قاسم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جس کے ذریعہ اگر دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے تین سورتوں میں ہے: سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہٰ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران میں بھی یہی ہے: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم»(سورة آل عمران: 2) اور سورۃ طہ میں ہے: «الله لا إله إلا هو له الأسماء الحسنى»(سورة طہ: 8) بعضوں نے کہا: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» یہی اسم اعظم ہے، بعضوں نے کہا صرف «الحي القيوم» ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3856
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین نام (اسم اعظم) کے بارے میں امام ابن ماجہ نے متعدد احادیث بیان کی ہیں کہ اس نام کے واسطے سے کی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔
(2) دعا کی قبولیت میں مسنون دعائیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ دعا کرنے والے کی قلبی کیفیت کا بہت زیادہ دخل ہے۔ جس قدر اللہ سے امید ہو، اس کے آگے عجز و انکساری کا اظہار اور ا س پر توکل زیادہ ہو، اور جس قدر دعا کے دوسرے آداب کو زیادہ ملحوظ رکھا جائے، قبولیت کا امکان اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔
(3) قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو، مثلاً: رزق حرام، بے توجہی سے دعا جو صرف زبان سے ادا ہوتی ہے دل متوجہ نہیں ہوتا، اللہ کی حمد و ثنا اور نبی ﷺ پر درود نہ پڑھنا وغیرہ، اس صورت میں اسم اعظم کی وہ برکات ظاہر نہیں ہوتیں جن کی اس سے امید رکھی جاتی ہے۔
(4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، نے اسم اعظم کے تعین میں چودہ اقوال ذکر کیے ہیں۔ دیکھئے: (فتح الباري: 11/ 268، 269، حديث: 6410) اسم اعظم والی جو آیات وادعیہ مختلف احادیث میں ذکر کی گئی ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً کلمہ توحید (لَا إِلٰهَ إِلَّا الله يا لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ) ہی اسم اعظم ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3856
اس سند سے ابوامامہ سے بھی اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4921، ومصباح الزجاجة: 1352) (حسن)» (غیلان بن انس مقبول ہیں، لیکن ابو یعلی میں عبداللہ بن العلاء نے ان کی متابعت کی ہے، نیز أسماء بنت یزید کی حدیث شاہد ہے، جو ترمذی اور ابوداود میں ہے)