عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا: ”شیطان شیطانہ کے پیچھے لگا ہوا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9786، ومصباح الزجاجة: 1317)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/345) (صحیح)» (سند میں حسن بصری اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا: ”شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1717، ومصباح الزجاجة: 1318) (حسن)» (سند میں ابوسعد الساعدی مجہول اور رواد بن جراح ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے یہ حسن ہے)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کسی کو تنہائی کی برائی اور خرابی معلوم ہو جاتی، تو وہ کبھی رات میں تنہا نہ چلتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: غزوہ خندق کے موقع پر زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوسی کے لیے تنہا بھیجا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ کسی جنگی ضرورت کے پیش نظر اکیلے سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
وضاحت: ۱؎: یہ آگ چراغ کی شکل میں ہو یا سردیوں میں گرمی حاصل کرنے کی انگیٹھیاں، اور ہیٹر یا گیس کے سلنڈر ہوں تجربات و مشاہدات سے واضح ہے کہ ان کو جلتا ہوا چھوڑ کر سونا نہایت خطرناک ہے۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ کا ایک گھر لوگوں سمیت جل گیا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک آگ تمہاری دشمن ہے، لہٰذا جب تم سونے لگو، تو آگ بجھا دیا کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 49 (6294)، صحیح مسلم/الأشربة 12 (2016)، (تحفة الأشراف: 9048)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/399) (صحیح)»
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت سی باتوں کا حکم دیا، اور بہت سی باتوں سے منع فرمایا: (ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ) آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (سوتے وقت) چراغ بجھا دیا کریں۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نہ راستہ کے درمیان قیام کرو، اور نہ وہاں قضائے حاجت کرو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجہاد 63 (2570)، (تحفة الأشراف: 2219)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/203) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف ہو گی، دین اسلام نے کوئی بات نہیں چھوڑی یہاں تک صفائی کا انتظام بھی اس میں موجود ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابو داود (2570) مسند احمد (3/ 382) الحسن لم يسمع من جابر رضي الله عنه وحديثا مسلم (1926،269) يغنيان عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 511
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، ایک بار میں نے اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، تو آپ نے ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے آگے، اور دوسرے کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دیا کرو، اس سے تمہاری مراد پوری ہو گی کیونکہ مٹی مبارک چیز ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3001، ومصباح الزجاجة: 1319)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 20 (2713) (ضعیف)» (سند میں بقیہ ضعیف و مدلس اور ابوحمد الدمشقی مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا بقية عنعن وأبو أحمد عمر الكلاعي الدمشقي: ضعيف من شيوخ بقية المجهولين (تقريب: 4953) وللحديث شواهد ضعيفة مردودة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 511
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی اور سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ اسے رنج و غم میں مبتلا کر دے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی سرگوشی اور کان میں بات کرنا اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے آدمی کو رنج ہو گا، اور اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہو گا کہ معلوم نہیں چپکے چپکے یہ کیا صلاح و مشورہ کرتے ہیں، البتہ اگر مجلس میں تین سے زائد آدمی ہوں تو دو آدمی باہم سرگوشی کر سکتے ہیں۔