(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الرحيم بن سليمان , عن يزيد بن ابي زياد , عن سليمان بن عمرو بن الاحوص , عن ام جندب , قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى جمرة العقبة من بطن الوادي يوم النحر , ثم انصرف وتبعته امراة من خثعم , ومعها صبي لها , به بلاء لا يتكلم , فقالت: يا رسول الله , إن هذا ابني وبقية اهلي وإن به بلاء لا يتكلم , فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائتوني بشيء من ماء" , فاتي بماء فغسل يديه , ومضمض فاه , ثم اعطاها , فقال:" اسقيه منه , وصبي عليه منه , واستشفي الله له" , قالت: فلقيت المراة , فقلت: لو وهبت لي منه , فقالت: إنما هو لهذا المبتلى , قالت: فلقيت المراة من الحول فسالتها عن الغلام , فقالت: برا وعقل عقلا ليس كعقول الناس. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ , عَنْ أُمِّ جُنْدُبٍ , قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي يَوْمَ النَّحْرِ , ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَبِعَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ , وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا , بِهِ بَلَاءٌ لَا يَتَكَلَّمُ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ هَذَا ابْنِي وَبَقِيَّةُ أَهْلِي وَإِنَّ بِهِ بَلَاءً لَا يَتَكَلَّمُ , فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْتُونِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ" , فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ , وَمَضْمَضَ فَاهُ , ثُمَّ أَعْطَاهَا , فَقَالَ:" اسْقِيهِ مِنْهُ , وَصُبِّي عَلَيْهِ مِنْهُ , وَاسْتَشْفِي اللَّهَ لَهُ" , قَالَتْ: فَلَقِيتُ الْمَرْأَةَ , فَقُلْتُ: لَوْ وَهَبْتِ لِي مِنْهُ , فَقَالَتْ: إِنَّمَا هُوَ لِهَذَا الْمُبْتَلَى , قَالَتْ: فَلَقِيتُ الْمَرْأَةَ مِنَ الْحَوْلِ فَسَأَلْتُهَا عَنِ الْغُلَامِ , فَقَالَتْ: بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلًا لَيْسَ كَعُقُولِ النَّاسِ.
ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم النحر کو بطن وادی میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے تو آپ کے پیچھے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ ایک بچہ تھا جس پر آسیب تھا، وہ بولتا نہیں تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے اور یہی میرے گھر والوں میں باقی رہ گیا ہے، اور اس پر ایک بلا (آسیب) ہے کہ یہ بول نہیں پاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تھوڑا سا پانی لاؤ“، پانی لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اس میں کلی کی، پھر وہ پانی اسے دے دیا، اور فرمایا: ”اس میں سے تھوڑا سا اسے پلا دو، اور تھوڑا سا اس کے اوپر ڈال دو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے شفاء طلب کرو“، ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اس عورت سے ملی اور اس سے کہا کہ اگر تم اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دیتیں، (تو اچھا ہوتا) تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو صرف اس بیمار بچے کے لیے ہے، ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اس عورت سے سال بھر بعد ملی اور اس بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہو گیا ہے، اور اسے ایسی عقل آ گئی جو عام لوگوں کی عقل سے بڑھ کر ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3031) (ضعیف)» (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديثان السابقان (3028،3031) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 504
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد بن عبد الرحمن الكندي قال: حدثنا علي بن ثابت قال: حدثنا سعاد بن سليمان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير الدواء القرآن» (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعَّادُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ الدَّوَاءِ الْقُرْآنُ»
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دوا قرآن مجید ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10056) (ضعیف)» (سند میں حارث الاعور ضعیف راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق (3501) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 504
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دھاری سانپ کو مار ڈالنے کا حکم دیا، اس لیے کہ وہ آنکھ کی بینائی کو زائل کرنے اور عورتوں کے حمل کو گرا دیتا ہے، یہ ایک خبیث سانپ ہے ۱؎۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاری اور دم کٹے سانپ کو ضرور مارو، اس لیے کہ یہ دونوں آنکھ کی بینائی زائل کر دیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں“۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے ۱؎ اور ہم میں سے جسے بھی بدشگونی کا خیال آئے تو اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے یہ خیال دور کر دے گا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کے اوپر بھروسہ کرنے سے یہ وہم جاتا رہے گا، انسان کو چاہئے کہ اگر ایسا وہم کبھی دل میں آئے، تو اس کو بیان نہ کرے، اور منھ سے نہ نکالے،اور اللہ پر بھروسہ کرے، جو وہ چاہے وہ ہو گا، امام بخاری نے کہا: سلیمان بن حرب کہتے تھے کہ میرے نزدیک یہ قول: «ومامنا۔۔۔» اخیر تک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، بلکہ اکثر حفاظ نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کلام کہا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوت چھات ۱؎ اور بدشگونی کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست کوئی چیز نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6126، ومصباح الزجاجة: 1234)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/269، 328) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چھوت چھات یعنی بیماری خود سے متعدی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہوتا ہے، البتہ بیماریوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اسباب کو اپنانا مستحب ہے، الو کو دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے، تو وہ رات کو نکلتا ہے، اور اکثر ویرانوں میں رہتا ہے، عرب لوگ اس کو منحوس جانتے تھے، اور بعض یہ سمجھتے تھے کہ مقتول کی روح الو بن کر پکارتی پھرتی ہے، جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو وہ اڑ جاتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس خیال کو باطل قرار دیا، اسی طرح صفر کے مہینے کو عوام اب تک منحوس جانتے ہیں، صفر کے مہینے کے پہلے تیرہ دن جس میں رسول اکرم ﷺ بیمار ہوئے تھے ان ایام کو تیرہ تیزی کہتے ہیں، ان میں عورتیں کوئی بڑا کام جیسے شادی بیاہ وغیرہ کرنے نہیں دیتیں،یہ بھی لغو ہے، صفر کا مہینہ اور مہینوں کی طرح ہے، کچھ فرق نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا وكيع , عن ابي جناب , عن ابيه , عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا عدوى , ولا طيرة , ولا هامة" , فقام إليه رجل، فقال: يا رسول الله , البعير يكون به الجرب , فتجرب به الإبل , قال:" ذلك القدر فمن اجرب الاول". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي جَنَابٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى , وَلَا طِيَرَةَ , وَلَا هَامَةَ" , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , الْبَعِيرُ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ , فَتَجْرَبُ بِهِ الْإِبِلُ , قَالَ:" ذَلِكَ الْقَدَرُ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوت چھات، بدشگونی اور الو دیکھنے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اٹھ کر بولا: اللہ کے رسول! ایک اونٹ کو جب کھجلی ہوتی ہے تو دوسرے اونٹ کو بھی اس کی وجہ سے کھجلی ہو جاتی ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی تو تقدیر ہے، آخر پہلے اونٹ کو کس نے کھجلی والا بنایا“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ کہ امراض متعدی بھی ہوتے ہیں۔ ۲؎: اور جو ڈاکٹر یا حکیم ہمارے زمانے میں بعض بیماری میں عدوی بتلاتے ہیں، ان سے جب یہ اعتراض کرو کہ بھلا اگر عدوی صحیح ہوتا تو جس گھر میں ایک شخص کو ہیضہ ہو تو چاہیے کہ اس گھر کے بلکہ اس محلہ کے سب لوگ مر جائیں، تو اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیتے، بلکہ یوں کہتے ہیں کہ بعض مزاجوں میں اس بیماری کے قبول کرنے کا مادہ ہوتا ہے تو ان کو بیماری لگ جاتی ہے، بعض مزاجوں میں یہ مادہ نہیں ہوتا تو ان کو باوجود قرب کے بیماری نہیں لگتی، ہم یوں کہتے ہیں کہ مادے کا مزاج میں پیدا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ، تو پھر سب امور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئے اسی کی مرضی اور تقدیر سے پھر عدوی کا قائل ہونا کیا ضروری ہے؟۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ جانے دیا جائے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15075)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 33 (2221، 2223)، سنن ابی داود/الطب 24 (3911)، مسند احمد (2/434) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری متعدی ہوتی ہے، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے تندرست اور غیر مریض جانوروں کو مریض اونٹوں کے قریب لے جانے سے منع کیا، بلکہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا سابقہ تقدیر اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے، تو جانورں کا مالک تعدی کے ناحیہ سے فتنہ اور شک میں مبتلا ہو سکتا ہے، اس وجہ سے آپ نے دور رکھنے کا حکم دیا۔