیز کرو کیونکہ جھوٹ برائی کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گی، اور تم اللہ تعالیٰ سے تندرستی اور عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد صحت و تندرستی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، تم آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض نہ کرو، قطع رحمی اور ترک تعلقات سے بچو، اور ایک دوسرے سے منہ موڑ کر پیٹھ نہ پھیرو بلکہ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی تمام مسلمانوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آؤ، اور کسی مسلمان کو مت ستاؤ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6586، ومصباح الزجاجة: 1348)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 106 (3558)، مسند احمد (1/3، 5، 7، 8) (صحیح)»
عليكم بالصدق مع البر وهما في الجنة إياكم والكذب فإنه مع الفجور وهما في النار سلوا الله المعافاة لم يؤت أحد بعد اليقين خيرا من المعافاة لا تحاسدوا لا تباغضوا لا تقاطعوا لا تدابروا كونوا عباد الله إخوانا
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3849
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہر نیکی کا سچ سےتعلق ہے، اس لیے سچ پر قائم رہنے والے اورہمیشہ سچ بولنے والے کو ہر نیکی کی توفیق مل سکتی ہے۔
(2) گناہ کا تعلق جھوٹ سے ہے اس لیےجھوٹ بولنے والے سے کسی بھی گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
(3) ہمیشہ سچ بولنے والا اور جھوٹ سےہمیشہ پرہیز کرنے والا جنت میں جائے گا۔ اور جو شخص جھوٹ کا عادی ہو، وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہوگا۔
(4) ایمان سب سے بڑی روحانی نعمت ہے اور عافیت سب سے بڑی دنیاوی نعمت ہے، لہٰذا اللہ سےان کی دعا کرنی چا ہیے۔
(5) حسد کا مطلب ہے کسی کی نعمت چھن جانے کی خواہش رکھنا۔ کافروں کی شکست اور ذلت کی خواہش رکھنا حسد نہیں۔ یہ چیز ان کے لیے اس لحاظ سے نعمت ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اسلام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں اور انہیں ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔
(6) مسلمانوں کا معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض رہنا اچھا نہیں، البتہ کفر، شرک اور بدعت وغیرہ کی بنا پر نفرت رکھنا درست ہے۔
(7) قطع تعلقی، خاص طور پر رشتہ داروں کے درمیان تعلقات کا منقطع رہنا نا مناسب ہے، البتہ کسی شرعی سبب سے ناراضی جائز ہے، بالخصوص جب یہ امید ہو کہ ناراضی کے اظہار کا اچھا اثر ہوگا اور غلطی کرنے والا اپنی اصلاح کر لے گا۔
(8) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ آپس میں قبیلے، برادری، علاقے، زبان اور پارٹی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا اسلام کے خلاف ہے بلکہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3849
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:7
اوسط بن اسماعیل بجلی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: گزشتہ سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے، پھر وہ (یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) رونے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم پر سچائی اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور تم پر جھوٹ سے بچنا لازم ہے، کیونکہ وہ گناہوں کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، کیونکہ کسی بھی بندے کو یقین کے بعد ایسی کوئی چیز نہیں دی گئی، جو عافیت سے زیادہ بہتر ہو۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر: 7]
فائدہ: حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے۔ بعض اہم مواقع پر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے ایام میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امام بنا کر لوگوں کو جماعت کروانے کا حکم دیا تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ اللہ کے نبی! آپ انھیں حکم نہ دیں، وہ انتہائی نرم دل آدمی ہیں۔ [صحيح البخاري: 678، صحيح مسلم: 418] اس حدیث میں تربیت انسان کے بعض اہم پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے مثلاً: نیکی اور سچائی کو لازم پکڑنا، اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ نیک انسان سچ بولے گا اور سچا انسان نیکیوں کی تلاش میں رہے گا۔ ان دونوں وصفوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو دوسرا وصف ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح جھوٹا انسان گناہ کرے گا، جھوٹ اور گناہ لازم وملزوم ہیں۔ جھوٹ بولنے والے سے کسی بھی گناہ کی توقع ممکن ہے، اس لیے سچ اور نیکی اختیار کرنے والا جنت کا مستحق ہوگا اور جھوٹ اور گناہ میں ملوث ہونے والا جہنم کا مستحق ٹھہرے گا، اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے محفوظ فرمائے، آمین۔ اسی طرح عافیت کو لازم پکڑنے کی تاکید کی گئی ہے، بغیر کسی شرعی عذر کے لوگوں سے سوال کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ افسوس کہ جس قدر عافیت کی اہمیت زیادہ تھی، اس قدر لوگوں نے اس کو چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت میں رہنے کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اس حدیث مبارکہ میں مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کرنے پر بھی توجہ دلائی گئی ہے، مثلاً: رشتہ داری کو توڑنا حرام ہے اور صلہ رحمی کرنا فرض ہے۔ کوئی آپ سے دوری اختیار کرنا چاہے، آپ پھر بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھیں، اصل یہی صلہ رحمی ہے، اور کسی سے قطع تعلقی کی حد تین دن ہے۔ اس میں حسد سے روکا گیا ہے، اس کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهـو تـمنى زوال النعمة عن صاحبها سواء كانت نعمة دين أو دنيا، قال الله تعالى: ام يحسدون الناس علىٰ ما آتاهم الله من فضله»[النساء: 54] اور یہ (حسد) کسی صاحب نعمت سے زوال نعمت کی آرزو کرنے کا نام ہے، وہ نعمت دینی ہو یا دنیاوی۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں، اس نعمت پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سےعطا فرمائی ہے۔ [رياض الصالحين: قبل الحديث: 1569] حسد کرنا حرام ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ایک مشہور روایت بیان کی جاتی ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ [سنن ٱبي داود: 4903] اس کی سند ابراہیم بن اسید کے دادا کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ البتہ دو آدمیوں پر حسد (رشک) کرنا درست ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر حسد (رشک) کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا (یعنی سے حفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائی) پس وہ اس کے ساتھ رات اور دن کے اوقات میں قیام کرتا ہے، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا، وہ اسے اللہ کی راہ میں رات اور دن کے اوقات میں خرچ کرتا ہے۔ [صحيح البخاري: 5025، صحيح مسلم: 815] رشک میں کسی نعمت کے زائل ہونے کی تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ نعمت اس کے پاس بھی رہے اور اللہ تعالی مجھے بھی دے دے، کی تمنا کی جاتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 7