(مرفوع) حدثنا الحسين بن مهدي , حدثنا عبد الرزاق , انبانا معمر , عن الزهري , عن سالم , عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى على عمر قميصا ابيض , فقال:" ثوبك هذا غسيل ام جديد" , قال: لا بل غسيل , قال:" البس جديدا , وعش حميدا , ومت شهيدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عُمَرَ قَمِيصًا أَبْيَضَ , فَقَالَ:" ثَوْبُكَ هَذَا غَسِيلٌ أَمْ جَدِيدٌ" , قَالَ: لَا بَلْ غَسِيلٌ , قَالَ:" الْبَسْ جَدِيدًا , وَعِشْ حَمِيدًا , وَمُتْ شَهِيدًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک سفید قمیص پہنے دیکھا تو پوچھا: ”تمہارا یہ کپڑا دھویا ہوا ہے یا نیا ہے“؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، یہ دھویا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «البس جديدا وعش حميدا ومت شهيدا»”نیا لباس، قابل تعریف زندگی، اور شہادت کی موت نصیب ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6950، ومصباح الزجاجة: 1243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/88) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري عنعن وله شاھد ضعيف عند ابن أبي شيبة (8/ 265۔266،10 / 402) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3558
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سفید لباس بہترین لباس ہے۔ یہ نبی ﷺ کو زیادہ پسند تھا۔
(2) پہلی روایت (3557) کو امام ابن حبان امام بو صیری حافظ ابن حجر اور شیخ البانی نے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے جبکہ ہمارے فاضل محقق نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور انھی کے رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مسند احمد کے محققین نے بھی طویل بحث کے بعد اسے منکر قرار دیا ہے اور دکتور بشار عواد نے بھی اس حدیث پر یہی حکم لگایا ہے لہٰذا ہمارے فہم کے مطابق اس موقع پر دوسری صحیح احادیث میں وارد دعائیں پڑھنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اءعلم۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثية مسند الإمام أحمد: 441، 442 و سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد رقم: 3558)
(3) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کہ رسول اللہﷺ جب نیا لباس پہنتے تو یہ دیا پڑھتے: (اللهم لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ أَسْأَلُكَ خَيرَهُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لُه) ”اے اللہ! تیری ہی تعریف ہے۔ تو نے ہی مجھے یہ پہنایا ہے۔ میں تجھ سے اس کی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے۔ اور میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس شر سے جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے۔ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ما يقول إذا لبس ثوباً جديداً، حديث: 4020) اور جب عام لباس پہنتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ»”ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مجھےیہ لباس پہنایا اور میری ذاتی قوت اور طاقت کے بغیر مجھے عطا کیا۔“ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ما يقول إذا لبس ثوباً جديداً حديث: 4023) ابوداؤد میں ہی ابو نصرہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺکے صحابہ میں سے جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی: (تبلى ويخلف الله تعالىٰ) ”اللہ کرے تم اسے خوب (استعمال کرکے) پرانا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بعد اور بھی عنایت فرمائے۔“(حوالہ مذکورہ) مذکورہ دعائیں رسول اللہﷺسے صحیح سند سے ثابت ہیں لہذا ہمیں مسنون دعاؤں ہی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3558