سنن ابن ماجه
كتاب اللباس
کتاب: لباس کے متعلق احکام و مسائل
3. بَابُ : مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنَ اللِّبَاسِ
باب: ممنوع لباس کا بیان۔
حدیث نمبر: 3559
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ لِبْسَتَيْنِ، فَأَمَّا اللِّبْسَتَانِ: فَاشْتِمَالُ الصَّمَّاءِ، وَالِاحْتِبَاءُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک «اشتمال صماء» ۱؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں «احتباء» ۲؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2170)، (تحفة الأشراف: 4154) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «اشتمال صماء»: ایک کپڑا سارے بدن پر لیپٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے۔
۲؎: «احتباء»: ایک کپڑا اوڑھ کے لوٹ مار کر اس طرح سے بیٹھے کہ شرم گاہ کھلی رہے یا شرم گاہ پر کوئی کپڑا نہ رہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3559 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3559
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لباس کا مقصد جسم کو اور خاص طور پر پردے کے اعضاء (شرم گاہ)
کو چھپانا ہے۔
اگر چادر یا تہبند اس انداز سے استعمال کیا جئے کہ یہ مقصد حاصل نہ ہو تو یہ ممنوع ہے کیونکہ ایسا لباس حیا کے منافی ہے۔
(2)
کپڑے میں لپٹ جانے کو (اشتمال الصماء)
کہتے ہیں۔
صماء کے معنی ٹھوس چیز کے ہیں یعنی اس طرح چادر اوڑھ کر انسان آسانی سے حرکت کرنے سے محروم ہو جاتا ہے جس طرح ٹھوس پتھر حرکت نہیں کر سکتا۔
(3) (احتباء)
کا مطلب ہے گھٹنے کھڑے کر کے اس طرح بیٹھنا کہ ایک کپڑے کے ساتھ کمر اور گھٹنوں کو باندھ لیا جائے۔
اگر تہبند کو اس طرح باندھ کر بیٹھا جائے تو پردے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اگر تہبند کے علاوہ دوسرے کپڑے کو اس طرح لے کر بیٹھا جائےتو جائز ہے کیونکہ اس سے بے پردگی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
یہ ایک کپڑے میں احتباء نہیں۔
(4)
بعض اوقات گھٹنے کھڑے کر کے بازو ان کے سامنے لا کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پکڑ لیا جاتا ہے۔
اس طرح بیٹھنا جائز ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے بے پردگی نہیں ہوتی لیکن خطبے کے دوران میں اس طرح بیٹھنے سے روکا گیا ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3559
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5344
´ایک کپڑے میں لپیٹ کر بیٹھنے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے بدن پر کپڑا لپیٹ لینے اور ایک ہی کپڑے میں لپیٹ کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5344]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا اگر پورے کپڑے پہنے ہوں اور کسی زائد کپڑے سے گوٹھ مارے جس سے پردے پر کوئی اثر نہ پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5344
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2417
´عیدین (عیدالفطر اور عید الاضحی) کے دن روزہ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا: ایک عید الفطر کے دوسرے عید الاضحی کے، اسی طرح دو لباسوں سے منع فرمایا ایک صمّاء ۱؎ دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ۲؎ کرنے سے (جس سے ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے) نیز دو وقتوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: ایک فجر کے بعد، دوسرے عصر کے بعد۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2417]
فوائد ومسائل:
(1) عید کے دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے۔
(2) نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنا ناجائز ہے، لیکن کوئی قضا نماز پڑھنی ہو یا کوئی سببی نماز ہو تو بعض کے نزدیک مباح ہے بشرطیکہ سورج نکلنے یا غروب ہونے والا نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2417
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:747
747- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے سودے اور دو طرح کے لباس سے منع کیا ہے جہاں تک دو طرح کے سودے کا تعلق ہے، تو وہ ملامسہ اور منابذہ ہیں جہاں دوطرح کے لباس کا تعلق ہے، تو وہ اشتمال صماء اور آدمی کا ایک کپڑے کو احتباء کے طور پر یوں لپیٹنا ہے، کہ آدمی کی شرمگاہ پر کپڑا نہ ہو۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:747]
وضاحت ◄
ملامسہ: ہاتھ لگانا ہی بیع تصور کیا جاتا تھا۔
منابذہ: خرید نے والے کی طرف پھینک دینا ہی بیع قرار دیا جا تا تھا۔
ان ہر دو قسم کی تجارت میں مشتری کو پسند کرنے کا موقع نہ ملتا تھا اور وہ خریدنے پر مجبور ہوتا۔ یہ بیع کئی مفاسد کا باعث تھی۔ اس لیے ممانعت فرمائی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 756
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:767
767- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جاسکتا ہے۔ مسجد الحرم، میری یہ مسجد اور مسجد ایلیاء (یعنی بیت المقدس)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے: ”عورت اگر تین دن سے زیادہ کا سفر کرتی ہے، تو اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہو نا چاہیے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ادا کرنے سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن کے روزے رکھنے سے بھی منع کیا ہے۔ عیدالاضحیٰ کا دن اور عید الفطر کا دن۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:767]
فائدہ:
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ نماز عصر کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنا جائز ہیں منع صرف اس وقت ہیں جب سورج زرد ہو گیا ہو۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد نوافل وغیرہ جائز ہیں منع صرف اس وقت میں جب سورج طلوع ہو رہا ہو۔ اس کی وضاحت دیگر دلائل سے ہوتی ہے۔ مثلاً سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بـعـد الـعـصـر حتى تغرب الشمس وعن الصلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس»
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور نماز صبح کے بعد حتیٰ، کہ سورج طلوع ہو جائے۔ [صـحـيـح بـخـاري: 588 صـحـيـح مـسـلـم: 825]
اس حدیث میں اور دوسری احادیث میں وارد ہونے والی نہی (ممانعت) کو سورج زرد ہونے کے بعد کے وقت پر محمول کریں گے، اس پر قرینہ یہ ہے که سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«ان النبى صلى الله عليه وسلم نهـى عـن الـصـلاة بـعـد العصر الا والشمس مرتفعة»
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد (نفلی) نماز پڑھنے سے منع فرما دیا، ہاں! جب سورج بلند ہو، (تو پڑھ سکتے ہیں)“۔ [مسند الامام أحمد: 80/ 1- 81، 129، 141، سنن ابی داود: 1274 وسنده حسن التريب: 187/2]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ولا تـصـلـوا عند طلوع الشمس ولا عند غروبها، فانها تطلع و تغرب على قرنى الشيطان، وصلو ابين ذلك ما شئتم»
”تم سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے، اس کے درمیان جتنی چاہو نماز پڑھو“۔ [مسند ابی یعلی: 4612، وسنده حسن]
بے شمار صحابہ کرام سے بعد نماز عصر نوافل پڑھنا ثابت ہیں مثلاً: عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں:
«كنا مع على رضي الله عنه فى سفر فصلٰى بنا العصر ركعتين، ثم دخل فسطاطه و أنا أنظر، فصلى ركعتين»
ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ نے ہمیں عصر کی دورکعتیں پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں داخل ہو کر دورکعتیں ادا کیں، میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ [السنن الکبری للبیهقی: 459/ 2، وسنده حسن]
طاؤس بن کیسان تابعی کہتے ہیں:
´´ورخص في الركعتين بعد العصر``
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کی رخصت دی ہے۔ [سنن ابی داود: 1284 وسنده حسن]
امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا، وہ عصر کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتی تھیں اور ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھ کر چار پڑھتی تھیں“۔ [الاوسـط لابـن الـمـنـذر: 394/2، وسنده حسن] وغيره
بعض اہل علم کا کہنا کہ عصر کے بعد دو رکعات پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا یہ انتہائی کمزور بات ہے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر خاصہ ہوتا تو صحابہ کرام عصر کے بعد نوافل بھی ادا نہ کرتے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 769
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6284
6284. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دو قسم کے ملبوسات اور دو طرح کی خرید فروخت سے منع فرمایا تھا: اشتمال صماء (بولی بکل) اور ایک ہی کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا جبکہ آدمی کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور دو قسم کی خرید وفروخت یہ ہے کہ محض کوئی چیز پھینکنے یا اسے ہاتھ سے چھونے سے بیع پختہ ہو جائے اس سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے حضرت معمر محمد بن ابی حفص اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6284]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا کہ اس میں ستر عورت کھلنے کا ڈر ہو تو اس سے یہ نکلا کہ یہ ڈر نہ ہو تو اسطرح بیٹھنا بھی جائز درست ہے۔
امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک چار زانوں بیٹھے رہا کرتے تھے۔
معمر کی روایت کو امام بخاری نے”کتاب البیوع“ میں اور محمد بن ابی حفصہ کی روایت کو ابن عدی نے اور عبد اللہ بن بدیل کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں وصل کیا ہے۔
”ملامسۃ“ کے بارے میں علامہ نووی نے شرح مسلم میں علماء سے تین صورتیں نقل کی ہیں ایک یہ کہ بیچنے والا ایک کپڑا لپٹا ہوا یا اندھیرے میں لے کر آئے اور خریدار اس کو چھوئے تو بیچنے والا یہ کہے کہ میں نے یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچا اس شرط سے کہ تیرا چھونا تیرے دیکھنے کے قائم مقام ہے اور جب تو دیکھے تو تجھے اختیار نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ کہ چھونا خود بيع قرار دیا جائے مثلا مالک خریدار سے یہ کہے کہ جب تو چھوئے تووہ مال تیرے ہاتھ بک گیا۔
تيسری صورت یہ کہ چھونے سے مجلس کا اختیار قطع کیا جائے اور تینوں صورتوں میں بیع باطل ہے۔
اسی طرح بیع منابذہ کے بھی تین معنی ہیں۔
ایک تو یہ کہ کپڑے کا پھینکنا بیع قرار دیا جائے یہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ہے۔
دوسری یہ کہ پھینکنے سے اختیار قطع کیا جائے، تیسری یہ کہ پھینکنے سے کنکری کا پھینکنا مراد ہے۔
یعنی خرید نے والا بائع کے حکم سے کسی مال پر کنکری پھینک دے تو وہ کنکری جس چیز پر پڑ جائے گی اس کا لینا ضروری ہو جائے گا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔
یہ سب جاہلیت کے زمانے کی بیع ہیں جو جوئے میں داخل ہیں، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے اور روایت ہذا میں دو قسم کے لباسوں سے منع فرمایا گیا ہے۔
ایک اشتمال صماء ہے جس کی یہ صورت جو بیان کی گئی ہے دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی ایک کپڑے کو اپنے جسم پر اس طرح سے لپیٹ لے کہ کسی طرف سے کھلا نہ رہے گویا اس کو اس پتھر سے مشابہت دی جس کو صخرہ صماء کہتے ہیں یعنی وہ پتھر جس میں کوئی سوراخ یا شگاف نہ ہو سب طرف سے سخت اور یکساں ہو۔
بعض نے کہا کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ آدمی کسی بھی کپڑے سے اپنا سارا جسم ڈھانپ کر کسی ایک جانب سے کپڑے کو اٹھا دے تو اس کا ستر کھل جائے۔
غرض یہ دونوں قسمیں ناجائز ہیں اور دوسرا لباس احتباء یہ ہے کہ جس سے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو تو ایک ہی کپڑا سے گوٹ مار کر بیٹھے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک کپڑے سے یا ہاتھوں سے اپنے پاؤں اور پیٹ کو ملا کر پیٹھ یعنی کمر سے جکڑے تو اگر شرمگاہ پر کپڑا ہے اور شرمگاہ ظاہر نہیں ہوتی ہے تو جائز ہے اور اگر شرمگاہ ظاہر ہو جاتی ہے تو ناجائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:367
367. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سخت بکل سے منع فرمایا ہے، نیز آپ نے گوٹھ مار کر ایک کپڑے میں بیٹھنے سے بھی روکا جبکہ آدمی کی شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:367]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سے پہلے امام بخاری ؒ ایک عنوان لائے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ نماز اور غیر نماز میں ننگے رہنے کی ممانعت ہے۔
اب اس حدیث سے ننگے رہنے کی حد (تعریف)
بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ (سَوءَتَين)
یعنی پیشاب اور پاخانے کا مقام کھلا ہوا ہو تو یہ ننگا رہنا ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں احتباء کی شکل سے منع فرمایا ہے جبکہ اس کا عضو مستور مکشوف ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اعضائے مخصوصہ مستور ہیں تو اس سے منع نہیں کیا گیا۔
گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک کشف ستر کا مداردبر و قبل کے ننگے یا مستور ہونے پر ہے، اگر یہ اعضاء کھلے ہیں اور باقی پورا جسم ڈھکاہے تو ایسے شخص کو برہنہ کہا جائے گا اور اگر اس کے برعکس یہ اعضاء مستور ہیں تو پھر خواہ سارا جسم کھلا ہو، اسے کشف ستر یا ننگے رہنے کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔
2۔
اشتمال صماء کی تشریح فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ انسان چادر اوڑھے پھر ایک طرف سے چادر کے دونوں کنارے اٹھا کر دوسرے کندھے پر ڈال لے، جس سے جسم کا ایک حصہ بالکل کھلا رہے، جبکہ اس کے نیچےکوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔
ایسا کرنا حرام ہے، کیونکہ شریعت نے بلاوجہ کشف ستر کی اجازت نہیں دی۔
اشتمال صماء کی یہ تعریف ایک حدیث میں مرفوعاً مروی ہے۔
(صحیح البخاری، اللباس، حدیث: 5821)
دوسری تعریف اہل لغت نے کی ہے کہ چادر اس طرح بدن پر لپیٹی جائے کہ ہاتھ بندھ جائیں اور ان کے باہر نکالنےکا کوئی راستہ نہ رہے۔
اس طرح چادر لپٹنےسے نقل و حراکت میں بہت دشواری ہوتی ہے۔
اس تفسیر کے مطابق اشتمال صماء ایک ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت ہاتھوں کا باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے جس سے کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔
(فتح الباري: 618/1)
2۔
احتباء یہ ہے کہ انسان اپنے گھٹنوں کو پیٹ سے ملا کر اپنے سرینوں پر بیٹھ جائے, پھراپنے ہاتھ یا کپڑے سے اس کی بندش کر لے, جبکہ اس کی شرم گاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔
عرب کے ہاں اس طرح بیٹھنا معیوب نہیں تھا۔
احتباء کی یہ تعریف ایک مرفوع حدیث میں مروی ہے۔
(صحیح البخاری، اللباس، حدیث: 5821)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر شرم گاہ ننگی نہ ہوتو منع نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5822
5822. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اشتمال صماء سے منع فرمایا ہے اور اس سے بھی روکا ہے کہ ایک شخص کپڑے سے اپنی کمر اور پنڈلیوں کو باندھ لے جبکہ شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5822]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں ہے کہ آدمی کپڑا اس طرح لپیٹے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4080) (2)
اس کے ممنوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں عریانی پائی جاتی ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ ظاہر ہوتی ہے، حالانکہ اسے ڈھانپنے کا حکم ہے۔
بعض اوقات اوباش لوگ اس طرح کرتے ہیں، لہذا ان کی مشابہت اختیار کرنا بھی درست نہیں، البتہ پردے کا اہتمام ہو تو احتیاط کے ساتھ اس طرح بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔
اسے ہماری زبان میں گوٹ مار کر بیٹھنا کہتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5822
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6284
6284. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دو قسم کے ملبوسات اور دو طرح کی خرید فروخت سے منع فرمایا تھا: اشتمال صماء (بولی بکل) اور ایک ہی کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا جبکہ آدمی کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور دو قسم کی خرید وفروخت یہ ہے کہ محض کوئی چیز پھینکنے یا اسے ہاتھ سے چھونے سے بیع پختہ ہو جائے اس سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے حضرت معمر محمد بن ابی حفص اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6284]
حدیث حاشیہ:
(1)
اشتمال صماء یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر اس طرح کپڑا اوڑھ لے کہ ہاتھ بالکل بند ہو جائیں۔
ایسے حالات میں انسان معمولی سی ٹھوکر لگنے سے گرپڑتا ہے۔
اسے پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں کسی طرف سے کوئی سوراخ یا شگاف نہیں ہوتا۔
اس احتباء کی یہ صورت ہے کہ انسان اس طرح گوٹھ مار کر بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ ننگی ہو، اگر ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ان ممنوع صورتوں کے علاوہ انسان جس طرح چاہے بیٹھ سکتا ہے۔
اس پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ بیٹھتے وقت فلاں قسم کا انداز اختیار کرے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6284