(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري , قال: اخبرني سالم بن عبد الله، ان ابن عمر رضي الله عنهما، اخبره:" ان عمر انطلق مع النبي صلى الله عليه وسلم في رهط قبل ابن صياد حتى وجدوه يلعب مع الصبيان عند اطم بني مغالة، وقد قارب ابن صياد الحلم فلم يشعر حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده، ثم قال لابن صياد: تشهد اني رسول الله؟ , فنظر إليه ابن صياد , فقال: اشهد انك رسول الاميين، فقال ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم: اتشهد اني رسول الله؟ فرفضه , وقال: آمنت بالله وبرسله، فقال له: ماذا ترى؟ , قال ابن صياد: ياتيني صادق , وكاذب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: خلط عليك الامر، ثم قال له النبي صلى الله عليه وسلم: إني قد خبات لك خبيئا، فقال ابن صياد: هو الدخ، فقال: اخسا، فلن تعدو قدرك، فقال عمر رضي الله عنه: دعني يا رسول الله اضرب عنقه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن يكنه فلن تسلط عليه، وإن لم يكنه فلا خير لك في قتله".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ , فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ , فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَفَضَهُ , وَقَالَ: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ، فَقَالَ لَهُ: مَاذَا تَرَى؟ , قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ , وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ: اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے ‘ انہیں زہری نے ‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الدخان کی آیت کا تصور کیا «فارتقب يوم تاتی السماء بدخان مبين») ابن صیاد نے کہا وہ «دخ» ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑ دیجئیے میں اس کی گردن مار دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اگر یہ دجال ہے تو، تو اس پر غالب نہ ہو گا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہو گا۔
Narrated Ibn `Umar: `Umar set out along with the Prophet (p.b.u.h) with a group of people to Ibn Saiyad till they saw him playing with the boys near the hillocks of Bani Mughala. Ibn Saiyad at that time was nearing his puberty and did not notice (us) until the Prophet stroked him with his hand and said to him, "Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Messenger of illiterates." Then Ibn Saiyad asked the Prophet (p.b.u.h), "Do you testify that I am Allah's Apostle?" The Prophet (p.b.u.h) refuted it and said, "I believe in Allah and His Apostles." Then he said (to Ibn Saiyad), "What do you think?" Ibn Saiyad answered, "True people and liars visit me." The Prophet said, "You have been confused as to this matter." Then the Prophet said to him, "I have kept something (in my mind) for you, (can you tell me that?)" Ibn Saiyad said, "It is Al-Dukh (the smoke)." (2) The Prophet said, "Let you be in ignominy. You cannot cross your limits." On that `Umar, said, "O Allah's Apostle! Allow me to chop his head off." The Prophet (p.b.u.h) said, "If he is he (i.e. Dajjal), then you cannot overpower him, and if he is not, then there is no use of murdering him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 437
(مرفوع) وقال سالم: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما , يقول: انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب إلى النخل التي فيها ابن صياد، وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه ابن صياد، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع يعني: في قطيفة له فيها رمزة او زمرة، فرات ام ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: يا صاف وهو اسم ابن صياد هذا محمد صلى الله عليه وسلم، فثار ابن صياد , فقال: النبي صلى الله عليه وسلم لو تركته بين، وقال شعيب في حديثه: فرفصه رمرمة او زمزمة، وقال إسحاق الكلبيوعقيل: رمرمة، وقال معمر: رمزة.(مرفوع) وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ يَعْنِي: فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ، فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ , فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ: فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ أَوْ زَمْزَمَةٌ، وَقَالَ إِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّوَعُقَيْلٌ: رَمْرَمَةٌ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ.
اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جا رہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں «رمرمة فرفصه» اور عقیل نے «رمرمة» نقل کیا ہے اور معمر نے «رمزة» کہا ہے۔
(Ibn `Umar added): Later on Allah's Apostle (p.b.u.h) once again went along with Ubai bin Ka`b to the date-palm trees (garden) where Ibn Saiyad was staying. The Prophet (p.b.u.h) wanted to hear something from Ibn Saiyad before Ibn Saiyad could see him, and the Prophet (p.b.u.h) saw him lying covered with a sheet and from where his murmurs were heard. Ibn Saiyad's mother saw Allah's Apostle while he was hiding himself behind the trunks of the date-palm trees. She addressed Ibn Saiyad, "O Saf ! (and this was the name of Ibn Saiyad) Here is Muhammad." And with that Ibn Saiyad got up. The Prophet said, "Had this woman left him (Had she not disturbed him), then Ibn Saiyad would have revealed the reality of his case.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 437
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد وهو ابن زيد، عن ثابت، عن انس رضي الله عنه , قال:" كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض، فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند راسه فقال له: اسلم، فنظر إلى ابيه , وهو عنده، فقال له: اطع ابا القاسم صلى الله عليه وسلم فاسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: الحمد لله الذي انقذه من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهْوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ: أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ , وَهُوَ عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
Narrated Anas: A young Jewish boy used to serve the Prophet and he became sick. So the Prophet went to visit him. He sat near his head and asked him to embrace Islam. The boy looked at his father, who was sitting there; the latter told him to obey Abul-Qasim and the boy embraced Islam. The Prophet came out saying: "Praises be to Allah Who saved the boy from the Hell-fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 438
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا تھا کہ میں اور میری والدہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ میں بچوں میں اور میری والدہ عورتوں میں۔
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، قال ابن شهاب:" يصلى على كل مولود متوفى، وإن كان لغية من اجل انه ولد على فطرة الإسلام يدعي ابواه الإسلام او ابوه خاصة، وإن كانت امه على غير الإسلام إذا استهل صارخا صلي عليه ولا يصلى على من لا يستهل من اجل انه سقط، فإن ابا هريرة رضي الله عنه كان يحدث، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فابواه يهودانه او ينصرانه او يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء، هل تحسون فيها من جدعاء"، ثم يقول ابو هريرة رضي الله عنه: فطرة الله التي فطر الناس عليها سورة الروم آية 30.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:" يُصَلَّى عَلَى كُلِّ مَوْلُودٍ مُتَوَفًّى، وَإِنْ كَانَ لِغَيَّةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ يَدَّعِي أَبَوَاهُ الْإِسْلَامَ أَوْ أَبُوهُ خَاصَّةً، وَإِنْ كَانَتْ أُمُّهُ عَلَى غَيْرِ الْإِسْلَامِ إِذَا اسْتَهَلَّ صَارِخًا صُلِّيَ عَلَيْهِ وَلَا يُصَلَّى عَلَى مَنْ لَا يَسْتَهِلُّ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ سِقْطٌ، فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا سورة الروم آية 30.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب ہر اس بچے کی جو وفات پا گیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو جب بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گر جانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ «فطرة الله التي فطر الناس عليها» الآية ”یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“
Narrated Ibn Shihab: The funeral prayer should be offered for every child even if he were the son of a prostitute as he was born with a true faith of Islam (i.e. to worship none but Allah Alone). If his parents are Muslims, particularly the father, even if his mother were a non-Muslim, and if he after the delivery cries (even once) before his death (i.e. born alive) then the funeral prayer must be offered. And if the child does not cry after his delivery (i.e. born dead) then his funeral prayer should not be offered, and he will be considered as a miscarriage. Abu Huraira, narrated that the Prophet said, "Every child is born with a true faith (i.e. to worship none but Allah Alone) but his parents convert him to Judaism or to Christianity or to Magainism, as an animal delivers a perfect baby animal. Do you find it mutilated?" Then Abu Huraira recited the holy verses: 'The pure Allah's Islamic nature (true faith i.e. to worship none but Allah Alone), with which He has created human beings.' " (30.30).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 440
(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة رضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فابواه يهودانه وينصرانه او يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء، هل تحسون فيها من جدعاء"، ثم يقول ابو هريرة رضي الله عنه: فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم سورة الروم آية 30.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ سورة الروم آية 30.
ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کا کوئی عضو (پیدائشی طور پر) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ‘ یہی «دين القيم» ہے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Every child is born with a true faith of Islam (i.e. to worship none but Allah Alone) but his parents convert him to Judaism, Christianity or Magainism, as an animal delivers a perfect baby animal. Do you find it mutilated?" Then Abu Huraira recited the holy verses: "The pure Allah's Islamic nature (true faith of Islam) (i.e. worshipping none but Allah) with which He has created human beings. No change let there be in the religion of Allah (i.e. joining none in worship with Allah). That is the straight religion (Islam) but most of men know, not." (30.30)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 441
(مرفوع) حدثنا إسحاق، اخبرنا يعقوب بن إبراهيم , قال: حدثني ابي , عن صالح، عن ابن شهاب , قال: اخبرني سعيد بن المسيب، عن ابيه، انه اخبره، انه" لما حضرت ابا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده ابا جهل بن هشام وعبد الله بن ابي امية بن المغيرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابي طالب:" يا عم، قل: لا إله إلا الله كلمة اشهد لك بها عند الله، فقال ابو جهل: وعبد الله بن ابي امية: يا ابا طالب اترغب عن ملة عبد المطلب، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه , ويعودان بتلك المقالة، حتى قال ابو طالب: آخر ما كلمهم هو على ملة عبد المطلب، وابى ان يقول: لا إله إلا الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما والله لاستغفرن لك ما لم انه عنك، فانزل الله تعالى فيه: ما كان للنبي سورة التوبة آية 113".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ" لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ:" يَا عَمِّ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ , وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ: آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ سورة التوبة آية 113".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ (ابراہیم بن سعد) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ (مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیں یہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله»(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تاآنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان للنبي» الآية نازل فرمائی۔ (التوبہ: 113)
Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab from his father: When the time of the death of Abu Talib approached, Allah's Apostle went to him and found Abu Jahl bin Hisham and `Abdullah bin Abi Umaiya bin Al-Mughira by his side. Allah's Apostle said to Abu Talib, "O uncle! Say: None has the right to be worshipped but Allah, a sentence with which I shall be a witness (i.e. argue) for you before Allah. Abu Jahl and `Abdullah bin Abi Umaiya said, "O Abu Talib! Are you going to denounce the religion of `Abdul Muttalib?" Allah's Apostle kept on inviting Abu Talib to say it (i.e. 'None has the right to be worshipped but Allah') while they (Abu Jahl and `Abdullah) kept on repeating their statement till Abu Talib said as his last statement that he was on the religion of `Abdul Muttalib and refused to say, 'None has the right to be worshipped but Allah.' (Then Allah's Apostle said, "I will keep on asking Allah's forgiveness for you unless I am forbidden (by Allah) to do so." So Allah revealed (the verse) concerning him (i.e. It is not fitting for the Prophet and those who believe that they should invoke (Allah) for forgiveness for pagans even though they be of kin, after it has become clear to them that they are companions of the fire (9.113).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 442
واوصى بريدة الاسلمي ان يجعل في قبره جريدان وراى ابن عمر رضي الله عنهما فسطاطا على قبر عبد الرحمن , فقال: انزعه يا غلام فإنما يظله عمله , وقال خارجة بن زيد رايتني ونحن شبان في زمن عثمان رضي الله عنه , وإن اشدنا وثبة الذي يثب قبر عثمان بن مظعون حتى يجاوزه , وقال عثمان بن حكيم اخذ بيدي خارجة فاجلسني على قبر , واخبرني عن عمه يزيد بن ثابت , قال: إنما كره ذلك لمن احدث عليه , وقال: نافع كان ابن عمر رضي الله عنهما يجلس على القبور.وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الْأَسْلَمِيُّ أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ وَرَأَى ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فُسْطَاطًا عَلَى قَبْرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , فَقَالَ: انْزِعْهُ يَا غُلَامُ فَإِنَّمَا يُظِلُّهُ عَمَلُهُ , وَقَالَ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ رَأَيْتُنِي وَنَحْنُ شُبَّانٌ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , وَإِنَّ أَشَدَّنَا وَثْبَةً الَّذِي يَثِبُ قَبْرَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ حَتَّى يُجَاوِزَهُ , وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ أَخَذَ بِيَدِي خَارِجَةُ فَأَجْلَسَنِي عَلَى قَبْرٍ , وَأَخْبَرَنِي عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ , قَالَ: إِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ لِمَنْ أَحْدَثَ عَلَيْهِ , وَقَالَ: نَافِعٌ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَجْلِسُ عَلَى الْقُبُورِ.
اور بریدہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں لگا دی جائیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک خیمہ تنا ہوا دیکھا تو کہنے لگے کہ اے غلام! اسے اکھاڑ ڈال اب ان پر ان کا عمل سایہ کرے گا اور خارجہ بن زید نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر چھلانگ لگا کر اس پار کود جاتا اور عثمان بن حکیم نے بیان کیا کہ خارجہ بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک قبر پر مجھ کو بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے روایت کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو منع ہے جو پیشاب یا پاخانہ کے لیے اس پر بیٹھے۔ اور نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه" مر بقبرين يعذبان , فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير، اما احدهما فكان لا يستتر من البول، واما الآخر فكان يمشي بالنميمة، ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين، ثم غرز في كل قبر واحدة، فقالوا يا رسول الله: لم صنعت هذا؟ فقال: لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ , فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ: لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہو رہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
Narrated Ibn `Abbas: The Prophet once passed by two graves, and those two persons (in the graves) were being tortured. He said, "They are being tortured not for a great thing (to avoid). One of them never saved himself from being soiled with his urine, while the other was going about with calumnies (to make enmity between friends). He then took a green leaf of a date-palm tree split it into two pieces and fixed one on each grave. The people said, "O Allah's Apostle! Why have you done so?" He replied, "I hope that their punishment may be lessened till they (the leaf) become dry."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 443
الاجداث: القبور , بعثرت: اثيرت , بعثرت حوضي: اي جعلت اسفله اعلاه الإيفاض الإسراع , وقرا الاعمش إلى نصب إلى شيء منصوب يستبقون إليه والنصب واحد , والنصب مصدر يوم الخروج من القبور ينسلون يخرجون.الْأَجْدَاثُ: الْقُبُورُ , بُعْثِرَتْ: أُثِيرَتْ , بَعْثَرْتُ حَوْضِي: أَيْ جَعَلْتُ أَسْفَلَهُ أَعْلَاهُ الْإِيفَاضُ الْإِسْرَاعُ , وَقَرَأَ الْأَعْمَشُ إِلَى نَصْبٍ إِلَى شَيْءٍ مَنْصُوبٍ يَسْتَبِقُونَ إِلَيْهِ وَالنُّصْبُ وَاحِدٌ , وَالنَّصْبُ مَصْدَرٌ يَوْمُ الْخُرُوجِ مِنَ الْقُبُورِ يَنْسِلُونَ يَخْرُجُونَ.
سورۃ القمر میں آیت «يخرجون من الأجداث» میں «أجداث» سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورۃ انفطار میں «بعثرت» کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں «بعثرت حوضي» کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کر دیا۔ «إيفاض» کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرآت میں «إلى نصب»( «بفتح نون») ہے یعنی ایک «شىء منصوب» کی طرف تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ «نصب»( «بضم نون») واحد ہے اور «نصيب»( «بفتح نون») مصدر ہے اور سورۃ ق میں «يوم الخروج» سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورۃ انبیاء میں «ينسلون» «يخرجون» کے معنے میں ہے۔