عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ڈکار لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ڈکار کو ہم سے روکو، اس لیے کہ قیامت کے دن تم میں سب سے زیادہ بھوکا وہ رہے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ سیر ہو کر کھا تا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القیامة 37 (2478)، (تحفة الأشراف: 8563) (حسن)» (سند میں عبدالعزیز بن عبد اللہ منکر الحدیث، اور یحییٰ البکاء ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث شاہد کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 343)
وضاحت: ۱؎: جو آدمی کھاتا ہے اس کو اگر کھانا نہ ملے تو اس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، بہ نسبت اس کے جو کم کھاتا ہے جو بھوک پر صبر کرسکتا ہے، قیامت کا دن بہت لمبا ہو گا، اور دن بھر کھانا نہ ملنے سے زیادہ کھانے والے بہت پریشان ہوں گے، بعضوں نے کہا: جو لوگ بہت کھاتے ہیں ان کی آخری خواہش کھانا اور پینا ہوتی ہے، اور موت سے یہ خواہشیں ختم ہو جاتی ہیں، تو ان کو بہت ناگوار ہو گا، اور جو لوگ کم کھاتے ہیں، ان کو کھانے کی خواہش نہیں ہوتی، بلکہ زندگی کی بقاء اور عبادت کے لئے اپنی ضروریات اور بھوک پیاس پرقابو پا لیتے ہیں، ان کی خواہش عبادت اور تصفیہ قلب کی ہوتی ہے، اور وہ موت کے بعد قائم رہے گی، اس لئے وہ راحت اور عیش میں رہیں گے۔
عطیہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو کھانا کھانے پر مجبور کیا گیا تو میں نے ان کو کہتے سنا: میرے لیے کافی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیر ہو کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4506، ومصباح الزجاجة: 1156) (حسن)» (سند میں سعید بن محمد الوراق ضعیف ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 343)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اسراف ہے کہ تم ہر اس چیز کو کھاؤ جس کی تمہیں رغبت اور خواہش ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 543، ومصباح الزجاجة: 1157) (موضوع)» (نوح بن ذکوان باطل احادیث روایت کرتا تھا، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 241)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، آپ نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر اسے کھا لیا، اور فرمایا: ”عائشہ! احترام کے قابل چیز (یعنی اللہ کے رزق کی) عزت کرو، اس لیے کہ جب کبھی کسی قوم سے اللہ کا رزق پھر گیا، تو ان کی طرف واپس نہیں آیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16684، ومصباح الزجاجة: 1158) (ضعیف)» (ولید بن محمد الموقری ضعیف ہے، نیزملاحظہ ہو: الإواء: 1961)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من الجوع فإنه بئس الضجيع وأعوذ بك من الخيانة فإنها بئست البطانة»”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ بدترین ساتھی ہے، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ بری خفیہ خصلت ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14296، ومصباح الزجاجة: 1159)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 367 (1547)، سنن النسائی/الاستعاذة 19 (5471) (حسن)» (لیث بن ابی سلیم ضعیف اور کعب مجہول ر1وی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 1383)
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام کا کھانا مت ترک کرو اگرچہ اس کی مقدار ایک مشت کھجور ہو، اس لیے کہ شام کا کھانا نہ کھانے سے بڑھاپا آتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3052، ومصباح الزجاجة: 1160) (ضعیف جداً)» (ابراہیم بن عبدالسلام ضعیف اور متہم بالوضع راوی ہے، نیز ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 116)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف تیزی سے جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے جس میں مہمان کثرت سے آتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1447، ومصباح الزجاجة: 1161) (ضعیف)» (جبارہ اور کثیر دونوں ضعیف ہیں)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح چھری اونٹ کے کوہان کی طرف چلتی ہے اس سے بھی تیزی سے بھلائی اس گھر میں آتی ہے جس میں (مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے) کھانا پینا ہوتا رہتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5691، ومصباح الزجاجة: 1162) (ضعیف)» (جبارہ ضعیف اور عبدالرحمن بن نہشل متروک ہے)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بات سنت میں سے ہے کہ آدمی اپنے مہمان کے ساتھ (اسے رخصت کرتے وقت) گھر کے دروازے تک نکل کر آئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14189، ومصباح الزجاجة: 1163) (موضوع)» (علی بن عروہ متروک راوی ہے، حدیث وضع کرتا تھا، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 258)
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا، آپ تشریف لائے تو آپ کی نظر گھر میں تصویروں پر پڑی، تو آپ واپس لوٹ گئے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ جس دعوت میں خلاف شرع باتیں ہوں جیسے ناچ گانا، اور بے حیائی بے پردگی وغیرہ وغیرہ یا شراب نوشی،یا دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال تو اس میں شریک ہونا ضروری نہیں، اور جب وہاں جا کر یہ باتیں دیکھے تو لوٹ آئے اورکھانا نہ کھائے، اور اگر عالم دین اور پیشوا ہو اور اس بات کو دور نہ کر سکے تو لوٹ آئے کیونکہ وہاں بیٹھنے میں دین کی بے حرمتی اور اہانت ہے، اور دوسرے لوگوں کو گناہ کرنے کی جرأت بڑھے گی، یہ جب کہ دعوت میں جانے سے پہلے ان باتوں کی خبر نہ ہو، اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ وہاں خلاف شرع کوئی بات ہے تو دعوت قبول کرنا اس پر ضروری نہیں۔