سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
حدیث نمبر: 2949
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، ح وحدثنا هدية بن عبد الوهاب ، حدثنا الفضل بن موسى ، قالا: حدثنا معروف بن خربوذ المكي ، قال: سمعت ابا الطفيل عامر بن واثلة ، قال:" رايت النبي صلى الله عليه وسلم يطوف بالبيت على راحلته، يستلم الركن بمحجنه، ويقبل المحجن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، ح وحَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَعْرُوفُ بْنُ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ عَامِرَ بْنَ وَاثِلَةَ ، قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِهِ، وَيُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ".
ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ حجر اسود کا استلام چھڑی سے کر رہے تھے، اور چھڑی کا بوسہ لے رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 39 (1265)، سنن ابی داود/الحج 49 (1879)، (تحفة الأشراف: 5051)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/454) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
29. بَابُ: الرَّمَلِ حَوْلَ الْبَيْتِ
29. باب: بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان۔
Chapter: Walking quickly when going around the House
حدیث نمبر: 2950
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا احمد بن بشير ، ح وحدثنا علي بن محمد ، حدثنا محمد بن عبيد ، قالا: حدثنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا طاف بالبيت الطواف الاول رمل ثلاثة، ومشى اربعة، من الحجر إلى الحجر"، وكان ابن عمر يفعله.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ ، ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ الطَّوَافَ الْأَوَّلَ رَمَلَ ثَلَاثَةً، وَمَشَى أَرْبَعَةً، مِنَ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف (طواف قدوم) کرتے تو تین چکروں میں رمل کرتے (یعنی طواف میں قریب قریب قدم رکھ کے تیز چلتے) اور چار چکروں میں عام چال چلتے اور یہ چکر حجر اسود پر شروع کر کے حجر اسود پر ہی ختم کرتے، ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7797، 8117، ومصباح الزجاجة: 1037)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 63 (1616)، صحیح مسلم/الحج 39 (1262)، سنن ابی داود/الحج 51 (1891)، سنن النسائی/الحج 150 (2943)، موطا امام مالک/الحج 34 (80)، مسند احمد (3/13)، سنن الدارمی/المناسک 27 (1883، 1884) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: رمل: ذرا دوڑ کر مونڈ ھے ہلاتے ہوئے چلنے کو رمل کہتے ہیں جیسے بہادر اور زور آور سپاہی چلتے ہیں، یہ طواف کے ابتدائی تین پھیروں میں کرتے ہیں، اوراس کا سبب صحیحین کی روایت میں مذکور ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب مکہ میں آئے تو مشرکین نے کہا کہ یہ لوگ مدینہ کے بخار سے کمزور ہو گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین پھیروں میں رمل کرنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین کو یہ معلوم کرائیں کہ مسلمان ناتوان اور کمزور نہیں ہوئے بلکہ طاقتور ہیں، پھر یہ سنت اسلام کی ترقی کے بعد بھی قائم رہی اور قیامت تک قائم رہے گی، پس رمل کی مشروعیت اصل میں مشرکوں کو ڈرانے کے لیے ہوئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح، صحيح بخاري
حدیث نمبر: 2951
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو الحسين العكلي ، عن مالك بن انس ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر " ان النبي صلى الله عليه وسلم رمل من الحجر إلى الحجر ثلاثا، ومشى اربعا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ الْعُكْلِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ مِنَ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے شروع کر کے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار میں عام چال چلے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 39 (1663)، سنن الترمذی/الحج 33 (856)، سنن النسائی/الحج 154 (2947)، (تحفة الأشراف: 2594)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحج 51 (1891)، مسند احمد (3/320، 340، 394)، سنن الدارمی/المناسک 27 (1882) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2952
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا جعفر بن عون ، عن هشام بن سعد ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، قال: سمعت عمر يقول:" فيم الرملان الآن؟ وقد اطا الله الإسلام، ونفى الكفر واهله، وايم الله ما ندع شيئا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ:" فِيمَ الرَّمَلَانُ الْآنَ؟ وَقَدْ أَطَّأَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ، وَنَفَى الْكُفْرَ وَأَهْلَهُ، وَايْمُ اللَّهِ مَا نَدَعُ شَيْئًا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ اب دونوں رمل (ایک طواف کا، دوسرا سعی کا) کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مضبوط کر دیا، اور کفر اور اہل کفر کا خاتمہ کر دیا ہے، لیکن قسم اللہ کی! ہم تو کوئی ایسی بات چھوڑنے والے نہیں جس پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عمل کیا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 51 (1887)، (تحفة الأشراف: 10391)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/45) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت کے جس حکم کی علت و حکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو ویسے ہی چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کی ہو بہو تابعداری کی جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2953
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن ابن خثيم ، عن ابي الطفيل ، عن ابن عباس ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه حين ارادوا دخول مكة في عمرته بعد الحديبية:" إن قومكم غدا سيرونكم فليرونكم جلدا"، فلما دخلوا المسجد استلموا الركن، ورملوا والنبي صلى الله عليه وسلم معهم، حتى إذا بلغوا الركن اليماني، مشوا إلى الركن الاسود، ثم رملوا، حتى بلغوا الركن اليماني، ثم مشوا إلى الركن الاسود، ففعل ذلك ثلاث مرات ثم مشى الاربع.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ حِينَ أَرَادُوا دُخُولَ مَكَّةَ فِي عُمْرَتِهِ بَعْدَ الْحُدَيْبِيَةِ:" إِنَّ قَوْمَكُمْ غَدًا سَيَرَوْنَكُمْ فَلَيَرَوُنَّكُمْ جُلْدًا"، فَلَمَّا دَخَلُوا الْمَسْجِدَ اسْتَلَمُوا الرُّكْنَ، وَرَمَلُوا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ، حَتَّى إِذَا بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ، مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، ثُمَّ رَمَلُوا، حَتَّى بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ، ثُمَّ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ مَشَى الْأَرْبَعَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہونا چاہا، تو اپنے صحابہ سے فرمایا: کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیئے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنانچہ جب یہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کیا، پھر چار مرتبہ عام چال چلے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 51 (1890)، سنن الترمذی/الحج 39 (863)، سنن النسائی/الحج 176 (2982)، (تحفة الأشراف: 5777)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 80 (1649)، المغازي 43 (4257)، صحیح مسلم/الحج 39 (1266)، مسند احمد (1/221، 255، 306، 310، 311، 373) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
30. بَابُ: الاِضْطِبَاعِ
30. باب: طواف کے دوران اضطباع کا بیان۔
Chapter: The Ibtida’
حدیث نمبر: 2954
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا محمد بن يوسف ، وقبيصة ، قالا: حدثنا سفيان ، عن ابن جريج ، عن عبد الحميد ، عن ابن يعلى بن امية ، عن ابيه يعلى " ان النبي صلى الله عليه وسلم طاف مضطبعا"، قال قبيصة: وعليه برد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، وَقَبِيصَةُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ يَعْلَى " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ مُضْطَبِعًا"، قَالَ قَبِيصَةُ: وَعَلَيْهِ بُرْدٌ.
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کر کے طواف کیا، قبیصہ کے الفاظ اس طرح ہیں: «وعليه برد» اور آپ کے جسم پر چادر تھی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 50 (1883)، سنن الترمذی/الحج 36 (859)، (تحفة الأشراف: 11839)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/222، 223، 224)، سنن الدارمی/المناسک 28 (1885) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
اضطباع: اس کی شکل یہ ہے کہ محرم چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دے اور دایاں کندھا کھلا رکھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (1883) ترمذي (859)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
31. بَابُ: الطَّوَافِ بِالْحِجْرِ
31. باب: طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔
Chapter: The Tawaf around the Hijr
حدیث نمبر: 2955
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبيد الله بن موسى ، حدثنا شيبان ، عن اشعث بن ابي الشعثاء ، عن الاسود بن يزيد ، عن عائشة ، قالت: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحجر، فقال:" هو من البيت"، قلت: ما منعهم ان يدخلوه فيه؟، فقال:" عجزت بهم النفقة"، قلت: فما شان بابه مرتفعا، لا يصعد إليه إلا بسلم؟، قال:" ذلك فعل قومك ليدخلوه من شاءوا، ويمنعوه من شاءوا، ولولا ان قومك حديث عهد بكفر، مخافة ان تنفر قلوبهم، لنظرت هل اغيره فادخل فيه ما انتقص منه، وجعلت بابه بالارض".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ، فَقَالَ:" هُوَ مِنْ الْبَيْتِ"، قُلْتُ: مَا مَنَعَهُمْ أَنْ يُدْخِلُوهُ فِيهِ؟، فَقَالَ:" عَجَزَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ"، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا، لَا يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلَّا بِسُلَّمٍ؟، قَالَ:" ذَلِكَ فِعْلُ قَوْمِكِ لِيُدْخِلُوهُ مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوهُ مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ هَلْ أُغَيِّرُهُ فَأُدْخِلَ فِيهِ مَا انْتَقَصَ مِنْهُ، وَجَعَلْتُ بَابَهُ بِالْأَرْضِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے قریب نہ گزرا ہوتا اور (اسلام سے) ان کے دلوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کر دوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 42 (1584)، أحادیث الأنبیاء 10 (3368)، تفسیر البقرة 10 (4484)، صحیح مسلم/الحج 69 (1333)، سنن النسائی/الحج 128 (2913)، (تحفة الأشراف: 16005)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 33 (104)، سنن الدارمی/المناسک 44 (1911) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حطیم کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہو گا۔
اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں یعنی نیچا کر دوں کہ جس کا جی چاہے بغیر سیڑھی کے اندر چلا جائے دوسری روایت میں ہے کہ میں اس کے دو دروازے کرتا ایک پورب ایک پچھم، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض کام مصلحت کے ہوتے ہیں، لیکن اس میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کو ترک کرنا جائز ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے عہد میں کعبہ ایسا ہی رہا اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا بنانے کی فرصت نہیں ہوئی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں کعبہ کو اسی طرح بنایا جیسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانا چاہا تھا، لیکن حجاج نے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تو ضد سے پھر کعبہ کو توڑ کر ویسا ہی کر دیا جیسا جاہلیت کے زمانے میں تھا، خیر پھر اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنی خلافت میں امام مالک سے سوال کیا کہ اگر آپ کہیں تو میں کعبہ کو پھر توڑ کر جیسا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بنایا تھا، ویسا ہی کر دوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اب کعبہ کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ اس کی وقعت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
32. بَابُ: فَضْلِ الطَّوَافِ
32. باب: طواف کعبہ کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: The virtue of Tawaf
حدیث نمبر: 2956
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا محمد بن الفضيل ، عن العلاء بن المسيب ، عن عطاء ، عن عبد الله بن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من طاف بالبيت، وصلى ركعتين كان كعتق رقبة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو کوئی بیت اللہ کا طواف کرے، اور دو رکعتیں پڑھے تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے مانند ہے۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7331، ومصباح الزجاجة: 1039)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 111 (959)، سنن النسائی/الحج 134 (2922)، مسند احمد (2/3، 11، 95) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2957
Save to word اعراب
(مرفوع) (حديث مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، حدثنا حميد بن ابي سوية ، قال: سمعت ابن هشام، يسال عطاء بن ابي رباح عن الركن اليماني، وهو يطوف بالبيت؟، فقال عطاء : حدثني ابو هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" وكل به سبعون ملكا، فمن قال: اللهم إني اسالك العفو والعافية في الدنيا والآخرة، ربنا آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار، قالوا: آمين".
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) فلما بلغ فلما بلغ الركن الاسود، قال: يا ابا محمد، ما بلغك في هذا الركن الاسود؟، فقال عطاء : حدثني ابو هريرة انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من فاوضه، فإنما يفاوض يد الرحمن".
(حديث موقوف) قال له ابن هشام: يا ابا محمد، فالطواف، قال قال له ابن هشام: يا ابا محمد، فالطواف، قال عطاء : حدثني ابو هريرة انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من طاف بالبيت سبعا، ولا يتكلم إلا بسبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله، محيت عنه عشر سيئات، وكتبت له عشر حسنات، ورفع له بها عشرة درجات، ومن طاف فتكلم، وهو في تلك الحال خاض في الرحمة برجليه، كخائض الماء برجليه".
(مرفوع) (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي سَوِيَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ هِشَامٍ، يَسْأَلُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ الرُّكْنِ الْيَمَانِي، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ؟، فَقَالَ عَطَاءٌ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" وُكِلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا، فَمَنْ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، قَالُوا: آمِينَ".
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَلَمَّا بَلَغَ فَلَمَّا بَلَغَ الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، مَا بَلَغَكَ فِي هَذَا الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ؟، فَقَالَ عَطَاءٌ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ فَاوَضَهُ، فَإِنَّمَا يُفَاوِضُ يَدَ الرَّحْمَنِ".
(حديث موقوف) قَالَ لَهُ ابْنُ هِشَامٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، فَالطَّوَافُ، قَالَ قَالَ لَهُ ابْنُ هِشَامٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، فَالطَّوَافُ، قَالَ عَطَاءٌ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَلَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا بِسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، مُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ بِهَا عَشْرَةُ دَرَجَاتٍ، وَمَنْ طَافَ فَتَكَلَّمَ، وَهُوَ فِي تِلْكَ الْحَالِ خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ بِرِجْلَيْهِ، كَخَائِضِ الْمَاءِ بِرِجْلَيْهِ".
حمید بن ابی سویہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ہشام کو عطاء بن ابی رباح سے رکن یمانی کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا، اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، تو عطاء نے کہا: مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں جو کوئی «اللهم إني أسألك العفو والعافية في الدنيا والآخرة ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں مغفرت اور عافیت طلب کرتا ہوں، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں، پھر جب عطاء حجر اسود کے پاس پہنچے تو ابن ہشام نے کہا: ابو محمد! اس حجر اسود کے بارے میں آپ کو کیا بات پہنچی ہے؟ عطاء نے کہا: مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو اس کو چھوتا ہے وہ گویا رحمن کا ہاتھ چھو رہا ہے۔‏‏‏‏ ابن ہشام نے ان سے کہا: ابو محمد! طواف یعنی اس کے متعلق آپ کو کیا معلوم ہے؟ عطاء نے کہا: مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا ہے: جو خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے اور «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولاقوة إلا بالله» کے علاوہ کوئی بات نہ کرے، تو اس کی دس برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کے دس درجے بڑھا دئیے جائیں گے، اور جو طواف کرے اور بات کرے تو اس کے پاؤں رحمت میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، جیسے پانی میں داخل ہونے والے کے پاؤں پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14174، ومصباح الزجاجة: 1038) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حمید مجہول، اور اسماعیل بن عیاش غیر شامی رواة سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: المشکاة: 2590)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،حميد (بن أبي سوية) قال فيه ابن عدي: أحاديثه غير محفوظة وقال الذهبي: مجهول“
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
33. بَابُ: الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الطَّوَافِ
33. باب: طواف کے بعد کی دو رکعت کا بیان۔
Chapter: Two Rak`ah after Tawaf
حدیث نمبر: 2958
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن ابن جريج ، عن كثير بن كثير بن المطلب بن ابي وداعة السهمي ، عن ابيه ، عن المطلب ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من سبعه، جاء حتى يحاذي بالركن، فصلى ركعتين في حاشية المطاف، وليس بينه وبين الطواف احد"، قال ابن ماجة: هذا بمكة خاصة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِهِ، جَاءَ حَتَّى يُحَاذِيَ بِالرُّكْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي حَاشِيَةِ الْمَطَافِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ"، قَالَ ابْن مَاجَةَ: هَذَا بِمَكَّةَ خَاصَّةً.
مطلب بن ابی وداعہ سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ اپنے ساتوں پھیروں سے فارغ ہوئے حجر اسود کے بالمقابل آ کر کھڑے ہوئے، پھر مطاف کے کنارے میں دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے بیچ میں کوئی آڑ نہ تھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ (بغیر سترہ کے نماز پڑھنا) مکہ کے ساتھ خاص ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 89 (2016)، سنن النسائی/القبلة 9 (759)، الحج 162 (2962)، (تحفة الأشراف: 11285)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/399) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں کثیر بن مطلب مجہول راوی ہیں، نیز سند میں بھی اختلاف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 928)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2016) نسائي (759،2962)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.