ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان بیل بوٹوں نے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کو کے پاس لے کر جاؤ اور مجھے ان کی انبجانی چادر لا کر دے دو“۔
ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا جو یمن میں تیار کیا جاتا ہے، اور ان چادروں میں سے ایک چادر جنہیں ملبدہ (موٹا ارزاں کمبل) کہا جاتا ہے، نکالا اور قسم کھا کر مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میں وفات پائی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، جب رسول اکرم ﷺ نے ایک کمبل اور ایک تہبند پر اکتفا کی، تو ہر مومن کے سامنے لباس میں یہ اسوہ رسول رہنا چاہئے،مطلب یہ ہے کہ دنیا داروں کی خوشامد کرنے سے اور بیہودہ دوڑنے پھرنے سے ہمیشہ پرہیز رکھے، اور قناعت کو اپنا شعار گردانے اور سوال اور حاجت لے کر دوسروں کے سامنے جانے کی ذلت وخواری سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں آپ نے گرہ لگا رکھی تھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5085، ومصباح الزجاجة: 1240) (ضعیف الإسناد)» (خالد بن معدان نے نہ عبادہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور نہ ان سے سنا، نیز احوص بن حکیم ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف خالد بن معدان لم يسمع من عبادة كما في أطراف المسند (647/2) والأحوص بن حكيم: ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو برا بھلا کہا ہو یا آپ کا کپڑا تہ کیا جاتا رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17415، ومصباح الزجاجة: 1241) (ضعیف)» (عبداللہ بن لہیعہ صدوق راوی ہیں، لیکن ان کی کتابوں کے جلنے کے بعد اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اس لئے یہ سند ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن لهيعة: ضعيف من جھة سوء حفظه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم , عن ابيه , عن سهل بن سعد الساعدي ," ان امراة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ببردة , قال: وما البردة؟ قال: الشملة , قالت: يا رسول الله , نسجت هذه بيدي لاكسوكها، فاخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها , فخرج علينا فيها , وإنها لإزاره فجاء فلان بن فلان رجل سماه يومئذ , فقال: يا رسول الله , ما احسن هذه البردة اكسنيها , قال:" نعم" , فلما دخل طواها وارسل بها إليه , فقال له القوم: والله ما احسنت كسيها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها , ثم سالته إياها وقد علمت انه لا يرد سائلا , فقال: إني والله ما سالته إياها لالبسها , ولكن سالته إياها لتكون كفني , فقال سهل: فكانت كفنه يوم مات. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ," أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ , قَالَ: وَمَا الْبُرْدَةُ؟ قَالَ: الشَّمْلَةُ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي لِأَكْسُوَكَهَا، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا , فَخَرَجَ عَلَيْنَا فِيهَا , وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ فَجَاءَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْبُرْدَةَ اكْسُنِيهَا , قَالَ:" نَعَمْ" , فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاهَا وَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ كُسِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا , ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا , فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِأَلْبَسَهَا , وَلَكِنْ سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِتَكُونَ كَفَنِي , فَقَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ يَوْمَ مَاتَ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ»(چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا «بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ چادر کتنی اچھی ہے، یہ آپ مجھے پہنا دیجئیے، فرمایا: ”ٹھیک ہے“، پھر جب آپ اندر گئے تو اسے (اتار کر) تہ کیا، اور اس کے پاس بھجوا دی، لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اس لیے پہنائی تھی کہ آپ کو اس کی حاجت تھی، پھر بھی تم نے اسے آپ سے مانگ لیا، حالانکہ تمہیں معلوم تھا کہ آپ کسی سائل کو نامراد واپس نہیں کرتے تو اس شخص نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں نے آپ سے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا ہے بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو، سہل کہتے ہیں: جب وہ مرے تو یہی چادر ان کا کفن تھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 28 (1277)، البیوع 31 (2093)، اللباس 18 (5810)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ 43 (5323)، (تحفة الأشراف: 4721)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/333) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں اس شخص کا نام عبدالرحمن بن عوف مذکور ہے جو بزرگ صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اون کا (سادہ اور موٹا) لباس پہنا ہے، مرمت شدہ جوتا پہنا ہے اور انتہائی موٹا کپڑا زیب تن فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 542، ومصباح الزجاجة: 1242) (ضعیف)» (نوح بن ذکوان ضعیف ہے، اور بقیہ مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا انظر الحديث السابق (3348) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , قال: حدثنا اصبغ بن زيد , حدثنا ابو العلاء , عن ابي امامة , قال: لبس عمر بن الخطاب ثوبا جديدا , فقال: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي , واتجمل به في حياتي , ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من لبس ثوبا جديدا , فقال: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي , واتجمل به في حياتي , ثم عمد إلى الثوب الذي اخلق او القى فتصدق به كان في كنف الله , وفي حفظ الله وفي ستر الله حيا وميتا" , قالها ثلاثا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ , حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَوْبًا جَدِيدًا , فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي , وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي , ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا , فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي , وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي , ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ أَوْ أَلْقَى فَتَصَدَّقَ بِهِ كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ , وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سِتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا" , قَالَهَا ثَلَاثًا.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نیا کپڑا پہنا تو یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» یعنی: ”اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں، اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں“، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور یہ دعا پڑھے: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» یعنی ”اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں“، پھر وہ اس کپڑے کو جو اس نے اتارا، یا جو پرانا ہو گیا صدقہ کر دے، تو وہ اللہ کی حفظ و امان اور حمایت میں رہے گا، زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 108 (3560)، (تحفة الأشراف: 10467)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/44) (ضعیف)» (سند میں ا بو العلاء مجہول راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3560) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
(مرفوع) حدثنا الحسين بن مهدي , حدثنا عبد الرزاق , انبانا معمر , عن الزهري , عن سالم , عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى على عمر قميصا ابيض , فقال:" ثوبك هذا غسيل ام جديد" , قال: لا بل غسيل , قال:" البس جديدا , وعش حميدا , ومت شهيدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عُمَرَ قَمِيصًا أَبْيَضَ , فَقَالَ:" ثَوْبُكَ هَذَا غَسِيلٌ أَمْ جَدِيدٌ" , قَالَ: لَا بَلْ غَسِيلٌ , قَالَ:" الْبَسْ جَدِيدًا , وَعِشْ حَمِيدًا , وَمُتْ شَهِيدًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک سفید قمیص پہنے دیکھا تو پوچھا: ”تمہارا یہ کپڑا دھویا ہوا ہے یا نیا ہے“؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، یہ دھویا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «البس جديدا وعش حميدا ومت شهيدا»”نیا لباس، قابل تعریف زندگی، اور شہادت کی موت نصیب ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6950، ومصباح الزجاجة: 1243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/88) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري عنعن وله شاھد ضعيف عند ابن أبي شيبة (8/ 265۔266،10 / 402) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک «اشتمال صماء»۱؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں «احتباء»۲؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔
وضاحت: ۱؎: «اشتمال صماء»: ایک کپڑا سارے بدن پر لیپٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے۔ ۲؎: «احتباء»: ایک کپڑا اوڑھ کے لوٹ مار کر اس طرح سے بیٹھے کہ شرم گاہ کھلی رہے یا شرم گاہ پر کوئی کپڑا نہ رہے۔